انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مہتدی باللہ مہتدی باللہ بن واثق باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید کا اصل نام محمد اور کنیت ابواسحاق تھی، اپنے دادا کے عہد خلافت سنہ۲۱۸ھ میں پیدا ہوا اور ۳۷ھسال کی عمر میں بہ تاریخ ۲۹/رجب المرجب سنہ۲۵۵ھ میں تخت نشین ہوا، گندم گوں، دبلاپتلا، خوبصورت، عابد زاہد، عادل اور بہادر شخص تھا، احکامِ الہٰی کی پابندی کے رواج دینے میں بہت کوشاں تھا، تخت نشین ہونے کی تاریخ سے مقتول ہونے تک برابر روزہ رکھتا رہا؛ مگر اس کوکوئی مددگار نہ ملا، اس نے ایسے خراب حالات پائے کہ خلافت اسلامیہ کے عزت ووقار کودوبارہ واپس لانا سخت دشوار تھا، ہاشم بن قاسم کہتے ہیں کہ میں رمضان میں شام کے وقت مہتدی کے پاس بیٹھا تھا، جب میں چلنے لگا تومہتدی نے کہا کہ بیٹھ جاؤ میں بیٹھ گیا؛ پھرہم نے افطار کیا، نماز پڑھی اور مہتدی نے کھانا طلب کیا توایک بید کی ڈلیا میں کھانا آیا، اس میں پتلی پتلی روٹیاں تھیں، ایک پیالی میں تھوڑا سانمک، دوسری میں سرکہ اور تیسرے برتن میں زیتون کا تیل تھا، مجھ سے بھی کھانے کوکہا، میں نے کھانا شروع کیا اور دل میں سوچا کہ کھانا ابھی اور آتا ہوگا، اس لیے بہت آہستہ آہستہ کھانا شروع کیا، مہتدی نے میری طرف دیکھ کرکہا کہ کیا تمہارا روزہ نہ تھا؟ میں نے کہا کہ تھا؛ پھرپوچھا کہ کیا کل روزہ نہ رکھو گے؟ میں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ ہے، روزہ کیوں نہ رکھوں گا؟ کہا کہ پھراچھی طرح کھاؤ اور یہ اُمید نہ رکھو کہ اور کھانا آتا ہوگا؛ کیونکہ اس کے سوا اور کھانا ہمارے یہاں نہیں ہے۔ میں نے تعجب سے کہا کہ امیرالمؤمنین! یہ کیا معاملہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے توآپ کوتمام نعمتیں عطا کی ہیں، مہتدی نے کہا: ہاں یہ سچ ہے؛ مگرمیں نے غور کیا توبنواُمیہ میں عمربن عبدالعزیز کوپایا کہ وہ کم کھانے اور رعایا کی راحت رسانی کی فکر سے بہت ہی لاغر ہوگئے تھے؛ پھرمیں نے اپنے خاندان پرغور کیا تومجھ کوبڑی شرم آئی کہ ہم لوگ بنی ہاشم ہوکر ان کی مانند بھی نہ ہوں؛ اسی لیے میں نے یہ طرز اختیار کیا جوتم دیکھ رہے ہو، مہتدی نے لہوولعب کوسختی سے روک دیا تھا، گانے بجانے کوحرام قرار دیا تھا، عاملانِ سلطانی کوظلم کرنے سے سخت ممانعت کردی تھی، دفتر کے معاملات میں سختی سے کام لیتا تھا، خود روزانہ اجلاس منعقد کرتا اور دربارِ عام میں انفصال مقدمات کا کام کرتا، منشیوں کواپنے پاس بٹھاکر حساب کتاب کرتا تھا۔ جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے، مہتدی باللہ کوبھی ترکوں ہی نے خلافت پربٹھایا تھا، صالح بن وصیف نے جوترکوں میں سب سے زیادہ قابو یافتہ ہورہا تھا، مہتدی باللہ کوتخت نشین کرنے کے بعد ہی احمد بن اسرائیل، زید بن معتز باللہ، ابونوح کوگرفتار کرکے قتل کردیا اور ان کے مال واسباب کوضبط کرلیا؛ پھرحسن بن مخلد کوبھی گرفتار کرکے اس کا مال واسباب ضبط کرلیا، خلیفہ مہتدی باللہ کوجب ان حالات کی اطلاع ہوئی توبہت رنجیدہ ہوا اور کہا کہ ان لوگوں کے لیے قید ہی کی مصیبت کیا کم تھی جوان کوناحق قتل کیا گیا، اس کے بعد خلیفہ مہتدی باللہ نے سامرا سے تمام لونڈیوں اور مغنیوں کونکلوادیا، محل سرائے شاہی میں جس قدر درندے پلے ہوئے تھے، سب کومارڈالنے اور کتوں کونکلوادینے کا حکم دیا، قلم دان وزارت سلیمان بن وہب کے سپرد کیا؛ مگرصالح بن وصیف نے اپنی حکمتِ عملی اور خوش تدبیری سے سلیمان بن وہب کوبھی اپنے قابو میں کرلیا اور خود حکومت کرنے لگا، معتز کی معزولی اور مہتدی کی تخت نشینی کے وقت موسیٰ بن بغا دارالخلافہ میں موجود نہ تھا، وہ رَے کی طرف گیا ہوا تھا، اُس نے جب یہ سنا کہ صالح نے معتز کومعزول کرکے مہتدی کوخلیفہ بنادیا ہے تووہ معتز کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کرکے دارالخلافہ کی طرف روانہ ہوا؛ یہاں آکر دربارِ خلافت میں حاضری کی درخواست بھجوائی، صالح، موسیٰ کے آنے کی خبر سن کرروپوش ہوگیا تھا۔ موسیٰ کوخلیفہ نے اندر آنے کی اجازت دی، اس نے آتے ہی خلیفہ کوگرفتار کرکے اور ایک خچرپرسوار کراکر قید خانہ میں لے جانا چاہا، مہتدی نے کہا کہ موسیٰ! اللہ تعالیٰ سے ڈر! آخر تیری نیت کیا ہے؟ موسیٰ نے کہا کہ میری نیت بہ خیر ہے، آپ یہ حلف لیجئے کہ صالح کی طرفداری نہ کریں گے، خلیفہ نے یہ حلف کرلیا، موسیٰ نے اسی وقت خلیفہ کی بیعت کرلی، اس کے بعد موسیٰ نے صالح کی تلاش شروع کی، خلیفہ نے یہ کوشش کی کہ موسیٰ اور صالح میں صلح ہوجائے، اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ موسیٰ اور اس کے ہمراہیوں کویہ شبہ گزرا کہ صالح کا پتہ خلیفہ کومعلوم ہے اور اسی نے صالح کوچھپارکھا ہے؛ چنانچہ موسیٰ بن بغا کے مکان پرترکوں کا جلسہ مشورت منعقد ہوا اور خلیفہ مہتدی کے قتل یامعزول کی تدبیریں سوچی گئیں، اس مجلس کا حال خلیفہ کومعلوم ہوگیا، اگلے دن سب کودربارِ عام میں بلوایا اور اور مسلح ہوکر دربار میں غضب آلود چہرہ کے ساتھ آیا، ترکوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ مجھ کوتمہارے مشورے کا حال معلوم ہوچکا ہے، تم مجھ کودوسرے خلفاء کی طرح نہ سمجھنا، جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے، تم میں سے بہت سوں کی جان لے لوں گا، میں وصیتیں کرآیا ہوں اور مارنے مرنے پرآمادہ ہوں، تم یادرکھو! میری دشمنی تمہارے لیے باعثِ وبال ہوگی، میں قسمیہ کہتا ہوں کہ مجھ کوصالح کا کوئی حال معلوم نہیں کہ کہاں روپوش ہے؟ یہ سن کرلوگ خاموش رہے اور اس شورش میں سکون پیدا ہوگیا، اس کے بعد موسیٰ نے منادی کرادی کہ جوشخص صالح کوگرفتار کرکے لائے گا، وہ دس ہزار انعام پائے گا، اتفاقاً ایک جگہ صالح کا پتہ چل گیا، موسیٰ نے اس کوقتل کراکر اس کا سرنیزہ پررکھ کرشہر میں تشہیر کرایا، مہتدی کویہ حرکت ناگوار گزری؛ مگرترکوں کی طاقت کے مقابلہ میں خلیفہ کچھ نہ کرسکتا تھا، سحت مجبور تھا، آخر خلیفہ نے بابکیال نامی ترک سردار کولکھا کہ موقع پاکر موسیٰ کوقتل کردو، بابکیال نے یہ خط موسیٰ کودکھایا، موسیٰ فوج لے کرقصرِخلافت پرچڑھ آیا، ادھر اہلِ مغرب اور اہلِ فرغانہ نے خلیفہ مہتدی کی طرف سے مدافعت کی متعدد لڑائیں ہوئیں۔ بابکیال اس عرصہ میں مقید ہوکر خلیفہ مہتدی کی قید میں آچکا تھا، خلیفہ مہتدی نے بابکیال کوقتل کراکر اس کا سرترکوں کی طرف پھینک دیا، اس سے مخالف ترکوں کا جوش اور بھی بڑھ گیا اور وہ ترک جوفرغانہ وغیرہ کے خلیفہ کی فوج میں شامل تھے، بابکیال کے قتل سے نارا ض ہوکر موسیٰ کی فوج میں جاملے، جس زمانے میں ترکوں نے خلیفہ مہتدی کا محاصرہ کررکھا تھا، بغداد وسامرا اور دوسرے مقامات کی رعایا خلیفہ مہتدی کے لیے دُعائیں مانگ رہی تھی؛ کیونکہ رعایا اس خلیفہ کے عدل وانصاف سے بہت خوش تھی اور خلیفہ صالح کے لقب سے یاد کرتی تھی؛ مگراس کا نتیجہ مہتدی کے خلاف نکلا، خلیفہ کوشکست ہوئی اور ترکوں نے اس کوگرفتار کرکے خصیتین دباکرمار ڈالا، یہ حادثہ ۱۴/رجب سنہ۲۵۶ھ کووقوع پذیر ہوا، خلیفہ مہتدی نے پندرہ دن کم ایک سال خلافت کی اور ۳۸/سال کی عم رمیں مقتول ہوا، اس کے بعد ترکوں نے ابوالعباس احمد بن متوکل کوجومقام جوسق میں قید تھا، قید سے نکال کرتختِ نشین کیا، اس کے ہاتھ پربیعت کی اور معتمد علی اللہ لقب تجویز کیا۔