انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت جابرؓ بن عبداللہ نام ونسب اورابتدائی حالات جابر نام،ابو عبداللہ کنیت ،قبیلہ خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے،جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام بن کعب بن غنم بن سلمہ ،والدہ کا نام نسیبہ تھا،جن کا سلسلۂ نسب حضرت جابرؓ کے آبائی سلسلہ میں زید بن حرام سے مل جاتا ہے۔ سلمہ کی اولاد اگرچہ حرہ اور مسجد قبلتین تک پھیلی ہوئی ہے،لیکن خاص بنو حرام قبرستان اورایک چھوٹی مسجد کے درمیان آباد تھے۔ حضرت جابرؓ کے دادا(عمرو) اپنے خاندان کے رئیس تھے، عین الارزق (ایک چشمہ ہے) جس کو مروان بن حکم نے حضرت امیر معاویہؓ کے عہد میں درست کرایا تھا انہی کی ملکیت تھا،بنو سلمہ کے بعض حصے، قلعے اور جابر بن عتیک کے قریب کے قلعے ان کے تحت و تصرف میں تھے۔ عمرو کے بعد یہ چیزیں عبداللہ کے قبضہ میں آئیں، حضرت جابرؓ انہی عبداللہ کے فرزند ہیں جو تقریبا ۶۱۱ھ (مطابق ۳۴ عام الفیل) میں ہجرت سے ۲۰ سال قبل تولد ہوئے تھے۔ اسلام عقبہ ثانیہ میں اپنے والد کے ساتھ اسلام لائے اوران کے والد کو یہ شرف حاصل ہوا کہ بنو حرام کے نقیب تجویز کئے گئے اس بیعت میں ان کا سن ۱۸،۱۹ سال کا تھا۔ غزوات اورعام حالات ان کے والد نے غزوۂ احد میں شہادت حاصل کی کافروں نے مثلہ کردیا تھا اس لئے جنازہ کپڑوں میں اڑھا کر لایا گیا، حضرت جابرؓ نے کپڑا اٹھا دیا اوردیکھنا چاہا لوگوں نے منع کیا ،آنحضرتﷺ نے یہ دیکھ کر کپڑا اٹھادیا، بہن پاس کھڑی تھیں، بھائی کی حالت دیکھ کر ایک چیخ ماری، آنحضرتﷺ نے پوچھا کون ہے؟ لوگوں نے کہا ان کی بہن ،فرمایا تم روؤ یا نہ روؤ جب تک جنازہ رکھا رہا ،فرشتے پروں سے سایہ کئے تھے (مسلم:۲/۳۴۶،بخاری:۲/۵۸۴) حضرت عبداللہؓ نے دس لڑکیاں چھوڑیں جو گھر میں بلک رہی تھیں،انہوں نے اپنے بھائی حضرت جابرؓ کے پاس ایک اونٹ بھیجا کہ ابا جان کی لاش گھر لے آئیں اور مقبرہ بنی سلمہ میں دفن کردیں، وہ تیار ہوگئے،آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی فرمایا کہ جہاں ان کے دوسرے بھائی شہداء دفن کئے جائیں گے، وہیں وہ بھی دفن ہونگے ؛چنانچہ احد کے گنج شہیداں میں دفن کئے گئے۔ ان پر قرض بہت تھا، حضرت جابرؓ کو اس کے ادا کرنے کی فکر ہوئی، لیکن ادا کہاں سے کرتے؟ کل دو باغ تھے جن کی پوری پیدا وار قرض کو کافی نہ تھی، رسول اللہ ﷺ کے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور کہا یہودیوں کو بلاکر کچھ کم کرا دیجئے، آپ نے ان لوگوں کو طلب فرماکر جابرؓ کا مدعا بیان کیا، انہوں نے چھوڑنے سے انکار کیا، پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ اچھا دو مرتبہ میں اپنا قرض وصول کرلو، نصف اس سال اور نصف دوسرے سال، وہ لوگ اس پر رضا مندنہ ہوئے، آپﷺ نے یہ دیکھ کر حضرت جابرؓ کو تسکین دی اور فرمایا کہ سنیچر(ہفتہ) کے دن تمہارے ہاں آؤں گا، چنانچہ سنیچر کو صبح کےو قت تشریف لے گئے، پانی کے پاس بیٹھ کر وضو کیا، مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر خیمہ میں آکر متمکن ہوئے، اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ بھی پہنچ گئے، تقسیم کا وقت آیا تو ارشاد ہوا کہ چھوہاروں کو قسم دار الگ کرکے خبر کرنا، چنانچہ آپ کو خبر کی گئی ،آپ تشریف لائے اورایک ڈھیر پر بیٹھ گئے،حضرت جابرؓ نے بانٹنا شروع کیا اور آپ دعا کرتے رہے، خدا کی قدرت کہ قرض ادا ہونے کے بعد بھی جو کچھ بچ گیا، حضرت جابرؓ خوشی خوشی آپ کے پاس آئے اوربیان کیا کہ قرض ادا ہوگیا اور اتنا فاضل ہے، آپ نے خدا کا شکر ادا کیا، حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کو بھی بہت مسرت ہوئی۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ کو مکان لے گئے اور گوشت ،خرما اور پانی پیش کیا، آپ نے فرمایا شاید تم کو معلوم ہے کہ میں گوشت رغبت سے کھاتا ہوں،چلنے کا وقت آیا تو اندر سے آواز آئی کہ مجھ پر اور میرے شوہر پر درود پڑھیے، فرمایا: اللھم صل علیھم (واقعہ مسند صفحات:۲۹۷،۳۰۳،۱۳،۶۵،۹۱،۹۵،۹۸ میں موجود ہے،بخاری:۲/۵۸۰) والد کی موجودگی تک انہوں نے کسی غزوہ میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم میں ہے کہ انہوں نے بدر میں میدان کا عزم کیا، لیکن باپ مانع ہوئے ،احد میں بھی ایسا ہی اتفاق پیش آیا، لیکن باپ احد میں شہید ہوگئے، تو باقی غزوات میں نہایت گرمجوشی سے شرکت کی اور آنحضرتﷺ کے ساتھ ان کو ۱۹ غزوات میں شرف شرکت حاصل ہوا، (مسند:۳/۳۲۹) ابتدائی غزوؤں میں والد کے روکنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود میدان میں جانا چاہتے تھے اور گھر میں ۹ لڑکیاں تھیں، دونوں کے چلے جانے کے بعد گھر بالکل خالی ہوجاتا، (بخاری کی روایت ہے، ۶ لڑکیاں چھوٹی تھیں) تاہم بعض ابتدائی غزوات میں بھی ان کے شریک ہونے کی شہادت ملتی ہے،چنانچہ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ بدر کے دن وہ لوگوں کو پانی پلاتے تھے، (اصابہ:۱/۲۲۲) غزوہ ذات الرقاع میں جو ۵ھ میں ہوا وہ شامل تھے (مسند:۳/۳۷۵) واپسی کے وقت ان کا اونٹ بھاگ گیا تھا، آنحضرتﷺ نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے واقعہ بیان کیا آپ نے ایک لکڑی سے مار کر دعا کی اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ تیز رو ہوگیا۔ (مسند:۳۰۰) اسی سنہ میں خندق کا معرکہ پیش آیا، حضرت جابرؓ خندق کھود رہے تھے،اسی اثنا میں رسول اللہ ﷺ خود کدال لے کر ایک سخت پتھر کو کھود نے کے لئے تشریف لائے دیکھا تو شکم مبارک پر بھوک کیوجہ سے پتھر بندھا ہوا ہے، (بخاری:۲/۵۸۸،۷۸۹) یہ دیکھ کر آنحضرتﷺ سے اجازت لے کر گھر پہنچے اور بیوی سے کہا کہ آج ایسی بات دیکھی جس پر صبر نہیں ہو سکتا کچھ ہو تو پکاؤ اور خود ہی ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے آنحضرتﷺ کی خد مت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ میرے ہاں چل کر ما حضر تناول فرمائیے،سروردوعالمؓ کے کاشانہ میں تین روز سے فاقہ تھا، دعوت قبول ہوئی اورعام منادی کرادی کہ جابرؓ نے سب لوگوں کی دعوت کی ہے، حضرت جابرؓ نے انتظام آپ کے اور دو تین آدمیوں کے لئے کیا تھا، اس لئے نہایت تنگ دل ہوئے، مگر ادب سے خاموش رہے،آنحضرتﷺ تمام مجمع کو لے کر ان کے مکان تشریف لے گئے ،خود بھی کھانا نوش فرمایا اور لوگوں نے بھی کھایا، (بخاری غزوہ انمار) پھر بھی بچ رہا،آپ نے ان کی بیوی سے فرمایا کہ یہ تم کھاؤ اور لوگوں کے یہاں بھیجو، کیونکہ لوگ بھوک میں مبتلا ہیں۔ ۶ھ میں بنو مصطلق کا غزوہ ہوا ،آنحضرتﷺ جب روانگی کے قصد سے اونٹ پر سوار ہوئے اور نماز پڑہنے لگے تو ان کو کسی کام سے بھیجا تھا، جب یہ واپس آئے اس وقت کوچ کا حکم دیا۔ اس غزوہ کے بعد غزوہ انمار واقع ہوا، اس میں بھی حضرت جابرؓ موجود تھے۔ اسی سنہ میں آنحضرتﷺ عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے ،۱۵۰۰ جان نثار ہمرکاب تھے،بیعت الرضوان کا مشہور واقعہ اسی میں پیش آیا اور حضرت جابرؓ مشرف بہ بیعت ہوئے، اس میں حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ کا اورحضرت جابرؓ حضرت عمرؓ کا بیعت کے وقت ہاتھ پکڑے تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ ساری دنیا سے بہتر ہو۔ جب ۸ھ میں ساحل کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا، حضرت ابو عبیدہؓ اس کے امیر تھے، اسلام کی تاریخ میں یہ عجیب ابتلاء کا وقت تھا؛ لیکن مسلمان اس میں پورے اترے زاد راہ ختم ہوگیا، پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانا شروع کیا، آخر سمندر سے ایک بڑی مچھلی کنارہ پر آئی اور لوگوں نے عطیہ غیبی سمجھ کر نوش جان کیا (مسند:۲/۳۰۸) مچھلی اتنی بڑی تھی کہ سردار لشکر نے اس کی ایک پسلی کھڑی کرائی اور سب سے اونچا اونٹ انتخاب کرکے لایا گیا، اور وہ اس کے نیچے سے نکل گیا،(مسند:۳/۳۰۸) حضرت جابرؓ پانچ آدمیوں کے ساتھ اس کی آنکھ کی ہڈی کے حلقہ میں بیٹھ گئے تو کسی کو پتہ بھی نہ لگا، اس مچھلی کا نام عنبر تھا ۱۵۰ روز تک کھائی گئی کھانے والے ۳۰۰ تھے۔ (مسند:۳/۳۰۸) اس کے بعد اور بھی غزوات پیش آئے،جن میں ان کی شرکت رہی،حنین اورتبوک میں ان کا نام صراحت سے آیا ہے،حجۃ الوداع میں بھی جو ۱۰ ھ میں ہوا، وہ بھی شامل تھے۔ (مسند:۳/۳۴۹،۴۱،۲۹۲) ۳۷ھ میں حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کی جنگ میں حضرت جابرؓ ،حضرت علیؓ کی طرف سے صفین میں جاکر لڑے۔ (اسد الغابہ:۱/۲۵۷) ۴۰ ھ میں امیر معاویہؓ کا عامل بسر بن ابی ارطاۃ حجاز ویمن پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے آیا اور مدینہ منورہ میں ایک خطبہ دیا، اس میں اس نے کہا کہ بنو سلمہ کو اس وقت تک امان نہیں مل سکتی جب تک جابرؓ میرے پاس نہ حاضر ہوں، حضرت جابرؓ کو جان کا خوف تھا حضرت ام سلمہؓ (ام المومنین) کے پاس جاکر مشورہ کیا، انہوں نے کہا میں نے اپنے لڑکوں کو بھی بیعت کی رائے دی ہے، تم بھی بیعت کرلو، عرض کیا یہ تو گمراہی پر بیعت ہے،فرمایا مجبوری ہے،لیکن میری رائے یہی ہے، ان کے مشورہ کے مطابق بسر کے پاس آگئے اور امیر معاویہؓ کی خلافت پر بحث کی۔ ۷۴ھ میں حجاج مدینہ کا امیر تھا، اس کے جو روظلم سے صحابہ بھی محفوظ نہ رہے؛ چنانچہ اس نے متعدد صحابہ پر یہ عنایت کی گردنوں پراورحضرت جابرؓ کے ہاتھ پر مہر لگوائی۔ (اسد الغابہ:۲،حالات سہل بن سعد،:۳۶۶) وفات یہ سنہ ان کی زندگی کا اخیر سال تھا، بالکل ضعیف اورناتواں ہوگئے تھے ،آنکھوں نے الگ جواب دیدیا تھا، عمر۹۶ سال تک پہنچ چکی تھی، اس پر حکومت کا جبرو تشدد اوربھی وبال جان ہورہاتھا۔ عقبۂ کبیر کا نورانی منظر جن آنکھوں نے دیکھا تھا،ان میں صرف یہی ایک بزرگ باقی رہ گئے تھے، اس وقت صحابہؓ کرام کے طبقہ میں بھی بہت کم لوگ بقید حیات تھے، اس بنا پر ان کا وجود عالم اسلامی میں بسا غنیمت تھا۔ حجاج کے ظلم و ستم نے جس سال ان کا زور توڑا،طائر روح نے اسی سال قفسِ عنصری کی تیلیاں توڑیں، انتقال کے وقت وصیت کی تھی کہ حجاج جنازہ نہ پڑھائے،اس لئے حضرت عثمانؓ کے بیٹے اماب نے نماز پڑھائی اور بقیع میں دفن کیا۔ تاریخ بخاری میں ہے کہ حجاج جنازہ میں آیا تھا اور تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ نماز پڑھائی تھی۔ اہل وعیال حضرت جابرؓ نے اپنے والد کی شہادت کے بعد ایک بیوہ عورت سے نکاح کرلیا تھا، آنحضرتﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا، کسی کنواری سے کیا ہوتا کہ وہ تم سے کھیلتی، تم اس سے کھیلتے، عرض کیا کہ بہنیں چھوٹی تھیں، اس لیے ہوشیار عورت کی ضرورت تھی جوان کے کنگھی کرتی،جوئیں دیکھتی ،کپڑے سی کر پہناتی، فرمایا: اصبت ۔ (تم نے ٹھیک کیا) (مسند:۳/۳۰۰،بخاری:۲/۵۸۰) دوسری شادی بنو سلمہ میں کی، اسلام میں عورت کو دیکھ کر شادی کرنے کی اجازت ہے اس لئے پیام کے بعد لڑکی کو چھپ کر دیکھ لیا پھر شادی کی۔ (مسند:۳/۳۳۴) پہلی بیوی کا نام سہیلہ بنت مسعود تھا، (فتح الباری:۷/۳۰۵) صحابیہ تھیں اور انصار کے قبیلہ ظفر کی لڑکی تھیں دوسری کا ام حارث تھا، وہ محمد بن مسلمہ بن سلمہ کی جو قبیلہ اوس سے تھے اور معزز صحابی تھے، ان کی بیٹی تھیں۔ (طبقات :۲۰۳) اولاد کے نام یہ ہیں،عبدالرحمن، (مسند:۳/۲۳۱) عقیل (مسند:۳/۳۴۳) محمد، حمیدہ ،میمونہ ،ام حبیب (نزہۃ الابرار قلمی) حلیہ حلیہ یہ تھا،مونچھ خوب کٹی ہوئی، سر اور داڑھی میں زرد خضاب لگاتے تھے آنکھیں اخیر عمر میں جاتی رہی تھیں۔ مکان مسجد نبوی سے ایک میل دور تھا، اس لئے ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔ (مسند:۲۰۳) علم وفضل تحصیل کی ابتداء سرچشمہ وحی سے ہوئی، لیکن تربیت یافتگان نبوت میں جو لوگ علوم وفنون کے مرکز تھے، ان کے حلقوں سے بھی استفادہ کیا، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابو عبیدہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت معاذ ؓ بن جبل، عمارؓ، خالد بن ولیدؓ، حضرت ابو بردہؓ بن نیار، ابو قتادہؓ، ابو سعید خدریؓ، ابو حمید ساعدی، عبداللہ بن انیسؓ، ام شریکؓ، ام مالکؓ، ام مبشرؓ، ام کلثومؓ بنت ابوبکر صدیقؓ، (تابعیہ تھیں) سب کے سب ان کے اساتذہ میں داخل ہیں۔ حدیث کا یہ شوق تھا کہ ایک ایک حدیث سننے کے لئے مہینوں کی مسافت کا سفر کرتے تھے، عبداللہ بن انیس کے پاس ایک حدیث تھی، وہ شام میں رہتے تھے، حضرت جابرؓ کو معلوم ہوا، تو ایک اونٹ خریدا اور ان کے پاس جاکر کہا کہ وہ حدیث بیان کیجئے میں نے اس لئے عجلت کی کہ شاید میرا خاتمہ ہوجاتا اور حدیث سننے سے رہجاتی۔ (ادب المفرد بخاری) اسی طریقہ سے مسلمہ بن مخلد امیر مصر سے حدیث سننے کے لئے مصر کا سفر کیا اورحدیث کی اجازت لی،اس سفر کا تذکرہ طبرانی میں موجود ہے۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد مسند درس پر جلوہ فرما ہوئے ،حلقہ درس مسجد نبوی میں قائم تھا، شائقین مقامات بعیدہ سے آتے تھے ،مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، یمن ،کوفہ، بصرہ، مصر میں ان کا دریائے فیض رواں تھا۔ کمالات کے مظہر تفسیر وحدیث و فقہ کے فن تھے، تفسیر میں اگرچہ روایتیں زیادہ نہیں،تاہم معتدبہ ہیں، لوگوں میں درود کے معنی میں اختلاف تھا، بعض کہتے تھے کہ مسلمان جہنم میں داخل نہ ہوگا، بعض کا خیال تھا کہ سب جائیں گے، مگر مسلمان کو نجات مل جائے گی، حضرت جابرﷺ سے پوچھاگیا ،فرمایا:نیک وبد سب جہنم میں داخل ہوں گے؛لیکن اچھوں پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوگا، پھر متقیوں کو نجات ملے گی اور ظالم اس میں رہ جائیں گے۔ (الباری:۱/۱۵۹) طلق بن حبیب کو شفاعت کا انکار تھا،انہوں نے حضرت جابرؓ سے مناظرہ کیا اور خلو دفی النار کے متعلق جتنی آیتیں قرآن میں ہیں، سب پڑھیں، حضرت جابرؓ نے فرمایا، شاید تم اپنے کو مجھ سے زیادہ قرآن و حدیث کا عالم جانتے ہو ،انہوں نے کہا استغفراللہ میرا خیال بھی نہیں ہوسکتا ،ارشاد ہوا تو سنو! یہ آیتیں مشرکین کے متعلق ہیں جو لوگ عذاب دینے کے بعد نکال لئے گئے،ان کا اس میں ذکرنہیں ،لیکن رسول اللہ ﷺ نے حدیث میں اس کو بیان فرمایا ہے۔ حدیث ان کی تمام کوششوں کا جولانگاہ ہے،اشاعت حدیث ان کی زندگی کا اہم مقصد رہا ،باایں ہمہ کہ کثیرالروایات تھے اوران کی مرویات ۵۴۰ تک پہنچتی ہیں،بیان حدیث میں نہایت احتیاط وحزم سے کام لیتے تھے، ایک حدیث بیان کی سمعت کا لفظ بولنا چاہتے تھے، کہ رک گئے اور اپنے اوپر موقوف کردی،اس کا سبب یہ تھا کہ ان کو الفاظ پر اطمینان نہ ہوسکا۔ تلامذہ حدیث کا شمار طوالت سے خالی نہیں، تابعین کا ہر طبقہ ان کے خرمن فیض کا خوشہ چین ہے،لیکن خاص شاگردوں کے نام حسب ذیل ہیں: امام باقرؓؓؓ، محمد بن منکدر، سعد بن میناء، سعید ابی بلال، عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری، محمد بن عمرو حسینؓ، حسن بن محمد حنیفیہ وغیرہم۔ فقہ بھی ان کی علمی موشگافیوں کا مظہر ہے، وہ مسائل و فتاویٰ جو وقتاً فوقتاً پوچھے گئے اورانہوں نے جو جوابات دیئے اگر وہ جمع کئے جائیں تو ایک مختصر رسالہ تیار ہوسکتا ہے۔ اخلاق وعادات اقامۃ حدود اللہ،جوشِ ایمان، اورجرأت اظہار حق ،امر بالمعروف،مؤدت رسول، اتباع ِسنت ورفق بین المسلمین، اخلاق کی بیخ وبنیاد ہیں اورقدرت نے حضرت جابرؓ کو نہایت فیاضی سے ان تمام چیزوں سے حصہ دیا تھا۔ اقامت حدود اللہ، ہر مسلمان کا فرض ہے، حضرت جابرؓ کو اس میں یگانہ وبیگانہ کافرق وامتیاز روک نہ سکتا تھا، حضرت ماعزبنؓ اسلمی جو مدینہ کے باشند ےاوراصحاب پاک میں داخل تھے،ان کی حد رجم کے موقع پر خود جاکر اپنے ہاتھ سے ان کو پتھر مارے تھے۔ (مسند:۲/۲۸۱) اظہا حق میں کسی کی وجاہت خلل انداز نہ ہوسکتی۔ حضرت سعد بن معاذ انصاری،قبیلہ اوس کے سردار اور بڑے رتبہ کے صحابی تھے ان کا انتقال ہوا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آج عرش اعظم جنبش میں آگیا ہے ،حضرت برا ءبن عازب ؓ کو یہ حدیث معلوم تھی،لیکن وہ عرش رحمن کے بجائے صرف سریر کہتے تھے جس سے جنازہ کا ہلنا مراد ہے، حضرت جابرؓ سے لوگوں نے براؓء کا قول نقل کیا ،فرمایا کہ حدیث تو یہی ہے جو میں نے بیان کی، باقی براء کا قول تو وہ باہمی بغض و عداوت وکینہ توزی کا نتیجہ اوراثر ہے، اوس اورخزرج میں اسلام سے پہلے سخت مخاصمت تھی۔ (بخاری:۱/۵۳۶) اس واقعہ کا یہ پہلو بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت جابرؓ قبیلۂ خزرج سے تھے اس بنا پر ان کو خزرجیوں کا ہم آہنگ و ہمنوا ہونا چاہئے تھے۔ حجاج بن یوسف جب مدینہ کا امیر ہوکر آیا تو اس نے اوقات نماز میں کچھ تقدیم وتاخیر کی، لوگ ان کے پاس دوڑے ہوئے آئے فرمایا کہ آنحضرتﷺ ظہر کی نماز دوپہر کے بعد، عصر کی آفتاب کے صاف اور روشن ہونے تک، مغرب کی وقت غروب ،فجر کی تاریکی میں پڑہتے تھے اور عشاء کے وقت لوگوں کا انتظار ہوتا تھا، اگر جلد مجمع ہو گیا تو جلد پڑہتے تھے ورنہ دیر میں۔ (مسند:۳/۳۶۹) ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن جابرؓ نے تین برس کے لئے اپنی زمین کا پھل فروخت کردیا ان کو خبر ہوئی تو کچھ لوگوں کو لے کر مسجد آئے اور سب کے سامنے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، جب تک پھل کھانے کے قابل نہ ہوجائیں، ان کا فروخت کرنا جائز نہیں۔ (مسند:۳/۳۶۹) (پھر نکلنے سے قبل کیونکر جائز ہوسکتا ہے) ایک مرتبہ ایک سر گروہ فتنۂ وفساد مدینہ آیا، لوگوں نے حضرت جابرؓ کو گھیرا کہ اس کو شر سے باز رکھئے، اس زمانہ میں وہ بینائی سے محروم ہوچکے تھے اپنے دو بیٹوں کو بلایا اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نکلے اور کہا کہ خدا اس کو ہلاک کرے جس نے رسول اللہﷺ کو خوف میں ڈال رکھا ہے،بیٹوں نے عرض کیا رسول اللہ ﷺ تو وفات پاچکے ہیں، اب ان کو خوف کیسا؟ فرمایا آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے جس نے اہل مدینہ کو ڈرایا،گویا خود مجھے ڈرایا۔ آپ اتباع رسول کے ولولہ میں ان مور میں بھی آپ کی اقتدا کرتے تھے جنہیں آپ کی تقلید ضروری نہیں ہے، آنحضرتﷺ کو ایک مرتب صرف ایک کپڑا اوڑھے نماز پڑہتے دیکھا تھا اس لئے خود بھی اسی طرح نماز پڑھی ،شاگردوں نے کہا کہ آپ کے پاس چادر رکھی تھی اس کو کیوں نہ اوڑھ لیا کہ ازار اورچادر دوکپڑے ہوجاتے،فرمایا اس لئے کہ تم جیسے بے وقوف رسول اللہ ﷺ کی اس رخصت کو دیکھیں اور اعتراض کریں۔ (مسند:۳/۲۲۰) آنحضرتﷺ نے مسجد فتح میں تین روز (پیر،منگل، بدھ) دعا مانگی تھی تیسرے دن نماز کے اندر قبول ہوئی تو چہرہ مبارک پر بشارت کی موجیں نور بن کر دوڑ گئیں، حضرت جابرؓ نے یہ واقعہ دیکھا تھا،چنانچہ جب کوئی مشکل آپڑتی تو اس خاص وقت میں وہاں جاکر دعا کرتے اور قبولیت واجابت کا مژدہ ساتھ لاتے تھے۔ (مسند:۳/۳۷۷) غزوات نبویﷺ میں انہوں نے سر فروشی اور فداکاری کا اعلانیہ ثبوت دیا اور غزوہ ٔحدیبیہ یا مشہد بیعت الرضوان میں جس قوت نے کام کیا تھا اس کا اقرار خود مصحف ناطق میں کیا گیا ہے۔ حب رسولﷺ کے مناظر یہ ہیں: غزوۂ خندق میں تمام لشکر بے آب ودانہ تھا اور سید کونین ۳ دن فاقہ سے رہے اور پیٹ پر پتھر باندھ کر مہمات جنگ میں مصروف تھے،آقا کو اس حالت میں دیکھا تو کام چھوڑ کر مکان گئے اوردعوت کا انتظام کیا۔ (مسند احمد۳,۳۷۷) ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں اعلیٰ قسم کے چھوہارے جن میں گٹھلی نہ تھی پیش کئے، آپ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا تھا کہ میں گوشت سمجھا تھا، اسی وقت گھر جاکر بیوی سے کہا ،انہوں نے بکری ذبح کرکے گوشت پکادیا۔ (مسند احمد،۳،۳۳۴) ایک روز آنحضرتﷺ ان کے مکان پر تشریف لے گئے، آپ کی عادت معلوم تھی،اٹھے اورایک فربہ بکری کا بچہ ذبح کیا، وہ چلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا نسل اور دودھ کیوں قطع کرتے ہو؟ عرض کیا ابھی بچہ ہے چھوہارے کھاکر اتنی موٹی ہوگئی ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرت سامنے سے گذرے ،یہ ڈھال میں چھوہارے لئے تھے شرکت کی دعوت دی،آپﷺ نے قبول فرمائی۔ (مسند احمد) حدیبیہ سے آنحضرتﷺ کے ساتھ چلے، سقیا میں قیام ہوا، پانی موجود نہ تھا، حضرت معاذ بن جبلؓ کی زبان سے نکلا کہ کوئی پانی پلاتا، حضرت جابرؓ چند انصار کو لیکر پانی کی تلاش میں روانہ ہوئے ۲۳ میل چل کر اثایہ میں پانی ملا وہاں سے مشکوں میں بھر کر لائے، عشاء کے بعد دیکھا تو ایک شخص اونٹ پر سوار حوض کی طرف جارہا ہے، یہ آنحضرتﷺ تھے بڑھ کر مہار تھام لی اونٹ کو بٹھایا ،آنحضرتﷺ نے اتر کر نماز پڑھی خود بھی پہلو میں کھڑے ہوکر نماز میں شریک ہوئے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گرپڑے تھے وہ عیادت کو آئے، رسول اللہ ﷺ کو کبھی قرض کی ضرورت ہوتی تو ان سے لیتے تھے ؛چنانچہ ایک مرتبہ قرض لیا تھا اور ادائیگی کے وقت بطور اظہار خوشنودی کچھ زیادہ دیا۔ (مسند احمد) رسول اللہ ﷺ کو بھی ان سےبہت محبت تھی، ایک واقعہ میں ان کے لئے ۲۵ مرتبہ استغفار فرمایا تھا، ایک مرتبہ بیمار پڑے تو خود عیادت کے لئے تشریف لائے، حضرت جابرؓ بے ہوش تھے، آپ ﷺ نے وضو کرکے پانی کے چھینٹے دیئےتو ہوش آیا اس وقت تک ان کے کوئی اولاد نہ تھی، باپ بھی فوت ہوچکے تھے، شریعت میں ایسے شخص کے وارث کو کلالہ کہتے ہیں؛ چونکہ زندگی سے ناامید ہوچکے تھے، عرض کیا کہ میں مرگیا تو کلالہ وارث ہوگا، فرمائیے میراث کیونکر تقسیم کروں ؟ کیا دو ثلث بہنوں کو دیدوں؟ فرمایا اچھا ہے دیدو، عرض کیا خواہ نصف؟ فرمایا ہاں، یہ کہہ کر باہر تشریف لائے،پھر واپس ہوئے اورآکر کہا جابر! تم اس مرض میں نہ مروگے تمہارے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ (نساء:۱۷۶) تم سے (اے پیغمبر)لوگ کلالہ کے بارہ میں استفسار کرتے ہیں کہو کہ خدا کا اس کے متعلق یہ فتویٰ ہے۔ تم بہنوں کو دو ثلث دے سکتے ہو۔ کہیں دعوت ہوتی تو ساتھ لیجاتے کبھی خود اپنے ساتھ مکان پر لاتے اورکھانا کھلاتے ایک روز وہ اپنے گھر کی دیوار کے سایہ میں بیٹھے تھے،رسول اللہ ﷺ سامنے سے گذرے، یہ دوڑ کر ساتھ ہولئے ادب کے خیال سے پیچھے چل رہے تھے، فرمایا پاس آجاؤ، ان کا ہاتھ پکڑ کر کاشانہ اقدس پر لائے اور پردہ گرا کر اندر بلایا اندر سے ۳ ٹکیاں اورسرکہ ایک صاف کپڑےپر رکھ کر آیا، آپ نے ڈیڑھ ڈیڑھ روٹی تقسیم کی اور فرمایا سرکہ بہت عمدہ سالن ہے،جابرؓ کہتے ہیں کہ اس دن سے سرکہ کو میں نہایت محبوب رکھتا ہوں۔ (مسند احمد) کچھ اس واقعہ پر موقوف نہیں نوازشات خاصہ ہر صورت میں ہوتی رہتی تھیں،غزوہ ذات الرقاع میں حضرت جابرؓ نہایت عمدہ اونٹ پر سوار تھے جو اپنی تیز رفتاری میں تمام اونٹوں سے آگے تھا، چلتے چلتے یکا یک رک گیا(مسند احمد) پیچھے سے آواز آئی کیا ہوا، یہ آنحضرتﷺ تھے،تشریف لائے اورایک کوڑا مارا اونٹ پھر تیز ہوگیا۔ اوران کو لے اڑا، آنحضرتﷺ نے فرمایا، اس کو میرے ہاتھ فروخت کردو، عرض کیا حاضر ہے، لیکن قیمت کی ضرورت نہیں، فرمایا نہیں قیمت دیجائے گی(مسند:۳/۳۱۴) درخواست کی کہ مدینہ تک میں اسی پر چلوں گا جو منظور ہوئی،شہر پہنچ کر اونٹ کو لیکر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ اس کو گھوم گھوم کے دیکھتے تھے اور فرماتے تھے کیسا اچھا ہے؟ اس کے بعد حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ اتنے اوقیہ سونا تول دو، اصل کے بعد کچھ اور بھی عطا فرمایااور پوچھا دام پاچکے؟ کہا جی ہاں، فرمایا دام اور اونٹ دونوں لیجاؤ سب تمہارا ہے (مسند:۳/۳۷۲) ایک یہودی نے اس واقعہ کو سنا تو تعجب کیا۔ (مسند:۳/۳۰۳) قیمت سے زیادہ دام چونکہ آنحضرت ﷺ کی بخشش تھی اس لئے اس کو ایک تھیلی میں علیحدہ حفاظت سے رکھ دیا، حرہ کے دن اہل شام نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اس میں دوسری چیزوں کے ساتھ اس کو بھی لوٹ لے گئے۔ (مسند:۳/۳۰۸) ایک مرتبہ بحرین سے مال آنے والا تھا، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم کو ۳ آبخورہ بھر کردوں گا، لیکن جب مال آیا تو آپ ﷺ کا وصال ہوچکا تھا ،حضرت ابوبکرؓ نے منادی کرادی کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے کسی سے وعدہ کیا ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہو تو وہ مجھ سے لے سکتا ہے، حضرت جابرؓ نے کہا کہ مجھ سے وعدہ فرمایا تھا فرمایا لے لو،۳ آنجورہ میں ۱۵۰۰ آئے۔ رسول اللہ ﷺ کا ادب واحترام خاص طور پر ملحوظ رہتا تھا، اعمال وعقائد میں تو آنحضرتﷺ کا ہر قول وفعل فرض وواجب کا درجہ رکھتا ہے اوراس میں کسی کو مجال انکار نہ تھی، لیکن امور باہمی میں بھی ان کو اس کا لحاظ رہتا تھا کہ جس بات کو آنحضرتﷺ ۳ مرتبہ ارشاد فرماتے بے چون وچرا تسلیم کرلیتے، ایک دو مرتبہ میں قیل وقال کی گنجائش رہتی تھی،(مسند:۳/۲۸۵،۳۵۹) مسلمانوں سے محبت کرتے اور" رحماء بینھم" کی مجسم تصویر تھے۔ ایک مرتبہ ان کا پڑوسی کہیں سفر میں گیا تھا، واپس آیا تو بایں جلالت قدر ملاقات کو تشریف لے گئے ،اس نے لوگوں کے اختلاف اورجماعت بندی کی داستان سنائی، بدعات کا رائج ہونا بیان کیا، صحابہ نے کشت اسلام اپنے بدن کے خون سے سینچی تھی ان واقعات کے کب کان متحمل ہوسکتے تھے؟ بے اختیار آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے سچ کہا تھا کہ لوگ جس طرح گروہ در گروہ خدائی دین میں داخل ہونگے اسی طرح خارج بھی ہوجائیں گے۔ (مسند احمد) ان اوصاف کے ساتھ مذہبی جوش اور حرارت بھی نہایت نمایاں تھی ایک میل سے پنجوقتہ نماز پڑہنے آتے تھے(مسند احمد) ظہر کے وقت گرمی کی یہ شدت ہوتی تھی کہ زمین پر سجدہ کرنا دشوار تھا، ہاتھ میں کنکریاں ٹھنڈی کرتے اور سجدہ کرتے تھے، لیکن آنا ترک نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ مسجد نبویﷺ کے قرب میں مکانات خالی ہوئے،حضرت جابرؓ اوربنو سلمہ کا ارادہ ہوا کہ یہاں اٹھ آئیں کہ نماز کا آرام ہوگا، آنحضرتﷺ سے درخواست کی،آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں وہاں سے آنے میں ہر قدم پر ثواب ملتا ہے، سوچو تو کتنا ثواب ہوا، سب نے کہا کہ حضور ﷺکا ارشاد بدل وجان منظور ہے۔ (مسند احمد) حج متعدد کئے تھے،دو کا تذکرہ حدیثوں میں آیا ہے، پہلا حجۃ الوداع ،دوسرا ایک اور جس میں محمد بن عباد بن جعفر نے ایک مسئلہ پوچھا تھا۔ سادگی مسلمانوں کی ترقی کا اصل راز ہے، حضرت جابرؓ نہایت سادہ تھے ،صحابہ کا ایک گروہ مکان پر ملنے آیا، اندر سے روٹی اورسرکہ لائے اورکہا بسم اللہ اس کو نوش فرمائیے، سرکہ کی بڑی فضیلت آئی ہے، پھر فرمایا آدمی کے پاس اگر اعزہ واحباب آئیں تو جو کچھ حاضر ہو پیش کردے اس میں کوتاہی نہ کرے ،اسی طرح ان لوگوں کا فرض ہے کہ پیش کردہ چیز کو خوشی خوشی کھائیں اوراس کو حقیر نہ سمجھیں کیونکہ تکلف میں دونوں کی ہلاکت کا سامان ہے۔ (مسند:۳/۳۷۱) ایک مرتبہ مقنع بیمار ہوئے تو حضرت جابرؓ دیکھنے کو گئے تو فرمایا میرے خیال میں تم پچھنہ لگاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس میں شفاء ہے۔ (مسند:۳/۳۳۵) مزاج میں بے تکلفی تھی ملنے جلنے کا انداز بہت سادہ تھا، آنحضرتﷺ سے زیادہ کون معزز ومحترم ہوسکتا تھا،لیکن جب آپ چلتے تو لوگ آپ کے برابر یا آگے چلتے تھے،حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ ﷺ کے پیچھے فرشتے چلتے تھے۔ (مسند:۳/۳۳۲) آنحضرتﷺ کی ایک ایک چیز دل و دماغ میں جاگزیں تھی۔ بیعت الرضوان کی بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی لوگ اس جگہ کو متبرک سمجھ کر نماز پڑہنے لگے حضرت عمرؓ نے اس کو کٹوادیا، مسیب بن حزن کا بیان ہے کہ اس درخت کو ہم دوسرے ہی سال بھول گئے تھے، (بخاری:۲/۵۹۹) لیکن حضرت جابرؓ کو برسوں کے بعد بھی یاد تھا، اخیر عمر میں نابینا ہوگئے تھے، حدیبیہ کا قصہ بیان کیا تو فرمایا آج آنکھیں ہوتیں تو وہ موقع دکھلا دیتا۔ (بخاری:۲/۵۹۹)