انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پہلی جنگ شہر شدونہ کے متصل لاجنڈا کی جھیل کے قریب ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے ۲۸رمضان المبارک۹۲ھ مطابق ماہ جولائی۷۱۱ء کو دونوں فوجوں کامقابلہ ہوا،موسی بن نصیر نے طارق کے روانہ ہونے کے بعد آفریقہ سے پانچ ہزار فوج بغرض کمک روانہ کردی تھی یہ پانچ ہزار فوج بھی ھارق کے پاساس مقابلہ سے پہلے پہنچ چکی تھی لکہذا طارق کی فوج اب بارہ ہزار ہوگئی تھی ایک طرف بارہ ہزار مسلمان تھے دوسری طرف ایک لاکھ عیسائی تھے مسلمان اس ملک کے حالات سے ناواقف اور بالکل اجنبی تھے،عیسائی لشکر اس ملک کا رہنے والا تھا وار اپنے ملک وسلطنت کو بچانے کے لیے میدان میں آیا تھا،ادھر اسلامی لشکر کا سردارگورنرافریقہ موسی بن نصیر کا آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد تھاجو وکئی غیر معمولی قدر دانی نہیں کرسکتا تھا اور ملک اندلس کا شہنشاہ عیسائی لشکر کی سپہ سالاری کررہا تھا جس کے قبضہ میں جس کے قبضہ میں ملک کے تمام خزانے اور ہر قسم کی عزت افزائی وقدر دانی کے سامان تھے ادھر فوج میں اکثر نومسلم بربری تھے ادھر عقیدت مند عیسائیوں کی فوج تھی جن کو لڑائی پر ابھارنے اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے تمام بڑے بڑے اور نامور پادری اور پشپ موجود تھے اس معرکہ میں طارق کی مٹھی بھر فوججو اپنے حریف کی فوج گراں کا بمشکل آٹھواں حصہ تھی اگر شکست کھاجاتی تو یہ معرکہ بہت ہی معمولی اور ناقابل تذکرہ معرکہ ہوتا لیکن چونکہ بارہ ہزار مسلمانوں نےایک لاکھ باساز وسامان عیسائیوں کے لشکر جرار کو شکست فاش دی لہذا یہ لڑائی دنیا کی عظیم الشان لڑائیوں میں شمار ہوتی ہے،ایسہ عزیم الشان معرکہ کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت ہی کم اور صرف چند دستیاب ہوسکتی ہیں،ایک ہفتہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن رہیں،طارق نے جس وقت لرزیق شہنشاہ ہسپانیہ کے لشکر عظیم کے مقابل اپنی مٹھی بھر فوج کی صفیں درست کیں تو اپنے ہمراہیوں کو مخاطب کرکے ایک ولولہ انگیز تقریر کی جو ایمان باللہ کو استوار اور پائے استقلال کو مضبوط کرنے والی تھی طارق کی اس تقریر نے مسلمانوں بہادروں کے دوران خون کو بڑھادیا اور شوق شہادت نے الفت دنیا اور محبت زن وفرزند کو ولولوں سے مٹادیا اس کے بعد معرکہ کار زار گرم ہوا ادھر سے ہائے وہو کا شور وغل تھا ادھر سے تکبیر کی آواز تھی جو دشمنوں کے دل دہلاتی اور مسلمانوں کے دلوں کو بڑھاتی تھی۔ بہ پیکار کا ریکہ تکبیر کرد نہ شمشیر کردونے تیر کرد عیسائی لشکر کا بڑا حصہ زرہ پوش سواروں پر مشتمل تھا؛لیکن اسلامی فوج سب پیدل تھی ،عیسائی سواروں کی صفیں طوفانی گھوڑوں اور طوفانی سمندروں کی لہروں کی طرح جب حملہ آور ہوئی تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ فیل پیکر گھوڑوں اور دیو نثر سواروں کے پرے مسلمانوں کو کچلتے اور ان کی لاشوں کو صموں کی ضربوں سے قیمہ بناتے ہوئے گزر جائیں گے اور نیزہ وشمشیر کے استعمال کا نہ پائیں گے؛لیکن جس وقت یہ آہن پوش متاطم سمندر جمعیت اسلامی کے پہاڑ سے ٹکرایا ہے تو معلوم ہوا کہ بھیڑوں کی کثرت شیروں کی قلت پر غلبہ پانے کے لیے حملہ آور ہوئی تھی اسلامی تلوار وں کی بجلیاں چمکیں اور عیسائی افواج کی گھٹائیں کچھ تو خاک وخون میں لتھڑی ہوئی لاشوں کی شکل میں تبدیل ہوگئیں اور اکثر لکہ ہائے ابر کی طرح پاش پاش ہوکر متحرک ومفرور نظر آنے لگیں ،تکبیر کے پر ہیبت نعرے دم بدم میدان کے شور وغل پر غالب ہوتے جاتے تھے کہ شمشیر زنوں کی تیز وستی اور نیزہ بازوں کی چستی نے اس معرکہ کی عظمت کو مورخین عالم کے لیے ایسے بلند مقام پر پہنچادیا کہ ربع سکون کے ہر حصہ اور دنیا کی ہر ایک قوم نے حیرت کی نگاہوں سے اسلامی جوش کے اس نظارے کو دیکھا۔