انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابو حامد محمد بن غزالیؒ (م:۵۰۵ھ) ۱۔خود کو بڑانہ سمجھنا چاہیے،حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصیت ہے،کیونکہ دراصل بڑائی اسی کو سزا وار ہے۔ ۲۔جب تک آنکھوں کی حفاظت نہ کی جائے فسق و فجور سے بچنا دشوار ہے۔ ۳۔تمسخر اکثر قطع دوستی ،دل شکنی اوردشمنی کا باعث ہوتا ہے،اس سے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے۔ ۴۔بعض لوگ توکل کے یہ معنی لیتے ہیں کہ حصول معاش کی کوشش اور تدبیر نہ کریں مگریہ خیال جاہلوں کا ہے؛کیونکہ یہ شریعت میں حرام ہے۔ ۵۔تین چیزیں خباثت قلب کو ظاہر کرتی ہیں. (۱)حسد (۲)ریا (۳)عجب، عقل مند کو ان سے بچنا چاہیے، جو شخص ان سے محفوظ رہے گا، وہ دوسری مصیبتوں سے بھی محفوظ رہے گا۔ ۶۔حاسد اس شخص کی طرح ہے جو اپنے دشمن کو مارنے کے لئے پتھر پھینکے اورپتھر دشمن کو لگنے کے بجائے اس کی اپنی داہنی آنکھ پر لگے اورآنکھ پھوٹ جائے، اس سے اس شخص کو اور غصہ آئے، اوروہ پھر زور سے پتھر مارے اوروہ اسی طرح اس کی دوسری آنکھ بھی پھوڑدے، پھر پتھر مارے اور اپنا سر توڑ ڈالے، اسی طرح دشمن کی طرف پتھر پھینک پھینک کر خود زخمی ہو اوردشمن صحیح و سالم رہے اورمخالف دیکھ دیکھ کر ہنسیں۔ ۷۔دوست جو صرف تمہاری اچھی حالت کا دوست ہو اور مشکل وقت میں کام نہ آئے اس سے بچنا چاہئے ؛کیونکہ وہ سب سے بڑا دشمن ہے۔ ۸۔علم دین وہ ہے جو اللہ کا خوف زیادہ کرے،ذاتی برائیوں سے واقف کرے،اللہ تعالی کی عبادت کا شوق دل میں پیدا کرے، دنیا کی طرف سے ہٹائے،دین کی طرف لگائے اوربرے افعال سے روک کر رکھے۔ ۹۔ریاکاری گویا اللہ تعالی کی نسبت لوگوں کو زیادہ عزیز رکھنا ہے۔ ۱۰۔اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھ لینا جہالت ہے؛بلکہ ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھنا چاہئے۔ ۱۱۔صبح سویرے اٹھ جانا چاہیے اورسب سے پہلے جو خیال دل میں آئے یا زبان سے نکلے وہ اللہ پاک کا ذکر ہونا چاہئے۔ ۱۲۔بلند آواز سے رونا بے صبری اورقہقہہ مارکا ہنسنا سفاہت کی دلیل ہے۔ ۱۳۔بدخلقی نجاست باطنی کی دلیل ہے۔ ۱۴۔کلام میں نرمی اختیار کر؛کیونکہ الفاظ کی نسبت لہجے کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ۱۵۔خاموشی بغیر محنت کے عبادت،بغیر سلطنت کےہیبت،بغیر دیوار کے قلعہ،بغیر ہتھیار کے فتح،کراما کاتبین کا آرام،مومنین کا قلعہ ،عاجزوں کا شیوہ اوردبدبہ ہے۔ ۱۶۔دنیا کا طالب سمندر کا پانی پینے والے کی طرح ہے کہ جس قدر پیتا ہے زیادہ پیاس لگتی جاتی ہے۔ ۱۷۔قرض کی ادائیگی کی طاقت رکھتے ہوئے ایک ساعت بھی دیر کرنا ظلم ہے البتہ اگر قرض خواہ کی اجازت ہو تو جائز ہے۔ ۱۸۔گری ہوئی چیز کا بغیر اطلاع قبضے میں کرلینا، لوٹنے کی مانند ہے۔ ۱۹۔جو شخص صدقہ کے ثواب کا فقیر کی حاجت کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ محتاج نہ جانے اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ ۲۰۔خواہش پر غالب آنا فرشتوں کی صفت ہے اورخواہش سے مغلوب ہونا جانوروں کی۔ ۲۱۔اکثر تاخیر نکاح بھی سبب زنا بن جاتی ہے اور وبال والدین پر ہوتا ہے۔ ۲۲۔نماز میں حضور قلب کی تدبیر یہ ہے کہ الفاظ کے معانی پر خیال رکھے۔ ۲۳۔جو کام نبی پاک ﷺ کے حکم کے خلاف ہو اگرچہ بشکل عبادت ہوگناہ ہے۔ ۲۴۔بچوں کی اصلاح مکتب میں ہے اور عورتوں کی گھرمیں۔ ۲۵۔عبادت میں تشدد سے بچو،میانہ روی اورمداومت کو لازم پکڑو۔ ۲۶۔السلام علیکم کےکہنے سے ترک کلام کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔ ۲۷۔مخلوق سے ایسا معاملہ کرو جوان سے اپنے حق میں پسند کرتے ہو۔ ۲۸۔خالق سے ایسا معاملہ کرو جیسا کہ تم اپنے غلام سے اپنے لئے کرانا چاہتے ہو۔ ۲۹۔خوراک بھوک سے کم کھاؤ،تاکہ قوتِ عبادت اورصحت میسر آئے،زیادہ کھائے گا تو خواہش نفس کے لئے ہوجائے گا؛کیونکہ عبادت سے غافل ہوگا اوریہی نفس کی خواہش ہے،کھانے میں عیب نہ نکالو،ناپسند ہو تو مت کھاؤ۔ ۳۰۔تکلف کی زیادتی محبت کی کمی کا باعث بن جاتی ہے۔ ۳۱۔اگر کوئی شخص قرض لے اوردینے کی نیت نہ ہو تو چور ہے۔ ۳۲۔عابد کو کھانا کھلانا عبادت میں مدد کرنا ہے اور فاسق کو کھلانا فسق میں مدد کرنا ہے۔ ۳۳۔مجلس کے اندر بیٹھ کر قریب تر لوگوں کی مزاج پرسی کرو،میزبان کو انتظار میں نہ ڈالو،وقت مقررہ پر جلد پہنچا کرو۔ ۳۴۔بیوی کی بد اخلاقی پر صبر کرنا، اس کی ضروریات کا انتظام کرنا اورراہ شرع پر قائم رہنا بہترین عبادت ہے۔ ۳۵۔عورت کے ساتھ نیک خورہناچاہیے،اس کو رنج نہ دے ؛بلکہ اس کا رنج سہے۔ ۳۶۔نکاح نہ کرنے والا گو شرمگاہ کو بچالے مگر نظر اوردل کا بچانا اس کو محال ہے۔ ۳۷۔ عورتوں کو ضعف اورستر سےپیدا کیا ہے،ضعف کا علاج خاموشی اورستر کا علاج پردہ میں رکھنا ہے۔ ۳۸۔جو شخص مال کافی رکھتا ہو، اس کے لئے کسب کرنے سے عبادت بہتر ہے۔ ۳۹۔بادشاہ کے کارندوں کے ظلم کی باز پرس بادشاہ سے بھی ہوگی اورکارندوں سے علیحدہ بھی ہوگی۔ ۴۰۔مال حرام سے صدقہ کرنے والا ناپاک کپڑا پیشاب سے دھونے والے کی مثل ہے۔ ۴۱۔جو شخص حرام کھاتا ہے اس کے تمام اعضا گناہ میں پڑجاتے ہیں۔ ۴۲۔محتاجوں سے مہنگا مال خریدنا احسان میں ہے اور صدقہ سے بہتر ہے۔ ۴۳۔جو ایمان رکھتا ہے کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے وہ سب احتیاطیں کرسکتا ہے۔ (مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے،مخزن اخلاق،ص:۱۳۰ تا ۱۳۴) ۴۴۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقصد عظیم کے لئے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا گیا،اگر اس کام کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور اس کے علم و عمل کو چھوڑدیا جائے تو العیاذ باللہ نبوت کا بے کار ہونا لازم آئے گا،دیانت مضمحل ہو جائے گی،ضلالت عام ہوجائے گی، جہالت کا غلبہ ہوجائے گا،ہر طرفساد پھیل جائے گا، آبادیاں ویران ہوجائیں گی، انسان ہلاک ہوجائیں گے؛ لیکن انہیں اپنی ہلاکت کا علم قیامت سے پہلے نہ ہوسکے گا، افسوس یہ ہے کہ ہمیں جس بات کا اندیشہ تھا وہ رونما ہوچکی ہے، اس قطب اعظم کا علم اور عمل ختم ہوکر رہ گیا ہے اس کی حقیقت مٹ گئی ہے، دلوں پر مخلوق کی محبت اورخوف چھاگیا ہے، خالق کی طرف توجہ نہیں رہی،لوگ نفسانی خواہشات اورشہوات کی اتباع میں حیوانوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، روئے زمین پر ایسے صادق مومن کا ملنا دشوار ہوگیا جو راہ حق میں ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرے۔ (احیاء علوم الدین:۲/۳۰۶) ۴۵۔لوگوں کے دلوں میں عزت و منزلت پیدا کرنے کے لئے دکھاوے کے طورپرنیک خصلتیں اختیار کرنا ریا ہے۔ (احیاء علوم الدین:۳/۲۹۷) (۱)دولتمندوں کا ایک گروہ بر بنائے بخل دولت کی حفاظت میں مشغول رہتا ہے اور ایسی بدنی عبادت سے اس کو دلچسپی ہوتی ہے جس میں کچھ خرچ نہیں ، مثلاً دن کا روزہ ، رات کی عبادت ، اور ختم ِ قرآن ، وہ بھی فریب میں مبتلا ہیں ، اس لئے کہ مہلک بخل ان کے باطن پر سوار ہے ، اور اس کے ازالہ کے لئے مال کے خرچ کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن وہ ایسے اعمال میں مشغول ہیں جس کی ان کو کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ (۲)عوام دولتمندوں اور فقراء میں سے کچھ لوگ ہیں جن کو مجالس ِ وعظ کی شرکت سے دھوکا لگا ہوا ہے ، ان کا اعتقاد ہے کہ محض ان مجالس میں شرکت کافی ہے ، انہوں نے اس کو ایک معمول بنالیا ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ عمل او رنصیحت پذیری کے بغیر محض مجلسِ وعظ میں شرکت باعثِ اجر ہے، وہ بڑے دھوکہ میں ہیں ، اس لئے کہ مجلسِ وعظ کی فضیلت محض اس لئے ہے کہ اس سے خیر کی ترغیب ہوتی ہے ، اگر اس سے خیر کی آمادگی اور اس کا جذبہ نہیں پیدا ہوتا تو اس میں کچھ خیر نہیں ، اگر تم خالی خولی وعظ کو وسیلہ ٔ نجات اور ذریعہ مغفرت سمجھتے ہو تو دھوکہ میں ہو ۔ (۳)دولتمندوں میں بہت سے لوگوں کو حج پر روپیہ صرف کرنے کا بڑاشوق ہوتا ہے وہ بار بار حج کرتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو بھوکا چھوڑدیتے ہیں اور حج کرنے چلے جاتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے صحیح فرمایا ہے کہ اخیر زمانہ میں بلا ضرورت حج کرنے والوں کی کثرت ہوگی ، سفر ان کو بہت آسان معلوم ہوگا ، روپیہ کی ان کے پاس کمی نہ ہوگی وہ حج سے محروم و تہی دست(خالی ہاتھ ) واپس آئیں گے ۔ (۴)رعایا کی خرابی کا سبب سلاطین کی خرابی ہے اور سلاطین کی خرابی کا سبب علماء کی خرابی ہے ۔