انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فقہ اسلامی اور رومن قوانین علومِ اسلامی میں علوم القرآن اور علوم الحدیث کے بعد جس علم کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ "فقہ" ہے اور اسلامی تاریخ کی بہترین ذہانتیں اور صلاحیتیں اس فن کی آبایاری اور نشوونما میں صرف ہوئی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ایک "نبی اُمی" (فداہ روحی) کای لائی ہوئی شریعت کے ایک ایک حکم کی عقدہ کشائی کے لیے زمانہ کے اتنے ذکی، عالی حوصلہ بالغ نگاہ اور وسیع النظر شخصیتوں کا شب وروم اورسحر وشام مصروف عمل ہوجانا بجائے خود آپﷺ کا ایک معجزہ اور آپﷺ کی صداقت وحقانیت کی دلیل ہے۔ "فقہ اسلامی" نے جس وسعت اور ہمہ گیری کے ساتھ انسانی زندگی کا احاطہ کیا ہے اور زندگی کے تمام مسائل ومشکلات میں رہبری کافریضہ انجام دیا ہے؛ نیز اس کی تمام جزئیات میں جونظم ونسق اور ربطِ باہم ہے، ایک خاص قسم کا توازن واعتدال ہے، عصری تغیرات کواحتیاط کے ساتھ مناسب طور پرقبول کرنے کی صلاحیت ہے اور اس کی منصوبہ بندی کے لیے علماء نے احکام کے استنباط کے جوطریقے مقرر کئے ہیں، مسائل واحکام کی درجہ بندی کی ہے، شریعت کے مقاصد متعین کئے ہیں، مصلحتوں کوقبول کرنے کے اصول وضع کئے ہیں، جن کو"اصول فقہ" کہا جاتا ہے __________ وہ بقول مشہور محقق ڈاکٹر حمیداللہ (پیرس) قانون کی تاریخ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ (خطباتِ بھاولپور، خطبہ:۴۔ تاریخ اصول فقہ واجتہاد:۱۱۸، فقہ:۱۱۰، ڈاکٹر صاحب نے اصولِ فقہ کومسلمانوں کی ایجادِ خاص قرار دیا ہے) اسی طرح اسلامی قانون کواسلامی زندگی سے مربوط اور زمانہ کے مسائل سے ہم آہنگ رکھنے کی غرض سے جوٹھوس نظریات فقہاء نے پیش کئے ہیں اور جن کو "قواعد فقہ" سے موسوم کیا ہے، وہ ان کی قانونی دقت نظر، ژرف نگاہی اور زمانہ آگہی کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔ مستشرقین علماء جن کومشرق اور خصوصیت سے اسلام کی کوئی خوبی ایک نظر نہیں بھاتی؛ اگرہنرکو عیب بنانے میں کامیاب نہ ہوں توکم ازکم اتنا توکرتے ہی ہیں کہ مسلمانوں اور عربوں کے کارناموں کا رشتہ کسی اور قوم اور خاص کرروم ویونان سے جوڑ دیتے ہیں؛ تاکہ یہ مسلماونں کے کھاتہ میں نہ رہ سکے؛ یہی کام ان حضرات نے فقہ کے بارے میں کیا اور اسلامی فقہ اور خصوصیت سے "حنفی فقہ" کو"رومن قوانین" سے ماخوذ ومستفاد اور قرآن وحدیث سے بے تعلق یاکم ہم آہنگ قرار دیا ہے، ان سطور میں اسی پرروشنی ڈالی جانی ہے۔ تین بحث طلب نکات اس کے لیے اوّل یہ بات دیکھنی ہوگی کہ کیا امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ تک رومن قوانین کی رسائی تاریخی قرائن کی روشنی میں ممکن ہے؟ دوسرے امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے فقہاء اسلام نے احکام شریعت کے لیے جومصادر مقرر کئے ہیں ان میں کسی اجنبی قانون کے لیے کوئی جگہ ہے یانہیں؟ اور وہ کس حد تک کتاب وسنت سے متعلق یاغیرمتعلق ہیں، تیسرے رومن قوانین اور فقہ اسلامی کا مسائل زندگی کے مختلف شعبوں میں موامنہ کرنا ہوگا کہ ان میں کس درجہ مطابقت اور ہم ااہنگی ہے اور جن احکام میں مطابقت ہے اس کی بنیاد کتاب وسنت اور عقل عام کے تقاضے ہیں، یارومی قوانین سے استفادہ، یہ تین نکاح ہیں، جن کی روشنی میں بہ سہولت اس دعوے کوکہ فقہ حنفی رومی قوانین سے مستفاد ہے، پرکھا جاسکتا ہے اور اسی ترتیب سے مجھے اس مسئلہ پرگفتگو کرنی ہے۔ تاریخی قرائن امام ابوحنیفہؒ (۸۰۔۱۵۰ھ) ارانی النسل تھے، اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آپ فارسی زبان سے واقف رہے ہوں گے؛ لیکن امام صاحب کے زمانہ تک عراق اور خلافتِ اسلامی کے مشرقی صوبہ جات میں عربی مبان پوری طرح حاوی ہوچکی تھی؛ یہی تصنیف وتالیف، تدریس وقضاء، سرکاری دفاتر وامثلہ جات؛ یہاں تک کہ وعظ وپند اور روزمرہ بول چال کی زبان تھی، اس کی ایک وجہ تواس پورے خطہ کا دامنِ اسلام میں آجانا اور اسلام کے بنیادی لٹریچر قرآن وحدیث کا عربی زبان میں ہونا ہے، دوسرے عربوں کا سیاسی غلبہ اور تیسرے مفتوح قوموں پرفاتح اقوام کا ایک نفسیاتی اثر اور زبان وتہذیب میں فاتحین کے مقابلے کمتری اور مرعوبیت کا احساس بھی اس کی وجہ ہوسکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بھی اصل زبان یہی تھی اور اسی میں آپ کے علوم کا تمام خزانہ محفوظ ہے، نہ ہی آپ رومی زبان سے واقف تھے، نہ شام وفلسطین کے ایسے علاقوں سے آپ کا تعلق رہا جوپہلے رومی سلطنت کا حصہ تھے اور یہ توبہت قدیم عہد ہے، اس صدی سے پہلے تک عربی زبان میں رومی قوانین کے ترجمہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا __________ رومی قوانین کے عربی زبان میں منتقل نہ ہونے کا ایک خاص سبب ہے، مسلمانوں کا شروع سے یہ تصور رہا ہے کہ ان کواپنے نظامِ زندگی کے معاملہ میں دوسری اقوام سے ممتاز اور مشخص رہنا چاہیے، یہ چیز ان کوکتاب وسنت اور اسلامی روایات پر انحصار کا پابند کرتی ہے اور دوسری قوموں کے طریقوں اور اطوار سے بازرکھتی ہے، ہاں وہ علوم وفنون جومحض وسائلِ زندگی سے متعلق ہیں، یاانتظاماتِ ملکی میں معاون ہیں ان کوقبول کرنے اور پروان چڑھانے میں مسلمانوں نے نہایت فراخ دلی اور کشادہ قلبی سے کام لیا ہے، جیسے فلکیات، ریاضی، جغرافیہ، طب، طبعیات وغیرہ، پس امام ابوحنیفہؒ رومی زبان سے واقف تھے، نہ رومی قانون کا لٹریچر عربی میں منتقل ہوا تھا اور نہ روم کی سابق ریاستوں سے آپ کا وطنی، تجارتی یاعلمی علاقہ تھا، اس لیے تاریخی اعتبار سے کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جوامام ابوحنیفہؒ اور فقہ حنفی کے رومی قوانین سے تأثر اور استفادہ کوکسی درجہ میں بھی ظاہر کرتا ہو۔ فقہ اسلامی کے مآخذ فقہائے اسلام نے بنیادی طور پرقانون کے چارسرچشمے (Sourcessot Law) مقرر کئے ہیں، ان میں ترتیب اس طرح ہے کہ اوّل قرآن مجید کوپیشِ نظر رکھا جائے؛ پھررسول اللہﷺ کی حدیثیں سامنے رکھیں جائیں، اس کے بعد ان احکام کا درجہ ہے،جن پر امت کا اجماع واتفاق ہے، ظاہر ہے کہ امت کا کسی ایسی بات پراتفاق ممکن نہیں جوقرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہو، اس لیے اجماع بھی دراصل کتاب وسنت کے مزاج ومذاق کی اجماعی ترجمانی سے عبارت ہے، چوتھا درجہ "قیاس" کا ہے، قیاس یہ ہے کہ کتاب وسنت میں کسی مسئلہ میں جس سبب خاص کی بناء ئرکوئی حکم لگایا گیا ہو، وہ سبب جہاں جہاں پایا جائے وہاں وہی حکم لگایا جائے، مثلاً حدیث میں کتے کے جھوٹے کوناپاک قرار دیا گیا، حدیث سے بعض اور جانوروں کے جھوٹے کے متعلق بھی ایسا ہی حکم ملتا ہے، فقہاء نے غور کیا اور اس نتیجہ پرپہونچے کہ اس کی وجہ ان جانوروں کاناپاک ہونا ہے؛ لہٰذا فیصلہ کیا کہ تمام جانور جن کا گوشت ناپاک اور حرام ہے، ان کا جھوٹا بھی حرام اور ناپاک ہے؛ اسی کا نام "قیاس" ہے؛ اسی طرح قیاس کی اصل غایت کتاب وسنت کے احکام کے دائرہ کوسیع اور ان صورتوں تک متعدی کرنا ہے، جن کا کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ میں ذکر نہیں؛ گویا فقہ کے اصل مآخذ "کتاب وسنت" ہی ہیں اور اجماع وقیاس میں بھی بالواسطہ کتاب وسنت ہی کی اطاعت وفرماں برداری ہے، اس کے علاوہ فقہ کے جن دوسرے مصادر آثارِ صحابہؓ، استحسان، مصالحِ مرسلہ، استصحاب، عرف وعدات، شرائع ماقبل، سدذرائع کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ سب بالواسطہ کتاب اللہ، سنت رسولﷺ اور قیاس ہی میں داخل ہیں اور اصولِ فقہ میں اس نکتہ کوبار بار واضح کردیا گیا ہے کہ ان کی حیثیت کتاب وسنت کی طرح مستقل نہیں ہے اور نہ یہ نصوص سے آزاد ہیں؛ جہاں تک اجنبی ذریعہ سے قانون سازی کی بات ہے توان میں سے صرف امم سابقہ کی شریعت ہے، جس کوکسی درجہ میں اس زمرہ میں رکھا جاسکتا ہے؛ لیکن شرائع ماقبل سے مراد پہلی آسمانی کتابوں کے وہ احکام ہیں جن کوقرآن مجید نے منسوخ نہیں کیا ہے، یہ احکام کسی دوسری قوم کے عرف ورواج اور سماجی اطوار پرمبنی نہیں ہیں؛ بلکہ وحی الہٰی پرمبنی ہیں اور اس طرح کتاب اللہ کا ایک حصہ ہے، تاہم فقہائے اسلام نے مجرد ان کتابوں پراعتماد کرکے کسی مسئلہ میں کوئی رائے قائم نہیں کی ہے؛ بلکہ کتاب وسنت میں اممِ سابقہ جن احکام کی تصدیق کی گئی ہے اور امتِ محمدیہ میں ان کے باقی رہنے کا اشارہ کیا گیا ہے انہیں کوقابل عمل تسلیم کیا گیا ہے، اس سلسلہ میں ایک اجماعی حکم "قانونِ قصاص" کا ہے جس کا خود قرآنِ پاک نے ذکر کیا ہے، ممکن ہے اس طرح کا ایک آدھ حکم اور بھی مل جائے، ظاہر ہے اس کواسلامی فقہ میں اجنبی اثرقرار نہیں دیاجاسکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ پیغمبر اسلامﷺ نے مسلمانوں کے دوسری اقوام سے تشبیہ کوناپسند فرمایا ہے اور اعتقادات وعبادات کے علاوہ تہذیب ومعاشرت میں بھی ان کی مشابہت کوناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے، اس لیے فقہائے اسلام نے بھی قدم قدم پراس کوملحوظ رکھا ہے اور ان احکام کوبھی جن میں کتاب وسنت کی ہدایات موجود واضح نہیں ہیں، اجنبی اثر سے آزاد رکھا ہے، مجدد اعظم شیخ الاسلام امام حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) نے اس موضوع پرایک مستقل کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم" تالیف فرمائی ہے اور جہاں تک اس حقیر کا مطالعہ ہے فقہ حنفی اس باب میں زیادہ حساس ہے، غالباً اس لیے کہ ایران اور مشرق کے علاہ میں اس فقہ کی نشرواشاعت کی وجہ سے فقہائے احناف غیرمسلموں کے شعار اور ان کی تہذیب واطوار سے زیادہ واقف تھے۔ رومی قانون کے مآخذ سے تقابل اب ایک موازنہ فقہ اسلامی کے ان مآخذ اوررومن لا کے مآخذ (Sourcees) کے درمیان کرنا چاہئے کہ اس سے مسئلہ زیربحث کوسمجھنے میں آسانی ہوگی __________ بنیادی طور پررومی قوانین دوطرح کے ہیں، ایک مکتوبی اور دوسرے غیرمکتوبی، مکتوبی سے مراد سرکاری قوانین ہیں اور غیرمکتوبی سے مراد وہ قوانین ہیں جوعوام کے رسم ورواج کی وجہ سے ازخود قانون کا درجہ حاصل کرگئے ہیں، گیس (Gaius) کے بقول مکتوبی قانون کے چھ مآخذ ہیں: (۱)قانون موضوعہ اعلیٰ ترین (Leges) یعنی شاہان قدیم شرفاء روما کی مجلسِ عشریہ، غیررومی باشندوں کی مجلسِ مأۃ وغیرہ کے طئے کئے ہوئے قوانین۔ (۲)قانون موضوعہ مجلس عوام (۳)سینٹ کی تجاویز (۴)فرامینِ شاہی (۵)مجسٹریٹ کے اعلانات۔ (۶)مجتہدین، یعنی مذہبی راہبوں کے فتاویٰ اور دوسرے قانون دانوں کی توضیحات۔ (ملاحظہ ہو، احمدعبداللہ المسدوسی کی کتاب، قانونِ روما برائے ایل، ایل، بی:۱۲۔۱۷) اب غور کرو کہ "قانونِ مکتوبی" کے ان تمام مآخذ میں انسان کواصل واضح قاونون اور اس کے فہم واختیار اور حکم وفیصلہ کوقانون کی اساس مانا گیا ہے؛ کہیں یہ حیدیثت بادشاہ کوحاصل ہے، کہیں قاضی کو؛ کبھی شرفاء روم کی جماعت دہگانہ کو، کبھی اہلِ روم کے ساتھ دوسری اقوام کے صدرایوان کو، کہیں مجلس عوام اور مذہبی یاقانونی علماء کو __________ مگراسلامی قانون کا تصور اس سے یکسر مختلف ہے؛ یہاں قانون کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے "أَلَالَهُ الْحُكْمُ" (الأنعام:۶۲) اور اسی کے ہاتھ فیصلوں کی زمام ہے "إِنِ الْحُكْمُ إِلَّالِلَّهِ" (یوسف:۴۰) یہی مسلمانوں کے تمام مکاتب فقہ کا مزاج ومذاق ہے، رومی نظامِ قانون میں رائے ایے قابلِ تحسین بات اور مفخرہ ہے اور فقہاء اسلام کے ہاں خودرائی ایک تہمت اور عیب ہے جس کی طرف اس کی صحیح یاغلط نسبت کردی جاتی ہے، وہ اس سے بصد تاکید انکار ومعذرت کرتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ہمیں فقہاء کے ہاں کثرت سے کتاب وسنت پرانحصار، اس کی بالادستی اور اس کے مقابلہ "رائے" کی مذمت اور اس کی بے اعتباری کے اقوال ملتے ہیں۔ (المیزان الکبریٰ کا ابتدائی حصہ دیکھا جائے) پیغمبراسلامﷺ کی ولادت باسعادت سے تقریباً نصف صدی پہلے ۵۲۷ء میں شہنشاہ جسٹینیٹن روم کا فرماں روا ہوتا ہے اور روم کے منتشر، مروج اور منسوخ ومعطل، باضابطہ موضوعہ قوانین اور عوام میں جاریہ اور مروجہ افعال کو "مجموعہ قوانین ملک" کے نام سے مرتب کرتا ہے اور "رسم ورواج" کوبھی قانون کے ساتویں مآخذ کی حیثیت سے قبول کرتا ہے۔ (قانونِ روما:۱۲) ممکن ہے بعض حضرات کوقانون کے اس ماخذ میں اور فقہ اسلامی میں عرف وعادت کا اعتبار کئے جانے میں یکسانیت نظر آئے؛ لیکن اپنی روح کے اعتبار سے ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے "رومن لا" چونکہ انسانی مرضیات وخواہشات پرہی مبنی ہے، اس لیے اس قانون میں رسم ورواج کوخاصی اہمیت حاصل ہونا؛ بلکہ بعض اوقات موضوعہ قانون پرفائق ہوجانا عین مطابقِ فطرت ہے۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ مسلمان جوزندگی کے تمام مسائل میں کتاب وسنت کی ہدایات پرعمل پیرا ہوں گے ان میں جوکچھ رواج پائے گا، ضروری ہے کےکہ وہ کتاب وسنت کے مغائر نہ ہو، اس لیے مسلمانوں کے ایسے رواجات جن کے متعلق کوئی ممانعت یاایجابی حکم موجود نہ ہو، مشروع اور جائز تصور کئے جائیں گے اور غالباً ایسا اس لیے ہے کہ خود رسول اللہﷺ نے ایسے امور کومباح بتایا ہے اور "عفو" کا نام دیا ہے "ومامسکت عنہ فھو مماعفا عنہ"۔ اسی طرح قرآن مجید نے بھی عرف کے معتبر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر "معروف" پرعمل اور معروف کی دعوت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، امام رازیؒ کے بقول جوباتیں عقل کوبہتر محسوس ہوں اور اصحاب عقل کی نگاہ میں ناپسندیدہ نہ ہوں وہ سب معروف ہیں: "والمعروف هوماحسن في العقل فعله ولم يكن منكرا عند ذوي العقول الصحيحة"۔ (شرح السیرالکبیر:۱/۱۹۸) پس عرف کا اعتبار رومی قانون سے تاثر کا نتیجہ نہیں ہے؛ بلکہ کتاب وسنت کے مقرر کئے ہوئے اصول کی روشنی میں ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اگرکوئی مروج عمل کتاب وسنت کے خلاف ہوتوفقہاء کے یہاں قابل قبول نہیں: "العادۃ تجعل حکما اذایوجد التصریح بخلافہ فاما عند وجود التصریح بخلافہ یسقط اعتبارہ"۔ (قانونِ روما:۲۲۔۲۵) ترجمہ:عادت حکم ہوگی، جب کہ اس کے خلاف صراحت موجود نہ ہو اگراس کے خلاف نص کی صراحت موجود ہوتواس کا اعتبار نہ ہوگا۔ ابوابِ قانون کی تعیین وترتیب ماخذ قانون کے بعد ایک قانون دوسرے قانون کا اثرابواب قانون کی تعیین وترتیب میں قبول کرتا ہے اس پہلو سے جب کوئی شخص فقہ اسلامی اور رومن لا کا جائزہ لے گا تودونوں میں اسی درجہ تفاوت نظر آئے گا جتنا کہ خودمآخذ ومصادر میں، رومن لا میں قوانین کے چار حصے کئے گئے ہیں، اوّل قانونِ ملک جورومی نسل کے شہریوں کے لیے مخصوص تھا، دوسرے قانونِ اقوام، جوبین ملکی اور بین قومی تعلقات سے متعلق تھے، تیسرے قانونِ قدرت، یہ عام اصولِ انصاف تھے، جس کے تحت روم کے غیررومی نسل کے باشندوں کے معاملات طے کئے جاتے تھے، چوتھے قانونِ حکام عدالتی، یہ قاضیوں کے وہ عدالتی تشریحات تھیں، جن سے بعض نئے قوانین کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ (قانونِ روما:۲۲۔۲۵) فقہ اسلامی کے ابواب اس سے یکسر مختلف ہیں اور اس سے بہت زیادہ جامع، ہمارے یہاں ابواب فقہیہ کی ترتیب اس طرح ہے: (۱)عبادات: یعنی وہ افعال جوبراہِ راست بندے اور خداکے درمیان ہیں، مثلاً ارکانِ اربعہ۔ (۲)مناکحات: وہ احکام جوشخصی زندگی سے متعلق ہیں، نکاح، طلاق، رضاعت، نفقہ، میراث وغیرہ۔ (۳)معاملات: وہ احکام جودوآدمیوں کے درمیان مالی لین دین وغیرہ سے متعلق ہیں، خریدوفروحت، اجارہ، شرکت وغیرہ۔ (۴)اجتماعی احکام: اس میں امارت وقضا، جہاد، بین ملکی اور بین قومی تعلقات وغیرہ کی بحثیں آتی ہیں اور عام طور پر ان کوذکر کیا جاتا ہے۔ (۵)عقوبات: جرائم اور سزاؤں کا ذکر خواہ یہ سزائیں شریعت کی طرف سے مقرر ہوں یانہ ہوں، کوئی بھی صاحب انصاف معمولی غوروفکر سے اندازہ کرسکتا ہے کہ ان دونوں قوانین کے مزاج میں کس قدر فرق اور بون بعید ہے۔ مختلف احکام کا تقابل اب ایک سرسری نظر فقہ اسلامی اور رومی قانون پرڈال کراس امر کا اندازہ کرنا چاہئے کہ احکام کی تفصیلات میں یہ کس حد تک ایک دوسرے سے قریب ہیں؟ اس پہلو سے بھی ان دونوں مکاتب قانون میں خاصا فرق نظر آتا ہے، رومی قانون کی طرح اسلام نے بھی ابتداً غلامی کوایک قانونی عمل تسلیم کیا تھا؛ لیکن پیدائشی طور پر آزاد شخص کے غلام ہونے کی صورت اس کے سوا کوئی نہ تھی کہ وہ جنگ میں گرفتار کیا جائے اور یہ غلامی کوتسلیم کرنا بھی کچھ اس وجہ سے نہ تھا کہ رومی قانون اس کا قائل تھا؛ بلکہ اس وقت اقوامِ عالم کے نظامِ جنگ کی اساس اسی پرتھی اور پہلی آسمانی اور مذہبی کتابوں نے بھی اس کوروا رکھا تھا، اس لیے عملی طور پراس کوماننے اور بعض اصلاحات کے ساتھ جاری رکھنے کے سوا چارہ نہ تھا؛ لیکن رومی قانون میں جنگ میں گرفتاری کے سوا مزید سات اسباب ہیں جن کی وجہ سے آزاد انسان کوغلام بنایا جاسکتا ہے۔ (۱)کوئی شخص سازشی طور پر اپنے آپ کو غلام ظاہر کرکے فروخت کردے (۲)آزاد شدہ غلام آقاء سابق سے احسان فراموشی کا سلوک کرے (۳)مردم شماری یافوجی خدمت سے گریز کرے (۴)مقروض ہو اور قرض ادا نہ کرے (۵)چور چوری کرتا ہوا پکڑا جائے (۶)آزاد عورت کسی غلام سے اس کے آقا کی رضامندی کے بغیر مباشرت کرے۔ (قانون روما:۲۲۔۲۵) اسلام نے شہری اور بنیادی حقوق میں نسل وخاندان کی کوئی تفریق نہیں کی ہے؛ لیکن رومی قانون حق رائے دہی، حدماتِ عامہ کے حصول کے حق، حقِ تجارت، یہاں تک کہ حقِ ازدواج، جس سے بچوں پراختیارِ پدری حاصل ہوتا ہے سے بھی غیررومی نسل کے لوگوں کومحروم رکھتا ہے (قانونِ روما:۴۸) لیکن شاہ جسٹینن کے زمانہ سے مملکت روما کے تمام باشندوں کو "رومی" تسلیم کرلیا گیا تھا۔ اسلامی فقہ ہربالغ شخص کو __________ سوائے اس کے کہ وہ عقل کے اعتبار سے متوازن نہ ہو __________ اپنے بارے میں مکمل خود اختیاری قرار دیتا ہے؛ لیکن رومی قانون میں "مورثِ اکبر" کا تصور ہے، مثلاً اگردادا زندہ ہے تووہ اپنے صاحب اولاد فرزندوں پربھی اسی طرح ولایت رکھتا ہے جس طرح کہ کسی نابالغ بچہ پر۔ (قانونِ روما:۵۰) اسلام میں ثبوتِ نسب نکاح، یااپنی باندی سے وطی یاوطی بالشبہ، انہیں تین ذرائع سے ہوسکتا ہے، زنا کی وجہ سے نسب کا ثبوت نہیں ہوتا؛ لیکن رومی قانون میں ازواج، ماں باپ کے ذریعہ بھی نسب کوصحیح تسلیم کیا جاتا ہے (قانونِ روما:۵۰) اسلام میں رشتۂ ولدیت ایک فطری اور طبعی رشتہ ہے، یہ کوئی عقد اور معاملہ نہیں ہے، جوزبان کے بول کے ذریعہ پیدا ہوجائے، رومی قانون "تبنیت" کو تسلیم کرتا ہے "تبنیت" کے ذریعہ مصنوعی طور پر جس شحص سے اس کا رشتہ فرزندی قائم ہوا ہے وہ اس کے خاندان میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کا اپنے اصل خاندان سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔ (قانونِ روما:۵۱۔۵۳) اسلام میں باپ دادا کوبھی ولایت حاصل ہے؛ مگروہ ایک بہت محدود نوعیت کی ہے اور اس کے لیے کسی تصرف کی اجازت نہیں جوزیرولایت بچوں کے مفاد میں نہ ہو؛ نیز اولیاء کو ان کے مال پرمالکانہ حقوق بھی حاصل نہیں ہیں، اس کے برخلاف قانون روما میں باپ کے اختیارات بہت وسیع ہیں؛ یہاں تک کہ اسے اپنی اولاد کوبیچنے اور قتل کرنے تک کی اجازت تھی اور جس طرح آقا اپنےغلام کوآزاد کرسکتا تھا؛ اسی طرح باپ کے اپنی اولاد کوآزاد کرنے کا تصور تھا۔ (قانونِ روما:۵۴۔۵۶) قانون ازدواج میں بھی ان دونوں کے درمیان خاصا تفاوت پایا جاتا ہے، قانون روما میں اصولی طور پرعورت شادی کے بعد اپنے خاندان سے کٹ جاتی ہے اور شوہر کے خاندان میں ضم ہوجاتی ہے اور شوہر کے بزرگ خاندان کے لیے وہ محض ایک شئی کے درجہ میں ہوتی ہے (قانونِ روما:۵۷) اسلام کا تصور یہ ہے کہ نکاح محض ایک معاہدہ ہے، نکاح کے بعد بھی عورت کا اپنے خاندان سے تعلق باقی ہے، وہ اپنے خاندان سے میراث اور مختلف حقوق پانے کی حقدار ہوتی ہے اور شادی کے بعد بھی تمام انسانی اور بنیادی حقوق اسے حاصل ہوتے ہیں وہ شئی اور سامان کے درجہ میں نہیں ہوتی۔ قانونِ روما شادی شدہ شخص اور غلام کے لیے نکاح کوجائز نہیں رکھتا، نہ صغرِسنی کے نکاح کوجائز قرار دیتا ہے (قانونِ روما:۵۷،۵۸) اسلام نے ان تمام صورتوں میں نکاح کی اجازت دی ہے، مذہبی رسوم کے ساتھ نکاح کے علاوہ ایک عرصہ تک ناجائز طریقہ پرمردوعورت ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور میاں بیوی کا ساسلوک کریں تواس سے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے (قانونِ روما:۵۸،۵۹) اسلام اس طرح کے بے ضابطہ نکاح اور بے شرمی پرمبنی نکاح کروا نہیں رکھ سکتا۔ اسلام میں نکاح میں عورتو ں کی طرف سے جہیز کا کوئی تصور نہیں؛ بلکہ مرد کومہر ادا کرنا ہے؛ لیکن رومی قانون اس کے برعکس جہیز کا تصور پیش کرتا ہے اور اکثراوقات شوہر کواس کا حقدار قرار دیتا ہے، مہر کا کوئی تصور قانونِ روما میں نہیں (قانونِ روما:۹۱) قانونِ روما کی رو سے عورتیں کبھی بھی اپنے نفس کی مالک نہیں ہوتیں؛ بلکہ ولی کی ولایت اس پردائمی رہتی ہے (قانونِ روما:۹۱) اسلام میں بالغ ہونے کے بعد عورت کواپنے نفس اور مال پرخود ولایت حاصل ہوتی ہے۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ مالِ مرہون سے استفادہ جائز نہیں؛ لیکن قانونِ روما کے تحت مالِ مرہون سے نہ صرف استفادہ جائز ہے؛ بلک مالِ مرہون میں قرض خواہ کوحقِ تصرف بھی حاصل ہے (قانونِ روما:۹۸) قانونِ روما میں وصیت کے لیے کوئی حدمقرر نہیں، جب کہ اسلام میں تہائی کی تحدید کرتا ہے، قانونِ روما کے تحت متبنی، آزاد کردہ فرزند، لڑکی وراثت کی حقدار نہیں، وراثت سے محرومی، حجب اور حصہ وراثت کی مقار میں بھی فقہ اسلامی اور قانونِ روما میں شاذ ونادر ہی موافقت پائی جاتی ہے۔ (دیکھئے،قانونِ روما:۱۲۶۔۱۳۳) قانونِ روما سود کوجائز قرار دیتا ہے؛ یہاں تک کہ امین امانت کی ادائیگی میں تاخیر کرے تواس سے بھی سود لیا جاسکتا ہے (قانونِ روما:۱۴۱) اسلام میں سود شدید ترین خبائث میں سے ہے۔ یہ محض چند مثالیں بطورِ نمونہ کے ذکر کی گئی ہیں؛ ورنہ اگرمختلف شعبہ حیات کا تفصیل کے ساتھ تقابلی مطالعہ کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ فقہ اسلامی اور قانونِ روما کے درمیان اس قدر جوہری اختلاف ہیں کہ کوئی صاحب بصیرت اس طرح کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فقہ اسلامی "رومن لا" سے ماخوذ یامستفاد ہے، ممکن ہے بعض قوانین میں مطابقت پائی جائے؛ لیکن یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دنیا کا ہرقانون انسانی ضروریات کی تکمیل اور مقتضیات فطرت کوپورا کرنے کےلیے ہے، انسان کی ضرورت اور اس کے کچھ تقاضے بالکل یکساں ہوا کرتے ہیں، اس لیے کچھ احکام ایسے ہیں کہ دنیا کے ہرقانون میں ایک طرح سے تسلیم کئے جاتے ہیں، یاان میں معمولی تفاوت پایا جاتا ہے، مثلاً نکاح کی اجازت، خریدوفروخت، اجارہ، ہبہ، عاریت، وصیت، قرض وغیرہ کی گنجائش، انسانی قتل اور ہتک عزت، سرقہ وغصب، خیانت وغیرہ کی ممانعت، اس طرح کی چیزوں میں مختلف قوانین کے درمیان یکسانیت ایک دوسرےسے استفادہ کی دلیل نہیں؛ بلکہ انسانی ضروریات اور تقاضوں میں ایک حد تک یسکانیت کا ثبوت ہے، یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قانونِ معاملات کا بڑا تعلق انسانی تجربات سے ہے اور یہ مصلحت انسان کے دوش بدوش چلتا ہے، ایسے احکام میں مطابقت کا پایا جانا ایک بالکل فطری اور طبعی امر ہے۔ کلمہ آخریں پس حقیقت یہ ہے کہ فقہ اسلامی کی اپنی مستقل بنیادیں ہیں اور اس کا غالب حصہ کتاب وسنت سے ماخوذ ہے، جوتھوڑے سے احکام نصوص سے صراحۃ یااشارۃ ثابت نہیں وہ بھی ایسے قیاس پرمبنی ہیں کہ جن کی جڑیں کتاب وسنت میں پیوست ہیں __________ اسلامی فقہ اور انسان کے خود ساختہ قوانین کے درمیان دوایسے جوہری فرقہ ہیں، جن کا قدم قدم پرمشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور جن سے فقہ اسلامی کا امتیاز اور بہ مقابلہ دوسرے قوانین کے اس کی برتری واضح ہوتی ہے۔ اوّل: یہ کہ فقہ اسلامی میں ایک خاص طرح کی پائیداری اور ثبات ہے، دوام واستحکام اور بقا وقرار ہے انسان کے وضعی قوانین میں ایک مسلسل تغیرات اور بے ثباتی ہے، کسی بھی قانون میں جہاں جمود ایک نقص ہے وہیں بے ثباتی اور استقامت وپائیداری سے محرومی بھی کچھ کم درجہ کا عیب نہیں، اس کی وجہ ظاہر ہے، فقہ اسلامی کا سرچشمہ وہ نصوص ہیں جوقیامت تک ہرطرح کے تغیرات واصلاح سے ماوراء ہیں اور وضعی قوانین کی اساس انسانی خیالات وجذبات ہیں، جوہرآن وزمان تغیروتبدیلی سے دوچار ہیں۔ دوسرے:فقہ اسلامی حقیقی نافعیت اور مآل وانجام کی سعادت پرمبنی ہے، وضعی قوانین میں حقیقی نفع وضرر سے زیادہ خواہشات وجذبات کی رعایت ہے، شراب صحتِ انسانی کے لیے مضر ہے، نشہ جنون کا ایک درجہ ہے، خنزیرکا گوشت مختلف طبعی بیماریوں اور اخلاقی مفاسد کی جڑ ہے، برہنگی علاوہ عصمت وعفت کے مذہبی تصور کے اخلاقی اقدار کے بھی منافی اور امن وسکون کا بھی غارت گرہے، اسلام نے ان مضرتوں پرنظر رکھی ہے اور ان امور کے بارے میں اس کی مخالفت ناقابل تبدیل ہے؛ مگروضعی قوانین ان تمام نقصانات کوتسلیم کرنے کے باوجود ہوائے نفسانی اور ہوسِ انسانی کے سامنے سپرانداز ہے __________ اس فکر ومزاج نے اس کواعتدال وتوازن سے دور، عدل وانصاف سے محروم اور اصول فطرت سے نآہنگ بھی کردیا ہے اور موم کی طرح قوت وصلابت سے خالی بھی، جیسے روز توڑا جائے اور نئی نئی صورتیں دی جائیں. "إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ"۔