انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صلاح الدین ایوبی بحیثیت وزیر اعظم مصر عاضد نے اس کے بھتیجے صلاح الدین کو عہدہ وزارت عطا کیا، صلاح الدین نے بھی اپنی وفاداری اور تعلقات کو سلطان نور الدین محمود سے برابر قائم رکھا،شیر کوہ کی وزارت سے عاضد بہت خوش تھا اور تمام سیاہ سفید کا اختیار اس کو دے دیا تھا، اسی طرح صلاح الدین کو بھی کلی طور پر اختیاراتِ حکمرانی حاصل تھے،شیر کوہ اورصلاح الدین دونوں امام شافعیؒ سے بڑی عقید ت رکھتے تھے،صلاح الدین ایوب نے شیعہ قاضیوں کو موقوف کرکے شافعی قضاۃ مامور کئے،مدرسہ شافعیہ اورمدرسہ مالکیہ کی بنیاد رکھی،۵۶۵ھ میں جب شیر کوہ نے عیسائی فوجوں کو مصر سے نکال کر خود بطور وزیر اعظم مصر کا انتظام شروع کیا تو عیسائیوں کو وہ خراج ملنا بھی بند ہوگیا، جو وہ مصر سے حاصل کرنے لگے تھے،نیز عیسائیوں کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ دمشق وقاہرہ کی اسلامی حکومتوں میں جب اتحاد قائم ہوگیا ہے تو اب بیت المقدس پر قبضہ قائم رکھنا دشوار ہے،لہذا انہوں نے صقلیہ اور اندلس کے پادریوں کو پیغام بھیجا کہ بیت المقدس کے بچانے اور عیسائی حکومت کے یہاں قائم رکھنے کے لئے امداد کی محنت ضرورت ہے؛چنانچہ ان ملکوں میں پادریوں نے جہاد کے وعظ کہنے شروع کئے اور اندلس وغیرہ سے عیسائی فوجیں فوانہ ہوکر ساحلِ شام پر آ آ کر اُترنا شروع ہوئیں،عیسائیوں نے یورپ سے ہر قسم کی امداد پاکر اورخوب طاقتور ہوکر ۵۶۵ ھ میں دمیاط کا محاصرہ کرلیا، دمیاط کے عامل شمس الخواص منکور نامی نے صلاح الدین ایوبی کو مطلع کیا، ادھر مصر میں شیعہ لوگ وزیر السلطنت صلاح الدین ایوبی سے ناراض تھے،صلاح الدین نے ایک افسر بہاء الدین قراقوش کو فوج دیکر دمیاط کی طرف بھیجا اور سلطان نورالدین محمود کو لکھا کہ میں شیعوں اورسوڈانیوں کی وجہ سے مصر کو نہیں چھوڑسکتا اس لئے خود دومیاط کی طرف نہیں جاسکا، آپ بھی دمیاط کی طرف التفات مبذول رکھیں؛چنانچہ سلطان نور الدین محمود نے فوراً دمیاط کی جانب تھوڑی سی فوج بھیجی اور عیسائیوں کی توجہ اور طاقت کے تقسیم کرنے کے لئے ساحلِ شام کے عیسائی علاقوں پر حملہ آوری شروع کردی،نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی یعنی صلیبی جنگ جو بچاس دن کے محاصرے کے بعد دمیاط کو چھوڑ کر اپنے شہروں کی طرف واپس آئے تو ان کو بھی سلطان نور الدین کے حملوں سےخراب وویران پایا، اس کے بعد سلطان صلاح الدین نے اپنے باپ نجم الدین ایوب کو ملک شام سے مصر میں بلوایا، بادشاہ عاضد خود نجم الدین ایوب سے ملنے آیا اور بہت کچھ تواضو مدارات کی بادشاہ عاضد ہمیشہ سلطان صلاح الدین ایوب کے کاموں کا مداح رہتا تھا اور خود اس نے امورِ سلطنت سے بے تعلقی اختیار کرلی تھی، مصر کے شیعوں کو صلاح الدین کا اقتدار واعزاز اور اختیار و طاقت بے حد گراں گذرتی تھی، صلاح الدین کی وجہ سے مصر میں دم بدم شیعیت کو تنزل اورسنی مذہب کو ترقی تھی، آخر عمارہ،یمنی ،زبیدی، عویرش،قاضی القضاۃ معزول، عبدالصمد ،کاتب ،موتمن الخلافۃ سردار خدامِ قصرِ سلطانی وغیرہ نے مل کر ایک سازش کی اوریہ رائے قرار پائی کہ مصر کے ملک کو عیسائیوں کے سپرد کردیا جائے اور عیسائی سفیر کو بلواکر بادشاہ عاضد سے اُس کی خفیہ ملاقات کرائی جائے؛چنانچہ ان لوگوں نے ایک طرف عاضد کو ہموار کرنے کی کوشش کی،دوسری طرف عیسائیوں سے خط و کتابت کرکے اُن کے سفیر کو پوشیدہ طور پر بلوایا، اتفاقاً ان لوگوں کا ایک خط جو انہوں نے عیسائی بادشاہ کے پاس روانہ کیا تھا، راستے میں پکڑا گیا اور صلاح الدین کی خدمت میں پیش ہوا، صلاح الدین نے مجرموں کا نہایت احتیاط کے ساتھ پتہ لگایا اور سب کو گرفتار کرکے دربارِ عام میں اُن کے اظہار قلم بند کئے،جب وہ سب مجرم ثابت ہوئے تو ان کو قتل کیا اوربہاء الدین قراش کو محل سرائے سلطانی کا داروغہ مقرر کیا۔ سلطان العادل یعنی سلطان نور الدین محمود پہلے سے صلاح الدین ایوب کو لکھتے رہتے تھے کہ تم مصر میں خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ پڑھواؤ، مگر صلاح الدین یہ معذرت کردیا کرتاتھا کہ اگر عاضد عبیدی کا نام خطبہ سے نکال دیا گیا، تو اندیشہ ہے کہ مصر میں سخت فساد اور فتنہ برپا ہوجائے صلاح الدین کا یہ اندیشہ غیر معقول نہ تھا؛کیونکہ سودانیوں کی ایک بڑی تعداد مصر میں میں موجود تھی جو ترکوں کی مخالفت اور شیعہ سازشی لوگوں کی حمایت پر مستعدی کا اظہار کیا کرتے تھے،مذکورہ سازش کے شرکاء کو جب صلاح الدین نے قتل کیا تو ان سودانیوں نے جو پچاس ہزار کی تعداد میں تھے صلاح الدین اور ترکوں کی فوج کے خلاف ہتھیار سنبھال لئے،قصرِ سلطنت اور قصرِ وزارت کے درمیان ترکوں اور سودانیوں میں جنگِ عظیم برپا ہوئی،ترک غالب ہوئے،سودانی بہت سے مقتول اور باقی مفرور ہوئے، ان کے گھروں کو ترکوں نے لوٹ لیا، صلاح الدین نے سودانیوں کو امن عطا کرکے اُن کے گھروں میں آباد کرادیا،اس طرح سودانیوں کا زور ٹوٹ گیا،اب سلطان العادل نے پھر صلاح الدین کو لکھا کہ عاضد کے نا م کا خطبہ موقوف کرکے خلیفہ مستضی عباسی کے نام کا خطبہ پڑھواؤ، یہ وہ زمانہ تھا کہ بادشاہ عاضد بیمار اور مرض الموت میں گرفتار تھا؛چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں محرم ۵۶۷ھ کے پہلے جمعہ کو جامع مسجد قاہرہ کے منبر پر بغداد کے عباسی خلیفہ کا خطبہ پڑھا گیا اور کسی شخص نے اس کو ناپسند نہ کیا، اگلے جمعہ کو صلاح الدین کے گفتنی فرمان کے موافق تمام ملکِ مصر کی مسجدوں میں خلیفہ بغداد کا خطبہ پڑھاگیا۔