انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتنۂ ارتداد عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدمدینہ ،مکہ وطائف کے سوا تمام ملک عرب ایسا مرتد ہوگیا کہ لوگ توحید کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہوگئے اور خدا کی جگہ بتوں کی پوجا کرنے لگے تھے؛حالانکہ یہ سمجھنا سراسر غلط اورخلافِ واقعہ ہے ،بات یہ تھی کہ کذابین یعنی جھوٹے مدعیانِ نبوت بھی نمازوں وغیرہ عبادات کے منکر نہ تھے اور ارتدادکفر وشرک کے لئے نہ تھا ؛بلکہ بعض ارکان اسلام بالخصوص زکوٰۃ سے لوگوں نے انکار کیا، اس ارتداد کا سبب قبائل عرب کی قدیمی مطلق العنانی اور آزاد منشی تھی، اسلام نے لوگوں پر زکوٰۃ فرض کی تھی،یہ ایک ٹیکس تھا جو علیٰ قدرِ مال و دولت صاحب نصاب لوگوں کو ادا کرنا پڑتا تھا،اس ٹیکس یا خراج کو آزادی کے خوگر لوگ اپنے لئے ایک بارِ گراں محسوس کرتے تھے، جو ابھی اچھی طرح ذائقہ اسلام کی چاشنی چش نہ ہوئے تھے ،انہوں نے اسلامی خراج کی ادائیگی سے انکار کیا،باقی مذہب اسلام سے ان کو انکار نہ تھا،زکوٰۃ کا انکار چونکہ قبائل کے مزاج اورمادی خواہشات وجذبات کے مناسب حال تھا،لہذا اس انکار میں ایک سرے سے دوسرے تک تمام ملک شریک ہوگیا، یہ چونکہ ایک سرکشی تھی لہذا نو مسلم سرکشوں کو مسیلمۂ و طلیحہ وغیرہ کذابین نے اپنے طرف جذب کرنے اورمالی عبادات کے علاوہ جسمانی عبادات میں بھی تخفیف کرکے اپنی اپنی نبوت منوانے کا موقع پایا۔ بہرحال شرک اوربت پرستی کا مسئلہ مطلق زیر بحث نہ تھا مگر دین اسلام نے نوع انسان میں جو شیرازہ بندی اور نظام قائم کرنا چاہا تھا، وہ نظام بظاہر درہم برہم ہوا چاہتا تھا، اس عظیم الشان خطرہ کا علاج مشرکین وکفار کی معرکہ آرائیوں سے زیادہ سخت اور دشوار تھا؛کیونکہ منکر ین زکوٰۃ کے عزائم اوراعلانات سنتے ہی ابوبکر صدیقؓ نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مجلس مشورت منعقد کی تو بعض صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ منکرین زکوۃ کے ساتھ مشرکین وکفار کی طرح قتال نہیں کرنا چاہیے، مگر یہ رائے بھی اسی طرح کمزورتھی جیسی کہ لشکر اسامہ کی روانگی کےخلاف بعض لوگوں نے ظاہر کی تھی ،جس طرح اس رائے کو صدیق اکبرؓ نے نہیں مانا تھا اسی طرح اس کمزور رائے کو بھی انہوں نے قابل قبول نہیں سمجھا،اورفرمایا کہ خدا کی قسم اگر زکوٰۃ کاایک جانور یا ایک دانہ بھی کوئی قبیلہ ادا نہ کرے گا تو میں اس سے ضرور قتال کروں گا۔ مرتدین کے وفود مدینہ منورہ میں آئے اورانہوں نے درخواست کی،نمازیں ہم پڑھتے ہیں زکوۃ ہم کو معاف کردو،حضرت ابوبکرصدیقؓ سے یہ صاف جواب سن کر وہ اپنے اپنے قبائل میں واپس گئے، یکایک تمام ملک میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس عزم راسخ کی خبر پھیل گئی اور مرتدین یا منکرین زکوۃ مقابلہ اور معرکہ آرائی کے لئے تیار ہوگئے ،صوبوں کے عاملوں نے اپنے اپنے صوبوں کے باغی ہوجانے اورزکوۃ وصول نہ ہونے کی اطلاعیں بھیجیں،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پوری مستعدی،کامل ہمت واستقلال کے ساتھ ایک بیدار مغز اورملک وار شہنشاہ کی حیثیت سے عاملوں کے نام مناسب ہدایت اور سرداران قبائل کے نام خطوط روانہ کئے، جیش اسامہ ادھر رومیوں سے برسر پیکار تھا،ادھر مرتدین جو مدینہ کے نواح میں جمع ہوگئے تھے،مدینہ پر حملہ کی دھمکی دے رہے تھے،دور دراز کے علاقوں کے مرتدین کے پاس پر شوکت وباسطوت تہدیدی خطوط حضرت ابوبکرصدیقؓ روانہ کررہے تھے اور نواحی باغیوں کے حملوں کی مدافعت ومقابلہ کی تیاریوں سے بھی غافل نہ تھے۔ آپ نے مدینہ منورہ کے موجودہ مسلمانوں کے قابل جنگ لوگوں کو مسجد نبوی کے سامنے ہمہ وقت موجود ومستعد رہنے کا حکم دے رکھا تھا اورحضرت علیؓ حضرت زبیرؓ،حضرت طلحہؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو مدینہ منورہ کے گرد گشت لگانے اور پہرہ دینے پر مامور کردیا تھا کہ اگر مدینہ پر کوئی قبیلہ حملہ آور ہو تو فورا اس کی اطلاع حضرت ابوبکر صدیقؓ کو پہنچ سکے،مقام ابرق میں قبیلہ عبس اورمقام ذی قلصہ میں قبیلہ ذیبان کا جماؤ تھا، بنو اسد اوربنو کنانہ کے بھی کچھ لوگ اس میں شامل تھے ،عبس اورذیبان کو جب یہ معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں بہت تھوڑے سے آدمی باقی ہیں اور زکوٰۃ کے معاف کرنے سے صدیق اکبرؓ نے صاف انکار کردیا ہے تو انہوں نے متفق ہوکر مدینے پر حملہ کردیا ان حملہ آوروں کو حضرت علیؓ وزبیرؓ وطلحہ وابن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدینے سے باہر ہی روکا اورمدینہ میں صدیق اکبرؓ کے پاس خبر بھیجی،ادھر سے بلا توقف کمک روانہ ہوئی ،مسلمانوں نے ذی خشب تک ان کو پسپا کردیا اور وہ ہزیمت پاکر بھاگ نکلے،مگر دوسرے راستے سے دف اورقسم قسم کے باجے بجاتے ہوئے لوٹے جس سے مسلمانوں کے اونٹ ایسے بدکے اور ڈر کر بھاگے کہ مدینہ ہی میں آکر دم لیا، یہ حالت دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ خود مدینہ سے باہر نکلے اور دشمنوں پر حملہ آور ہوئے ،مرتدین کو پانچ چھ گھنٹہ کی خوں ریز جنگ کے بعد شکست فاش حاصل ہوئی اور بہت سے مسلمانوں کے ہاتھ سے مقتول ہوئے۔ حضرت نعمان بن مقرنؓ اورایک چھوٹی سی جماعت کے ہمراہ مالِ غنیمت تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مدینہ میں بھیجا اورخود دشمنوں کے تعاقب میں روانہ ہوکر مقام ذی القصہ تک بڑھتے چلے گئے ادھر دشمنوں کی ایک بڑی جمعیت نے دھوکہ دے کر اورنظر بچا کر مدینے پر حملہ کردیا اور چند مسلمانوں کو شہید کرکے اورمال غنیمت واپس چھین کر چل دئیے،جب ابوبکر صدیقؓ واپس لوٹے اوریہ حال سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے اور قسم کھائی کہ جس قدر مسلمان مرتدین کے ہاتھ سے شہید ہوئےہیں جب تک اتنے ہی مرتدین کو قتل نہ کرلوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا غرض آپ اسی عزم و تہیہ میں تھے کہ حضرت اُسامہؓ معہ مالِ غنیمت مدینے میں داخل ہوئے، آپ نے اُسامہ اور اُن کے لشکر کو مدینہ میں چھوڑا کہ وہ اور ان کا لشکر جو سفر سے تھکا ہوا آیا ہے مدینہ میں آرام کریں اور خود مدینہ کے مسلمانوں کی مختصر سی جمعیت لے کر ذی خشب اور ذی قصۃ کی طرف خروج کیا ،مقام ابرق میں عبس وذیبان وبنوبکر وثعلبہ بن سعد وغیرہ قبائل برسر مقابلہ ہوئے،نہایت سخت لڑائی ہوئی، انجام کار مرتدین شکست یاب ہوکر فرار ہوئے،مقام ابرق میں حضرت صدیق اکبرؓ نے قیام کیا اور بنو ذیبان کے مقامات مسلمانوں کودئے،ان کی چراگاہیں مجاہدین کے گھوڑوں کے لئے وقف فرمادیں، وہاں سے آپ مقام ذی القصہ تک تشریف لے گئے اور دشمنوں کی قرار داقعی گوشمالی کی ،پھر مدینہ منورہ میں واپس تشر یف لے آئے،اب لشکر اسامہؓ بھی سستا لیا تھا۔ ملک عرب میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جن لوگوں سے مقابلہ ومقاتلہ درپیش تھا، ان کی دو قسمیں تھی اول وہ لوگ جو نجد ویمن وحضرت موت وغیرہ کی طرف مسیلمہ وطلیحہ وسبحاح وغیرہ جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ متفق ہوگئے تھے،ان لوگوں سے لڑنے یا قتال کرنے میں کسی صحابی کو اختلاف نہ تھا دوسرے وہ قبائل جو زکوٰۃ کے ادا کرنے سے انکار کرتے تھے اُن سے قتال کرنے کو بعض صحابہ نے نامناسب خیال کیا تھا،لیکن حضرت ابوبکرکہ اظہار رائے کے بعد سب صحابی ان کی رائے سے متفق ہوگئے تھے،ان دونوں قسم کے لوگوں میں کچھ فرق تو ضرو تھا،لیکن مسلمانوں نے جب کہ دونوں کے مقابلہ ومقاتلہ کو یکساں ضروری قراردیا،تو پھر اُن دونوں میں کوئی فرق وامتیاز باقی نہ رہا تھا، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دونوں گروہ دنیا طلبی ومادیت کے ایک ہی سیلاب میں بہہ گئے تھے،جن کو صدیقی تدبیر وروحانیت نے غرق ہونے سے بچایا اوراس طوفانِ ہلاکت آفرین سے نجات دلا کر ملک عرب کا بیڑا ساحل فوزوفلاح تک صحیح سلامت پہنچایا۔