انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تعارف صحابہ عہدِ رسالت میں بہت سے بزرگوں نے مدتوں جناب رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا، بہت سے بزرگوں نے آپ کے ساتھ متعددغزوات میں شرکت کی تھی، بہت سے بزرگوں نے آپ سے بکثرت احادیث کی روایتیں کی تھیں، (مثلا خلفائے راشدین اورتمام اکابر صحابہؓ) بہت سے بزرگوں نے مسلمان ہوکر سنِ بلوغ میں آپ کو دیکھا تھا،( مثلاً شرکائے حجۃ الوداع) بہت سے بزرگوں نے آپ کو قبل اسلام تو دیکھا تھا، لیکن بعد اسلام ان کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا،(مثلا ورقہ بن نوفل) بہت سے لوگ گو عہد رسالت میں موجود تھے؛ لیکن ان کو آپ سے ملنے یا آپ کے دیکھنے کا موقع نہیں ملا، (مثلاً حضرت اویس قرنیؒ اوراحنف بن قیسؒ) بہت سے لوگوں نے آپ کی زندگی میں تو آپ کو نہیں دیکھا؛ لیکن آپ کی وفات کے بعد ان کو آپ کا دیدار نصیب ہوا،( مثلا ابن ابی ودیب الہذلی شاعر) اوران کے علاوہ بہت سے بچے تھے جو آپ کے مبارک عہد میں پیدا ہوئے اورصحابہ کرام نے حصول برکت کے لیے ان کو آپ کی خدمت میں حاضر کیا اورآپ نے ان کا نام رکھا اور ان کو دعا دی ،( مثلا عبید اللہ بن الحارث بن نوفل، عبداللہ بن ابی طلحہ الانصاری اورمحمد بن ابی بکر الصدیقؓ جو آپ کی وفات سے تقریبا تین مہینے بیشتر حجۃ الوداع کے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے۔) اب سوال یہ ہے کہ ان مختلف الحیثیات بزرگوں میں کون لوگ ہیں جن پر لفظ صحابی کا اطلاق کیا جاسکتا ہے؟ اوروہ صحابہ رسول اللہﷺ کے مقدس خطاب سے یاد کیے جاسکتے ہیں۔ (۱)محد ثین کی ایک جماعت اورجمہور اصولین نے صحابی ہونے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ اس کو ایک مدت تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نشست وبرخاست کا موقع ملا ہو، کیونکہ عرف عام میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص فلاں کا ساتھی یارفیق ہے تو اس سے صرف یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے ایک کافی زمانہ تک اس کی صحبت اٹھائی ہے، جو لوگ کسی شخص کو محض دوریا قریب سے دیکھ لیتے ہیں اوران کو اس کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اوربات چیت کرنے کا موقع نہیں ملتا ان کو عام طورپر اس کا رفیق وساتھی نہیں کہا جاتا، قاضی ابوبکر محمد بن الطیب کا قول ہے کہ باتفاق اہل لغت صحابی صحبت سے مشتق ہے مگر صحبت کی کسی مخصوص مقدار سے مشتق نہیں؛ بلکہ اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوسکتا ہے جس نے کم و زیادہ کسی کی صحبت اٹھائی ہو، اس لیے کہا جاتا ہے کہ میں نے ایک سال ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی تک ایک شخص کی صحبت اٹھائی، اس لیے صحبت کی تھوڑی یا زیادہ مقدار دونوں پر صحبت کا اطلاق ہوسکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ عرفاً صحابی صرف اس شخص کو کہہ سکتے ہیں جس نے کسی کی طویل صحبت اٹھائی ہو، عرفاً اس شخص کو صحابی نہیں کہہ سکتے جس نے کسی سے ایک گھنٹہ کی ملاقات کی ہویا اس کے ساتھ چند قدم چلا ہویا اس سے کوئی حدیث سنی ہو۔ (اسد الغابہ جلد۱: ۱۲) بلکہ حضرت سعید بن مسیبؓ کے نزدیک صحابی صرف اس شخص کو کہہ سکتے ہیں جس کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو ایک غزوات میں شرکت کا موقع ملا ہو اورکم از کم اس نے سال دو سال تک آپ کے ساتھ قیام کیا ہو۔ (۲)بعض لوگوں کے نزدیک صحابی صرف اس کو کہتے ہیں، جس نے رسول اللہ ﷺ سے احادیث کی روایت کی ہو۔ (۳)بعض لوگوں کے نزدیک صحابی ہونے کے لیے صرف طویل صحبت کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے آپ کی صحبت بغرض حصول علم وعمل اختیار کی ہے؛ چنانچہ علامہ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں۔ قال ابوالحسین فی المعتمد ھومن طالت مجالسۃ لہ علی طریق التبع لہ والاخذ عنہ اما من طالت بدون قصدالاتباع اولم تطل کالوافدین فلا (فتح المغیث ،باب معرفۃ الصحابۃ،۳/۱۰۳،شاملہ۳۸،الناشر : دار الكتب العلمية - لبنان) ابو الحسین نے معتمدمیں کہا ہے کہ صحابی وہ ہے جس نے بطریق اتباع آپ کی طویل صحبت اٹھائی ہو اورآپ سے علم حاصل کیا ہو،جن لوگوں نے اس کے بغیر آپ کی طویل صحبت اٹھائے یا اس مقصد کو تو پیش نظر رکھا لیکن طویل صحبت نہیں اٹھائی مثلاً وفود میں آنے والے لوگ تو وہ صحابی نہیں۔ (۴)بعض لوگ ہر اس مسلمان کو صحابی کہتے ہیں جس نے حالتِ بلوغ اورحالت صحت عقل میں آپ کو دیکھا۔ (۵)بعض لوگوں کے نزدیک آپ کا دیکھنا بھی ضروری نہیں، بلکہ ہر اس مسلمان کو صحابی کہہ سکتے ہیں جو عہدِ رسالت میں موجود تھا، چنانچہ قاضی عبدالبر نے اپنی کتاب استیعاب میں اور ابن مندہ نے اپنی کتاب معرفۃ الصحابہ میں اسی شرط کی بنا پر صحابہ ؓ کے ساتھ بہت سے ان لوگوں کا تذکرہ بھی کیا ہے جو آپ کے عہد میں موجود تھے، مگر آپ کو دیکھا نہیں تھا، لیکن درحقیقت یہ لوگ صحابی نہ تھے ؛بلکہ اس سے مقصود یہ تھا کہ اس زمانہ کے تمام لوگوں کے حالات کا استقصاء کرلیا جائے۔ (۶)محدثین کی ایک جماعت جس میں امام احمد، علی بن مدینی اورامام بخاری بھی شامل ہیں،صحابی کا خطاب صرف ان لوگوں کو دیتی ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو حالت اسلام میں دیکھا ہے، بلکہ آنکھوں سے دیکھنا بھی ضروری نہیں صرف آپ کی ملاقات کافی ہے، مثلاحضرت عبداللہ بن اُم مکتومؓ اندھے تھے، اس لیے آپ کو آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے تھے، لیکن باایں ہمہ ان کا شمار صحابہؓ میں ہے، کیوں کہ ان کو آپ کا شرفِ ملاقات حاصل تھا۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ لغت کے روسے ہر اس شخص کو صحابی کہہ سکتے ہیں جس نے زمانہ کی کسی ساعت میں ایک شخص کی صحبت اٹھائی ہے،ا امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ ہر وہ شخص جس نے ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک منٹ تک رسول اللہ ﷺ کی صحبت اٹھائی یا آپ کو صرف دیکھا وہ صحابی ہے، امام بخاری فرماتے ہیں کہ جس مسلمان نے آُپﷺ کی صحبت اٹھائی یا آپ کو دیکھا وہ صحابی ہے۔ (اسد الغابہ جلد۱/ ۱۲) ان تمام اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ آپ کے عہد مبارک میں پیدا ہوکرسنِ بلوغ کو نہیں پہنچے وہ صحابی نہیں ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی اصابہ میں لکھتے ہیں۔ ذکراولئک فی الصحابۃ اانما ھوعلی سبیل الاطلاق لغلبۃ الظن علیٰ انہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (مقدمہ اصابہ :۵) صحابہ میں ان بچوں کا ذکر بالکل الحاقی ہے کیونکہ ظن غالب یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا ہوگا۔ لیکن بعض لوگوں کے نزدیک یہ لوگ بھی صحابہؓ کے گروہ میں داخل ہیں، چنانچہ مولانا عبدالحئی صاحب ظفر الامانی میں لکھتے ہیں۔ والمرھج ھودخولہ فیھم نعم حدیثھم مرسل لکنہ مرسل مقبول (کتاب مذکور:۳۰۷) مرحج یہ ہے کہ یہ لوگ بھی صحابہ میں داخل ہیں؛ البتہ ان کی حدیث مرسل ہے ؛لیکن وہ مرسل مقبول ہے۔ اسی طرح جن لوگوں نے آپ کو بعد وفات دیکھاتھا، وہ بھی صحابہ کی جماعت میں داخل نہیں ؛چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی مقدمہ اصابہ میں لکھتے ہیں۔ والراجح عدم الدخول (مقدمہ اصابہ:۸) قول راجح یہ ہے کہ یہ لوگ صحابی نہیں ہیں۔ جو مسلمان آپ کے زمانہ میں موجود تھے، لیکن ان کو آپ کا دیدار نصیب نہیں ہوا وہ بھی صحابی نہیں، چنانچہ حضرت اویسؓ قرنی اسی قسم کے بزرگ ہیں۔ جن لوگوں نے اسلام لانے سے پہلے آپ کو دیکھا تھا، لیکن اسلام لانے کے بعد ان کو آپ کی زیارت نصیب نہیں ہوئی وہ بھی صحابی نہیں ہیں بلکہ ان کا شمار کبار تابعین میں ہے(ظفرالامانی :۳۰۸) اب ان اقوال کے مطابق صرف ان لوگوں کو صحابی کہا جاسکتا ہے۔ (۱)جنہوں نے ایک مدت تک آپ کا شرف صحبت حاصل کیا ہے۔ (۲)یا کم از کم ایک غزوہ میں آپ کے ساتھ شرکت کی ہے۔ (۳)یا آپ سے احادیث کی روایت کی ہے۔ (۴)یا آپ کی صحبت حصولِ علم و عمل کے لیے اختیار کی ہے۔ (۵)یا مسلمان ہونے کے ساتھ آپ کو حالتِ بلوغ وحالتِ ثباتِ عقل میں دیکھا ہے یا آپ سے ملاقات کی ہے۔ (اور جس کا خاتمہ اسلام پر ہو،یعنی مرتے وقت وہ مسلمان تھے کیونکہ بعض ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے مسلمان ہونے کے ساتھ یا حالت اسلام میں آپ کو دیکھا یا ملاقات کی مگر بعد میں وہ دین سے پھر گئے اورا سی حالت میں مرگئے (خورشید) (۶)یاحالتِ اسلام میں محض آپ کو دیکھا ہے، یا ملاقات کی ہے۔ ان اقوال میں چھٹا یعنی آخری قول جمہور کے نزدیک سب سے زیادہ صحیح اورعام مسلمانوں میں مقبول ہے ؛کیونکہ یہ ان تمام صحابہ کو شامل ہے جن سے احادیث کی روایت کی جاسکتی ہے اوران کو اسوۂ حسنہ بنایا جاسکتا ہے، اس کے بعد پہلا یعنی اصولیین کا قول قابل اعتبار ہے؛ کیونکہ اس سے اگرچہ بہت سے وہ صحابہ جنہوں نے صرف رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا، لیکن آپ کی فیضِ صحبت سے کافی زمانہ تک متمتع نہیں ہوئے تھے، صحابہؓ کی جماعت سے نکل جاتے ہیں، تاہم اس کے ذریعہ سے صحابیت کا ایک بلند معیار قائم ہوتا ہے اورتمام اکابر صحابہؓ اس میں شامل ہوجاتے ہیں ان کے علاوہ اورتمام اقوال درجہ اعتبار سے گرے ہوئے ہیں؛ کیونکہ ان میں بعض اس قدر وسیع اور عام ہیں کہ عہد رسالت کا ہر مسلمان صحابہ کی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے اوربعض اس قدر محدود ہیں کہ بہت سے کبار صحابہؓ کے گروہ سے نکل جاتے ہیں، اس کے علاوہ فضیلت کا دار ومدار صرف علم و عمل پر ہے، اصولیین نے صحابہ ؓ کی جماعت پر اخذ مسائل اورروایت حدیث کے لحاظ سے نظر ڈالی، اس لیے انہوں نے صرف اس شخص کو صحابی قرار دیا جس نے مدت تک آنحضرت ﷺ کا شرفِ صحبت حاصل کیا، لیکن جمہور کے نزدیک صحابیت کا معیار صرف زہد و تقدس ہے، اس لیے وہ ہر اس شخص کو صحابی کہتے ہیں جس نے حالتِ اسلام میں آپ کو دیکھا ہے، یا آپ سے ملاقات کی ہے۔ صحابہ کی تعداد صحابہؓ کے حالات میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان سے صحابہؓ کی تعداد کا صحیح پتہ لگانا سخت مشکل ہے اوراس کو خود ان کتابوں کے مصنفین تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ علامہ ابن اثیر جزری اسد الغابہ میں لکھتے ہیں۔ ولوحفظواذلک الزمان لکانوااضعاف من ذکرہ العلماء۔ (اسدالغابہ،مقدمۃ المؤلف،۱/۱شاملہ،موقع الوراق) اگرخود صحابہ اپنے زمانہ میں صحابہ کے نام محفوظ رکھتے تو ان کی تعداد اس سے کئی گناہ زیادہ ہوتی جس کو علماء نےبیان کیا ہے۔ البتہ احادیث کی بعض تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد صحابہ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اورآپ کی وفات تک صحابہؓ کی ایک عظیم الشان جماعت تیار ہوگئی، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک بار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ اكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالْإِسْلَامِ مِنْ النَّاسِ ۔ جو لوگ اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں، مجھے ان کا نام لکھ کر دو۔ اورجب اس حکم کی تعمیل کی گئی تو پندرہ سومسلمانوں کی فہرست مرتب ہوئی۔ (بخاری ،کتاب الجہاد، باب کتابۃ الامام الناس،حدیث نمبر:۲۸۳۲،شاملہ) لیکن اس حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ حکم کس موقع پردیا گیا، اس لیے محدثین نے مختلف رائیں قائم کی ہیں، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ غالباً یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا، جب صحابہؓ جنگ اُحد کے لیے جارہے تھے ، ابن تین کے نزدیک یہ حکم غزوۂ خندق میں دیا گیا تھا،داودی کے نزدیک یہ حدیبیہ کے زمانہ کا واقعہ ہے اس کے بعد اس تعداد میں اوراضافہ ہوا،چنانچہ فتح مکہ میں دس ہزار صحابہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک جنگ ہوئے۔ (بخاری ،کتاب المغازی، باب غزوہ الفتح فی رمضان،حدیث نمبر:۳۹۴۱ ) اور فتح مکہ کے بعد جب تمام عرب مسلمان ہوگیا تو یہ تعداداضعافا ًمضاعفہ ہوگئی، غزوہ ٔحنین میں خادموں اورعورتوں کے علاوہ بارہ ہزار، اورغزوہ تبوک میں ۳۰ ہزار مجاہد آپ کے ساتھ تھے(طبقات ابن سعد ذکر غزوہ تبوک) حجۃ الوداع میں جس کے ایک سال بعد آپ کا وصال ہوا ۴۰ ہزار صحابہؓ شریک تھے، (مقدمہ ابن صلاح باب ۳۹ :۱۵۱) غرض ۱۰ھ تک مکہ اورطائف میں کوئی شخص ایسا نہیں رہ گیا تھا جو مسلمان ہوکر حجۃ الوداع میں شریک نہ ہوا ہو، (مقدمہ اصابہ :۹) شرکائے حجۃ الوداع میں چار ہزار صحابہؓ کی مزید تعداد بھی شامل ہے ، (ایضا :۱۲۷)امام شافعیؒ کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا، تو ساٹھ ہزار مسلمان موجود تھے جن میں تیس ہزار خاص مدینہ میں اور تیس ہزار مدینہ سے باہر اورمقامات میں تھے ابوزرعہ رازی کا قول ہے کہ آپ کی وفات کے وقت جن لوگوں نے آپ کو دیکھا اورآپ سے حدیث سنی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی(تجرید جلد۱ :۳) جن میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے اوران میں ہر ایک نے آپ سے روایت کی تھی، (مقدمہ اصابہ :۳) ابن فتحون نے ذیل استیعاب میں اس قول کو نقل کرکے لکھا ہے کہ ابوزرعہ نے یہ تعداد صرف ان لوگوں کی بتائی ہے جو رواۃ حدیث میں تھے، لیکن ان کے علاوہ صحابہؓ کی جو تعداد ہوگی وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگی ،(ایضاً) بہرحال اکابر صحابہؓ کے نام ان کی تعداد اوران کے حالات تو ہم کو صحیح طورپر معلوم ہیں، لیکن ان کے علاوہ ہم اورصحابہ کی صحیح تعداد نہیں بتاسکتے،اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ خود صحابہؓ کے زمانہ میں مشاغل دینیہ نے صحابہ کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ اپنی تعداد کو محفوظ رکھیں ،( مقدمہ اسد الغابہ :۳) اس کے علاوہ اکثر صحابہ ؓ صحرانشین بدوی تھے، اس لیے ایسی حالت میں ان کا گمنام رہنا ضروری تھا۔ (مقدمہ اصابہ :۴) صحابہ کی شناخت جن بزرگوں کی نسبت صحابی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس کی صحت کی دلیلیں اورعلامتیں یہ ہیں کہ۔ (۱)ان کا صحابی ہونا بطریق تو اترثابت ہو، مثلا حضرت ابوبکرصدیقؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، اورحضرت علی کرم اللہ وجہ اورتمام اکابر صحابہؓ کا صحابی ہونا اسی طریقہ سے ثابت ہے۔ (۲)ان کے صحابی ہونے کا ثبوت اگر تواتر کے درجہ تک نہ پہنچ سکے تو کم از کم بطریق روایت، مشہور ان کا صحابی ہونا ثابت ہو، حضرت عکاشہ بن حصنؓ، حضرت ضمام بن ثعلبہؓ وغیرہ کا صحابی ہونا اسی طریقہ سے ثابت ہے۔ (۳)جن صحابہ کا صحابی ہونا یقینی طورپر ثابت ہے، ان کی شہادت سے بھی اس کا ثبوت ہو سکتا ہے، مثلاً ایک صحابی کا یہ کہنا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں فلاں شخص کے ساتھ حاضر ہوا، یا آپ نے میرے سامنے فلاں شخص سے گفتگو کی اس شخص کے صحابی ہونے کی ولیل ہے، بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔ (۴)اسی طرح ثقاتِ تابعین کی شہادت سے بھی اس کا ثبوت ہوسکتا ہے۔ (۵)چونکہ روایات سے ثابت ہوچکا ہے کہ عہدِ خلافت میں صرف صحابہ ہی امیر العسکر بنائے جاتے تھے،اس لیے اگر غزوات وفتوحات میں کسی کی نسبت یہ ثابت ہوجائے کہ وہ امیر بنایا گیا،تواس سے بھی صحابیت ثابت ہوجائے گی۔ (۶)روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہؓ کے گھروں میں جب بچے پیدا ہوتے تھے تو وہ تبریک وتحنیک کی غرض سے ان کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کرتے تھے اس لیے جن بچوں کی نسبت روایات سے ثابت ہوجائے ،ان کا صحابی ہونا بھی ثابت ہوجائے گا۔ (۷)روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ فتح مکہ کے بعد مکہ اورطائف کے تمام لوگ مسلمان ہوکر حجۃ الوداع میں شریک ہوئے تھے، اس لیے جن لوگوں کی نسبت یہ ثابت ہوجائے کہ وہ اس وقت موجود تھے، ان کا صحابی ہونا بھی ثابت ہوجائے گا۔ (۸)لیکن اگر کوئی شخص بذات خود صحابی ہونے کا مدعی ہو اوراس کے دعویٰ کی صحت کے لیے متذکرہ بالادلیلوں میں سے کوئی دلیل موجود نہ ہو،تواس کی نسبت محدثین کی مختلف رائیں ہیں۔ (۱)بعض محدثین کا خیال ہے کہ چونکہ وہ خود اپنے لیے ایک شرف کو ثابت کرنا چاہتا ہے اس لیے اس کا دعوےٰ مقبول نہ ہوگا۔ (۲)بعضوں کے نزدیک اگر وہ نہایت مختصر اورمحدود صحبت کا مدعی ہو تو اس کا دعویٰ قبول کرلیا جائے گا، کیونکہ بہت سی گھڑیاں ایسی ہوتی تھیں جن میں رسول اللہ ﷺ تنہارہتے تھے، اس لیے اگر اس حالت میں کسی نے آپ سے ملاقات کی ہو، یا آپ کو دیکھا ہوتو اس کاثبوت کسی دوسرے صحابی کی شہادت سے بہ مشکل ہوسکتا ہے۔ (۳)لیکن اگر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے مدتوں آپ کی صحبت اٹھائی ہے اورمدتوں سفروحضر میں آپ کے ساتھ رہا ہے تو اس کا یہ دعویٰ مقبول نہ ہوگا،کیونکہ ایسے شخص کو عام طورپر لوگ آپ کے پاس دیکھتے رہے ہوں گے اس لیے جب تک اس کی صحابیت نقل صحیح اورروایت عامہ سے ثابت نہ ہوجائے اس کا دعویٰ مقبول نہیں ہوسکتا ۔ (۴)لیکن محدث ابن عبدالبر نے اس معاملہ میں بہت زیادہ فیاضی کی ہے اوردوشرطوں کے ساتھ اس قسم کے اشخاص کے دعوؤں کو مطلقا مقبول قراردیا ہے ایک یہ کہ اس دعویٰ سے پہلے اس شخص کا عادل، ثقہ اورمقبول الروایۃ ہونا ثابت ہو،دوسرے یہ کہ خارجی قرائن اس کے دعوی کی تکذیب نہ کرتے ہوں، مثلا ہجرت کی ایک صدی گذرنے کے بعد اگر کوئی شخص دوسری صدی کے دسویں سال صحابی ہونے کا مدعی ہو تو اس کا دعویٰ مردود قراردیا جائے گا، کیونکہ روایات سے ثابت ہوگیا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے ختم ہونے تک صحابہؓ کا دورگذرجائے گا اور اس کے بعد کوئی صحابی باقی نہ رہے گا، چھٹی صدی ہجری میں ایک شخص رتن ہندی گذرا ہے جس نے صحابی ہونے کا دعویٰ کیا تھا؛لیکن محدثین نے اس کو دجال اورکذاب قراردیا۔ صحابہؓ کی عدالت اگرچہ اصول کا یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ "الصحابۃ کلہم عدول" یعنی تمام صحابہ عادل ہیں؛ لیکن شافعیہ میں ابوالحسین بن القطان نے اس عموم سے اختلاف کیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک صحابہ میں چند بزرگ ایسے بھی گذرے ہیں جن سے کچھ لغزشیں سرزد ہوئیں ہیں، مثلا ولیدؓ صحابی تھے؛ لیکن انہوں نے شراب پی ہے، حاطب بن بلتعہؓ صحابی تھے ؛لیکن انہوں نے رسول اللہﷺ کے منشاء کے خلاف کفارمکہ کو خط لکھا ہے ،ایک خیال یہ ہے کہ خانہ جنگی کے زمانہ سے پہلے گو تمام صحابہ تھے، لیکن جب خود صحابہ میں خانہ جنگی پھیل گئی اورصفین و جمل کے معرکے گرم ہوئے، تو ان لوگوں کی عدالت قابلِ بحث و تحقیق ہوگئی،معتزلہ کے نزدیک جن لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جنگ کی وہ عادل نہیں رہے، لیکن جو لوگ حضرت معاویہؓ کے طرفدار ہیں وہ اس کے برعکس دعویٰ کرتے ہیں، (فتح المغیث :۲۷۷) محدث مارزی نے عدالت کو صرف ان صحابہ کے لیے مخصوص کیا ہے، جو شب وروز رسول اللہ ﷺ کی صحبت اورآپ کی اعانت میں مصروف رہتے تھے، اس لیے ان کے نزدیک ہر صحابی عادل نہیں ہے،چنانچہ ان کا قول ہے کہ: لسنا نعنی بقولنا"الصحابۃ عدول" کل من راصلی اللہ علیہ والہ وسلم یوماما اوزارہ لماما اواجتمع بہ لغرض وانصرف عن کثب وانما نعنی بہ الذین لازموہ وعزروہ ونصروہ وابتعواالنورالذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون (مقدمہ اصابہ :۱۱) ہم جو یہ کہتے ہیں کہ"صحابہ عدول ہیں" تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ شخص جس نے آپ کو کسی دن دیکھ لیا یا چلتے پھرتے آپ کی زیارت کرلی یا کسی غرض سے آپ کی ملاقات کرکے تھوڑی دیر کے بعد واپس گیا عادل ہے؛بلکہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے،آپ کی تائید و اعانت کی اوراس نور کا اتباع کیا جوآپ کے ساتھ اتاراگیا یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔ لیکن عام محدثین کے نزدیک ان آیات کی بناپر جو قرآن مجید میں عموماً تمام صحابہ کے فضائل میں نازل ہوئی ہیں، یہ خصوصیت تمام صحابہ میں پائی جاتی ہے اور ہرزمانہ میں پائی جاتی ہے، اس میں صحابہ کا ہر فردداخل ہے اورجولوگ اس اصول کی ہمہ گیری کے مخالف ہیں، انہوں نے عدالت کے مفہوم پر غور نہیں کیا ، عدالت ایک مشترک لفظ ہے، جس کے مختلف معنی ہیں مثلاً: (۱)کبھی عدالت کو جوروظلم کے مقابل میں بولاجاتا ہے، اوراس وقت یہ لفظ انصاف کامرادف ہوجاتا ہے۔ (۲)کبھی فسق وفجور کے مقابل میں استعمال کیا جاتا ہے اوراس وقت یہ لفظ تقویٰ کا ہم معنی ہوتا ہے۔ (۳)کبھی یہ لفظ صرف عصمت پر دلالت کرتا ہے،اوریہ وصف صرف انبیاء اورملائکہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ (۴)کبھی یہ لفظ گناہوں سے محفوظ رہنے پر دلالت کرتا ہے اورنتائج کے لحاظ سے اگرچہ اس میں عصمت میں کوئی فرق نہیں تاہم عصمت ایک ملکہ فطری ووہبی ہے اورگناہوں سے محفوظ رہنا ایک ملکہ کسبی ہے، اسی بناء پر انبیاء کو معصوم اوراولیاء کو محفوظ کہا جاتا ہے۔ (۵)کبھی عدالت کے معنی روایت حدیث میں جھوٹ سے بچنے کے ہوتے ہیں اوراس معنی میں عادل اس شخص کو کہتے ہیں جو روایت حدیث میں دروغ بیانی نہ کرتا ہو۔ لیکن یہ کسی محدث کا دعویٰ نہیں ہے کہ صحابہ کوئی کام انصاف کے خلاف نہیں کرسکتے، ان سے کوئی فعل تقویٰ وطہارت کے خلاف صادر نہیں ہوسکتا ،وہ انبیاء کی طرح معصوم ہیں، یا وہ تمام گناہوں سے محفوظ ہیں، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی صحابی روایت کرنے میں دروغ بیانی سے کام نہیں لیتا، چنانچہ ابن الانباری کا قول ہے کہ: لیس المراد بعد التھم ثبوت العصمۃ لھم واستحالۃ المعصیۃ من ھم وانما المراد قبول روایاتھم من غیر تکلف البحث عن اسباب العدالۃ وطلب التزکیۃ الاان یثبت ار تکاب قارح لم یثبت ذلک۔ ( سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالبؓ،۳/۱۰۳شاملہ) ابن انباری کا قول ہے کہ صحابہ کی عدالت سے یہ مراد نہیں کہ صحابہ بالکل معصوم ہیں اوران سے گناہوں کا سرزد ہونا محال ہے؛بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کی روایتوں کو اسباب عدالت وثقاہت کی چھان بین کے بغیر قبول کرلینا چاہئے ؛بجز اس صورت کے جب وہ ایسے امرکا ارتکاب کریں جو روایات میں قادح ہو اوریہ ثابت نہیں ہے۔ مولانا شاہ عبدالعزیزؒ صاحب دہلوی لکھتے ہیں: "اہل سنت کا یہ مقررہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کل کے کل عادل ہیں، یہ لفظ بار بار بولا گیا ہے اورمیرے والد مرحوم (شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ) نے اس لفظ کی حقیقت سے بحث کی تو یہ ثابت ہواکہ اس موقع پر عدالت کے متداول معنی مراد نہیں ہیں؛ بلکہ صرف عدالت فی روایۃ الحدیث مراد ہے، اس کے سوا اورکچھ مراد نہیں ہے اوراس عدالت کی حقیقت روایات میں جھوٹ سے بچنا ہے؛ کیونکہ ہم نے تمام صحابہ کی سیرت کو خوب ٹٹولا،یہاں تک کہ ان لوگوں کی سیرت کا بھی مطالعہ کیا جو خانہ جنگیوں ،فتنوں اورلڑائی جھگڑوں میں شریک ہوئے تو ہم کو معلوم ہوا کہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دروغ بیانی کو سخت ترین گناہ سمجھتے ہیں اور اس سے شدت کے ساتھ احتراز کرتے ہیں۔ (ظفر الامانی :۳۱۱،۳۱۲،۳۱۳) صحابہ کے طبقے مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے صحابہؓ کے مختلف طبقے ہیں،چنانچہ قلت وکثرت روایت کے لحاظ سے ان کے مختلف طبقات قائم کیے گئے ہیں؛لیکن فضائل ومناقب کے لحاظ سے اہل سنت والجماعت کے نزدیک بالاتفاق:خلفائے راشدینؓ تمام صحابہؓ سے افضل ہیں اورخلفاء میں بھی بترتیبِ خلافت مدارجِ فضیلت قائم ہوئے ہیں، خلفاء کے بعدازواج مطہراتؓ افضل ہیں اوران دونوں کے بعد فضیلت کی ترتیب یہ ہے:مہاجرین اولینؓ؛ لیکن ان میں باہم ایک کو دوسرے پر فضیلت نہیں دی جاسکتی ،مہاجرین اولین کے بعد اہل عقبہ تمام صحابہ سے افضل ہیں،اہلِ عقبہ کے بعد شرکائے بدر کا درجہ ہے،اس کے بعد درجہ بدرجہ اہل مشاہد کو فضیلت حاصل ہے،یعنی جو غزوہ پہلے ہوا ہے اس کے شرکاان صحابہ سے افضل ہیں جو اس کے بعد کی لڑائیوں میں شریک ہوئے خداوند تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى۔ (الحدید:۱۰) تم میں سے جن لوگوں نے( مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیااورلڑائی لڑی وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں،وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے( فتح مکہ)کے بعد خرچ کیا اور لڑائی لڑی،یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے۔ (توضیح القرآن) صحابہ کازمانہ صحابہ کرام کا مبارک زمانہ ابتدائے بعثت سے شروع ہوکر پہلی صدی کے آخر تک ختم ہوگیا اوراس طرح رسول اللہ ﷺ کی معجزانہ پیشین گوئی پوری ہوئی جو ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ- (بخاری، کتاب موقیت الصلوٰۃ،بَاب السَّمَرِ فِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ،حدیث نمبر:۵۶۶) جو لوگ آج روئے زمین پر موجود ہیں ان میں سے سو سال کے بعد کوئی باقی نہ رہے گا۔ لیکن ان مبہم الفاظ سے صحابہ کرام کومغالطہ ہوا اوروہ یہ سمجھے کہ سو سال کے بعد قیامت آکر تمام دنیا ہی کا خاتمہ کردے گی،حالانکہ آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس پیشین گوئی کے وقت جو لوگ موجود ہیں ان میں سے سب فنا ہوجائیں گے۔ اورنسل انسانی کا یہ مخصوص دورختم ہوجائے گا، اورجہاں تک عہد صحابہ ؓ کا تعلق ہے، واقعات بھی اس کی تائید کرتے ہیں، چنانچہ مدینہ کے صحابہ میں حضرت سہل بن سعدؓ آخری صحابی ہیں جنہوں نے باختلافِ روایت ۸۸ھ میں ۹۶ سال یا ۹۱ ھ میں سو سال کی عمر میں وفات پائی، وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں مرجاؤں تو رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے والا کرئی دوسرا نہ ملے گا۔ (استیعاب ،تذکرہ سہل بن سعد ؓ) بصرہ کے صحابہ میں حضرت انس بن مالکؓ آخری صحابی تھے جنہوں نے باختلافِ روایت ۹۰ھ یا ۹۱ھ یا ۹۲ھ یا ۹۳ھ میں زیادہ سے زیادہ ۱۰۳ سال کی عمر میں وفات پائی، (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت انس بن مالک ؓ) خود ان سے ایک شخص نے پوچھا کہ اب کوئی صحابی باقی ہے یا نہیں ؟ تو بولے کہ دیہات کے چند بدوالبتہ باقی رہ گئے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے؛لیکن اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے آپ کی صحبت اٹھائی ہو۔ (مقدمہ ابن صلاح، باب ۳۹، :۱۴۸) لیکن ان سب میں حضرت ابوالطفیلؓ عامربن واثلہ سب سے آخری صحابی تھے جنہوں نے ۱۰۰ھ میں مکہ میں وفات پائی وہ خود کہا کرتے تھے کہ آج میرے سوا روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہو۔ (استیعاب، تذکرہ حضرت ابو الطفیل ؓ) بہرحال حدیث صحیح اورعام روایات کی رو سے پہلی صدی کے ختم ہونے کے ساتھ صحابہ کرام کا دورِ مبارک ختم ہوگیا، اوراب صرف ان کے اعمال صالحہ باقی رہ گئے ہیں، اوراس کتاب میں ہم انہیں اعمال صالحہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔