انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سلطان سلیم عثمانی سلطان سلیم جب قسطنطنیہ میں فوج اوررعایا کی خوشی اوررضا مندی سے تخت نشین ہوا تو اس کے دونوں بھائیوں کو جو ایشیائے کوچک میں برسر اقتدار تھے مخالفت کی جرأت نہ ہوئی اورانہوں نے بظاہر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا اورسلیم کی اطاعت کا اقرار کیا مگر درپردہ مخالفت اورمقابلہ کی تیاری میں مصروف رہے،سلیم بھی ایسا بیوقوف نہ تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کے عزائم اورخیالات سے بے خبر رہتا،مگر اس نے خود ان کے خلاف کوئی جنگی کاروائی ابتداءً نہیں کی یہاں تک احمد نے اما سیہ میں فوجیں فراہم کیں اوررعایا پر بڑے بڑے محصول لگا کر خزانہ فراہم کیا،ادھر اس کے بیٹے علاؤ الدین نے بروصہ میں باپ کے ایماپر اسی قسم کی تیاریاں کرکے خود مختاری کا اعلان کیا ،سُلطان سلیم نے یہ خبریں سُن کر ضروری سمجھا کہ خود ایشیائے کوچک میں جاکر اس بغاوت و سرکشی کا علاج کرے؛چنانچہ وہ خود فوج لے کر ایشیائے کوچک میں جاکر اس بغاوت و سرکشی کا علاج کرے؛چنانچہ وہ خود فوج لے کر ایشیائے کوچک میں آبنائے باسفورس کو عبور کرکے داخل ہوا اور بعض جنگئ جہاز سمندر کے کنارے کنارے روانہ گئے،بروصہ کے قریب علاؤ الدین کو مغلوب گرفتار کرکے بروصہ پر قبضہ اور علاؤ الدین اوراس کے بھائی کو قتل کیا یہاں اور بھی شہزادے یعنی سلطان سلیم کے بھتیجے موجود تھے وہ بھی گرفتار ہوکر مقتول ہوئے،یہ خبر سنتے ہی احمد فوج لے کر مقابلہ پر آیا، اس لڑائی میں احمد سلیم سے شکست کھاکر فرار ہوا، احمد نے اس شکست کے بعد اپنے دو بیٹوں کو ایران کے بادشاہ اسمعیل صفوی کے پاس بھیج دیا کہ وہاں حفاظت سے رہ سکیں گے اور خود ایشیائے کوچک میں ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتا پھرا،احمد اوراس کے بیٹے کا یہ انجام دیکھ کر بڑا بھائی قرقود بھی جو ایشیائے کوچک کے شمالی ومشرقی حصے پر حکمراں تھا چوکس ہوگیا، سلطان سلیم نے تامل وتساہل کو ضروری نہ سمجھ کر دس ہزار سواروں کے ساتھ اچانک قرقود کے علاقہ پر حملہ کیا، قر قود معمولی مقابلے کے بعد گرفتار ہوگیا،سلطان سلیم نے اس تختِ سلطنت کے دعوئے دار کو زندہ رکھنا مناسب نہ سمجھ کر قتل کرادیا ،لیکن اس کو اپنے بھائی کے اس طرح مقتول ہونے کا سخت صدمہ ہوا ،کئی روز تک سوگوار رہا اور کھانا پینا ترک رکھا۔ عثمانی خاندان کے شہزادوں کا اس طرح قتل ہونا عام طور پر لوگوں کے جذباتِ ہمدردی کو بھڑکا سکتا تھا،اسی لئے اس عرصہ میں احمد نے ایک جمعیت کثیر فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اورسلیم کے مقابلے پر صف آرا ہو کر کئی مرتبہ اس کی فوج کوشکست بھی دی لیکن اپنے بھائیوں کی طرح جلد ہمت ہارنے اوراستقلال کا دامن چھوڑنے والا نہ تھا،اس نے ایک طرف فوج کی بھرتی جاری کردی اوردوسری طرف اپنے فوج نظام کو مضبوط کرنے اور فتح حاصل کرنے کی تدابیر کو کام میں لانے کے لئے مصروف عمل رہا، آخر نتیجہ یہ ہوا کہ احمد کو بھی مغلوب ہوکر گرفتار ہونا پڑا،یہ آخری لڑائی جس میں احمد ہزیمت پاکر گرفتار ہواسلیم کی تخت نشینی سے پورے ایک سال بعد یعنی ۲۴ ،اپریل ۱۵۱۳ء مطابق ۹۱۹ھ کو ہوئی،احمد بھی گرفتار ہوکر قتل کیا گیا۔ سلطان سلیم کے عادات واطوار اورطرز عمل سے یہ بات پورے طور پر ثابت ہوچکی تھی کہ وہ اپنے باپ سے زیادہ بہادر اوراپنے دادا کی طرح اولوالعزم اوربہادر شخص ہے،عیسائی سلاطین بجائے خود خائف و ترساں تھے کہ دیکھئے یہ نیا سلطان ہمارے سرپر کیسی مصیبت لائے،مگر جب انہوں نے دیکھا کہ سلطان سلیم عیسائیوں کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے ہم قوم مسلمانوں کی طرف زیادہ مصروف و متوجہ رہنا چاہتا ہے تو انہوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ صلح کے عہد ناموں پر عمل در آمد جاری رکھا اورسلطان کی مغربی حدود سلطنت پر کسی قسم کی کشمکش پیدا نہ ہوئی،سلطان سلیم کو اپنے بھائیوں سے فارغ ہوتے ہی ایران کی سلطنت اور ایشیائے کوچک کے لوگوں سے الجھن پڑا اور حقیقت یہ ہے کہ سلطان سلیم اگر ایران کی سلطنت کے خلاف مستعدی کا اظہار نہ کرتا تو سلطنت عثمانیہ کے درہم برہم ہجونے میں کوئی کسر باقی نہ تھی،اسمعیل صفوی اپنے آپ کو حضرت امام جعفر صادقؒ کی اولاد میں بتا تا تھا اس لئے ایرانی رعایا اوربھی زیادہ اس کی گر ویدہ ہوگئی تھی،شام اور ایشیائے کوچک میں بھی شیعہ سُنی کے ہنگامے کم نہیں ہوچکے تھے،ان ملکوں میں شیعہ مذہب کو قبول کرنے کا کچھ نہ کچھ مادّہ موجود تھا،نیز بہت سے شیعہ ان ملکوں میں سکونت پذیر تھے،اسمعیل صفوی کی نانی ایک عیسائی عورت اورطرابزون کے عیسائی بادشاہ کی بیٹی اورحسن طویل کی بیوی تھی،لہذا اسمعیل صفوی کی خواہش تھی کہ طرابزون کے عیسائی بادشاہ کی بیٹی اورحسن طویل کی بیوی تھی، لہذا اسمعیل صفوی کی خواہش تھی کہ طرابزون کے عیسائی بادشاہ کی بیٹی اورحسن طویل کی بیوی تھی،لہذا اسمعیل صفوی کی خواہش تھی کہ طرابزون میرے قبضے میں آئے،؛حالانکہ وہ عرصہ سے سلطنتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا اسمعیل صفوی کو چونکہ اسی شیعہ عصبیت کے ذریعہ سلطنت پہنچنے کا موقع ملا تھا اوراس کو معلوم تھا کہ کس طرح شیعوں نے خلافت بغداد کو مغلوں کے ہاتھ سے برباد کرایا لہذا اسمعیل صفوی جیسے اولوالعزم اورزبردست بادشاہ کا سلطنتِ عثمانیہ کو نفرت و عداوت کی نظر سے دیکھنا کوئی تعجب کی بات نہ تھی،اس نے ایران کا تخت حاصل کرنے کے بعد بایزید ثانی کے عہدِ حکومتمیں ایشیائے کوچک کے اندر بدامنی پھیلانے اورشیعہ مذہب کی تلقین کرکے لوگوں کو خفیہ طور پر اپنی طرف مائل کرنے میں کوتاہی نہیں کی، ان کاروائیوں کا پورا پورا سد باب بایزید ثانی کی حکومت نے نہیں کیا اوراس کے دونوں بیٹوں نے جو ایشیا ئے کوچک میں بطور عامل حکمراں تھے اس خفیہ اشاعتی کام کا مطلق احساس نہیں کیا،مگر سلیم جو طرابزون کا حاکم تھا اسمعیل صفوی کی ریشہ دوانیوں کو خوب محسوس کرچکا تھا اوراسی لئے اس نے اپنے ماتحت صوبے میں اسمعیل صفوی کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا، اسمعیل صفوی سلطان بایزید ثانی ہی کے عہدِ حکومت میں بعض سرحدی علاقوں پر قبضہ کرچکا تھا اور عثمانیہ سلطنت کے کے عمال جب ان علاقوں کو واپس نہ لے سکے تو بایزید ثانی نے کچھ زیادہ التفات اس طرف نہیں کیا،جب سلطان سلیم اپنے بھائیوں اور بھتیجوں سے ایشیائے کوچک میں برسرپیکار تھا تو شاہ اسمعیل صفوی اس خانہ جنگی کو بڑے اطمینان سے دیکھ رہا تھا اور اس نے شہزادہ احمد برادرسلطان سلیم کوسلیم کے خلاف اپنے ان داعیوں کے ذریعہ جو ایشیائے کوچک میں کام کررہے تھے خوب امداد پہنچائی تھی،اسی لئے احمد اس قابل ہوگیا تھا کہ اس نے سلطان سلیم کی فوج کو شکست بھی دے دی تھی،اب سلطان سلیمنے دیکھا کہ اسمعیل صفوی کے پاس شہزادہ احمد کا بیٹا مراد یعنی سلیم کا بھتیجا موجود ہے اور اسمعیل اس کوشش میں مصروف ہے کہ مراد کو اپنی زبردست فوج دے کر ایشیائے کوچک پر حملہ کرائے اور خود اس کا شریک ہوکر اس کا قسطنطنیہ کے تخت پر بٹھائے تو وہ اس خطرے سے غافل نہیں رہ سکتا تھا، دوسری طرف اس نے دیکھا کہ ایشیائے کوچک کے قصبوں،شہروں اورگاوؤں میں بڑے زور شور سے شیعہ سُنی مذہب کے جھگڑے برپا ہیں جو اسمعیل صفوی کے پیدا کئے ہوئے تھے،سلطان سلیم نے بھائیوں کے قتل سے فارغ ہوکر اورقستطنطنیہ واپس آکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایشیائے کوچک میں ایک زبردست محکمہ ٔ خفیہ قائم کیا اور حکم دیا کہ ان لوگوں کی نہایت صحیح اور مکمل فہرست تیار کی جائے جو اسمعیل صفوی کے منّادوں کی تعلیم سے اپنے پرانے عقید ے کو ترک کرکے شیعہ مذہب اختیار کرچکے ہیں اور ساتھ ہی اسمعیل صفوی کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے اوراس پر نثار ہونے کے لئے تیار ہیں، یہ فہرست بہت جلد تیار ہوکر سلطان کی خدمت میں پیش ہوئی تو معلوم ہوا ایشیائے کوچک میں ستر ہزار آدمی ایسے موجود ہیں جو اسمعیل صفوی کے حملہ آور ہوتے ہی بلا توقف مسلح ہوکر بغاوت پر آمادہ اورسلطانِ عثمانی کے خلاف شمشیر زنی میں مطلق کوتاہی نہ کریں گے،جب اس عظیم الشان سازش اوراس کے خطرناک نتائج پر سلیم نے نظر ڈالی تو اس کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اورمطلق اظہار بیتابی نہ کیا؛بلکہ نہایت احتیاط اورانتظام کے ساتھ تمام ان مرکزی مقاموں پر جہاں جہاں ان غدا اورباغی لوگوں کی کثرت تھی،باغیوں کی تعداد کے مساوی فوج بھی دی اورہر جگہ کی فوج کے افسروں کو وہاں کے غداروں کی فہرست دے کر حکم دیا کہ فلاں تاریخ کو ہر ایک باغی کے لئے ایک ایک سپاہی کو نامزد کردو اور سمجھادو کہ تاریخ ووقت مقرر ہ پر اس شخص کوقتل کردینا تمہارا فرض ہے ساتھ ہی اس بات کی بھی سخت تاکید کی کہ قبل ازوقت یہ راز افشانہ ہونے پائے؛چنانچہ اس حکم کی بڑی احتیاط کے ساتھ تعمیل ہوئی اورایک تاریخ اورایک ہی وقت مقررہ پر ایشیائے کوچک کے طویل و عرض میں چالیس بچاس ہزار کے قریب باغی اس اس طرح قتل ہوئے کہ کسی عثمانی سپاہی کو کوئی چشم زخم نہیں پہنچا،ان لوگوں کا بیک وقت اس طرح ہلاک ہونا شیعوں کے لئے بڑا ہیبت ناک واقعہ تھا،جو لوگ باقی رہ گئے ہوں گے ان کی ہمتیں پست ہوگئیں اوروہ مرعوب وخائف ہوکر اپنے فاسد خیالات سے خود بخود ہی تائب ہوگئے،اسمعیل صفوی کی سازش کو اس طرح ناکام بنانا سلطان سلیم کی بری عظیم الشان فتح تھی،لیکن اسمعیل صفوی اس خبر کو سں کر بہت ہی پیچ وتاب میں آیا مگر صاف لفظوں میں کوئی شکایت نہ کرکسا،آخر وہ ضبط نہ کرسکا اوراس نے فوجوں کی فراہمی اورسامان جنگ کی درستی کا حکم جاری کرکے اعلان کی کہ ہم ایشائے کوچک پر اس لئے حملہ آور ہونے والے ہیں کہ شہزادہ مراد بن احمد عثمانی کو اس کا آبائی تخت دلائیں اور سلیم عثمانی کو گرفتار کرکے معزول کردیں،یہ خبر سن کر سلیم عثمانی کو اس کا آبائی تخت دلائیں اور سلیم عثمانی کو گرفتار کرکے معزول کردیں، یہ خبر سن کر سلیم عثمانی نے دربا رعام میں اپنے اراکینِ سلطنت اورفوجی سرداروں کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم ملک ایران پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں،اس زمانے میں اسمعیل صفوی کی طاقت وہیبت کے افسانے اس قدر مشہور ہوچکے تھے اور خود ترکی فوج بھی اس سے شکست پائی ہوئی تھی، نیز ترکستان کے بادشاہ شیبانی کان کو اسمعیل صفوی قتل کرچکا تھا،لہذا حاضرین دربار اسمعیل صفوی پر چڑھائی کرنے کو بہت ہی خطرناک اقدام تصور کرتے تھے؛چنانچہ سب کے سب خاموش اور دم بخود درہے ،سلطان نے تین مرتبہ یہی لفظ کہے اور لر مرتبہ خموشی کے سوا کوئی لفظ کسی سے نہ سُنئامآجر اس ضنوشئ جو عطداککی بانئ ائج درطاب بت ھو سانبت اہبئ ضدنت ہر نانور و نوھود تگا اس طرگ قطع جئا جی وی آگت طڑگا اور سکطاب جت ساگھٹنوں کے بل کھڑے ہوکر مودبانہ عرض کیا کہ میں اور میرے ساتھ سلطانی جھنڈے کے نیچے ایران کے بادشاہ سے لڑیں گے اورخوب دادِ شجاعت دے کر ایرانیوں کو شکست فاش دیں گے،میدان میں مارے جائیں گے سلطان عبداللہ کے اس کلام کو سُن کر بہت خوس ہوا اوراسی وقت اس کو دربانی کے عہد سے ترقی دے کر ایک ضلع کا کلکٹر بنادیا،اس کے بعد دوسرے سردارووں کو بھی جرأت ہوئی اورانہوں نے اپنی آمادگی کا اظہار کیا شاہ اسمعیل صفوی اورسلطان سلیکم عثمانی کی لڑائی کا حال لکھنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسمعیل صفوی اوراس کے بادشاہت تک پہنچنے کا حال بیان کردیاجائے۔