انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خبرِواحد کے لائق قبول ہونے پر نبوی موقف آنحضرتﷺ نے جواسلامی معاشرہ ترتیب دیا اس میں خبرواحد کی بناء پر بہت احکام چلتے تھے، دینی اطلاعات میں فرائض تک کا اعلان خبرِواحد سے کافی سمجھاجاتا اور اس پر اس پہلو سے کہیں نکیر نہ سنی گئی: (۱)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْجَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ"۔ (بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ لوگ صبح کی نماز کے لیے مسجد قباء میں تھے کہ اُن کےپاس ایک آنے والا آیااس نے کہا کہ آج رات حضورؐ پرحکم قرآنی اُترا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف رُخ کیا کریں؛ سوتم کعبہ کوہی قبلہ بناؤ ان لوگوں کے رُخ شام کی طرف تھے؛ سوسب کعبہ کی طرف گھوم گئے۔ نماز دین کا ستون ہے، صحابہ کرام اگر اس میں ایک خبرلانے والے پر اعتماد کرکے اپنا قبلہ بدل سکتے ہیں توظاہر ہے کہ اس معاشرہ میں خبرِواحد بشرطیکہ خبرلانے والا ثقہ عادل اور قابلِ اعتماد ہوتو کتنا قانونی اور اخلاقی وزن ہوگا، اس پر آپ خود ہی غور فرمالیں۔ (۲) "عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَهْلِ نَجْرَانَ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ"۔ (بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۳، شاملہ، موقع الإسلام) حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اہلِ نجران کوفرمایا میں تمہاری طرف ایک پورے امین شخص کوبھیجوں گا، سب صحابہ سراُٹھاکر دیکھنے لگے (کہ آپ کس کو بھیجتے ہیں اور کون ایسا امین ہے جوحق امانت کا پورا حامل ہو) سوآپ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ اہلِ نجران کے سامنے اگرایک شخص اسلام کی آواز لگاسکتا تھا اور وہ ساری قوم اس کی مکلف ہوسکتی ہے کہ اس ایک کی بتائی ہوئی دینی رہنمائی کواسلام اور حضورﷺ کی تعلیم سمجھے توخبرواحد کے لائق قبول ہونے میں کسی کوکیا شک ہوسکتا ہے، حضورﷺ نے اہلِ نجران کواس راوی کی صفات بیان کرتے ہوئے جوان کے ہاں دین کوروایت کرے گا، خبردی کہ وہ راوی امین ہوگا، اس سے پتہ چلتا ہےکہ امین راوی کی بنیادی صفت ہے، حافظے کے پہلو سے بھی وہ امین ہو، اس سے کوئی بات رہ نہ جائے اور دیانت کے پہلو سے بھی وہ امین ہوکوئی غلط بات نہ کہہ سکے۔ (۳)"عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَاغَابَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدْتُهُ أَتَيْتُهُ بِمَا يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَاغِبْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدَهُ أَتَانِي بِمَايَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔ (بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری جب کبھی حضورﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکتے توانہیں حضورﷺ کی باتیں میں بتادیا کرتا تھا اور جب کبھی میں حضورﷺ سے غائب ہوتا اور وہ انصاری حاضر ہوتے تووہ مجھے حضورﷺ کی باتیں بتادیا کرتے تھے۔ یہ آنحضرتﷺ کے دوصحابی جب ایک دوسرے کے سامنے حضورﷺ کی وہ تعلیمات نقل کرتے جواُس ایک نے حضورﷺ سے سنی ہوتیں تواسے سن کر اسے پوری طرح قبول کرلیتے، کیا یہ اس اَمر کی کھلی شہادت نہیں کہ حضورﷺ نے جواسلامی معاشرہ قائم کیا تھا اس میں خبرِواحد بلاتردد لائقِ قبول سمجھی جاتی تھی، صرف یہی دیکھا جاتا تھا کہ خبرِواحد لانے والا وہ شخص کس درجہ کا ثقہ اور امین ہے۔ قواعدِ حدیث کے اصولِ اعتماد جس طرح قرآنی آیات میں دلالت اور اشارت سے لپٹے ہوئے ملے تھے، انہیں ہم نے نبوی موقف میں بھی نہایت واضح طور پر موجود پایا، خبر دینے والا ثقہ اور امین ہوتوخبر واحد بلاتردد قبول کی جائے گی، اب صرف ایک بات لائقِ غور رہ جاتی ہے کہ نقل روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری ہے یاروایت بالمعنی بھی کفایت کرسکتی ہے۔