انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولتِ خوارزم شاہیہ ملک شاہ سلجوقی کا ایک ترکی غلام جس کا نام نوشتگین تھا، اُس کا بیٹا قطب الدین بن نوشتگین اسی طرح سلطان سنجر کی خدمت میں رسوخ رکھتا تھا،سلطان سنجر سلجوقی نے اپنے نوکر قطب الدین مذکور کو خوارزم کا حاکم مقرر کیا،یہ قطب الدین جب کبھی سلطان سنجر کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اپنے اُسی شاہانہ لباس میں خدمت گاری کے تمام کام حسبِ دستور سابق انجام دیتا،یہ عرصہ دراز تک علاقہ خوارزم کا حاکم رہا اورخوارزم کی مناسبت سے خوارزم شاہ مشہور ہوا، اس کے بعد اس کی اولاد بھی اسی نام سے مشہور ہوئی اوراس خاندان کے تمام فرماں روا خوارزم شاہی فرماں روا کہلائے،ابتداءً یہ سلطان سنجر کا فرماں بردار رہا، لیکن جب سلطان سنجر کے اقبال کو زوال ہوا اور وہ ترکانِ غز کے ہاتھ میں گرفتار ہوگیا تو اُس نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اورماوراالنہر کے علاقے پر چڑھائی کی،رشید الدین وطواط مشہور شاعر اس کے دربار میں رہتا تھا،جس طرح کہ انوری سلطان سنجر سلجوقی کا درباری شاعر تھا۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا اتسز خوارزم شاہ تخت نشین ہوا، اُس نے رشید الدین وطواط کو اپنے دارالانشا کا حاکم اعلیٰ مقرر کیا تھا۔ ۵۴۰ھ کے قریب اتسز فوت ہوا تو اُس کی جگہ اُس کا بیٹا ارسلان شاہ ۵۵۷ھ میں تخت نشین ہوا، اس میں اور اس کے بھائی تکش خان میں عرصہ دراز تک لڑائیاں ہوتی رہیں،آخر تکش خان نے غالب ہوکر ۵۸۳ھ میں تاج شاہی اپنے سرپر رکھا،اسمعیل بن حسن مصنف ذخیرہ خوارزم شاہی اورخاقانی شاعر اسی کے عہد میں ہوئے،اسی نے طغرل ثالث سلجوقی کو قتل کیا اورخراسان و عراق پر قابض ہوکر اپنی سلطنت کو بڑھایا۔ اُس نے جب وفات پائی تو اُس کی جگہ اُس کا بیٹا سلطان محمد خوارزم شاہ ۵۹۰ھ میں تخت نشین ہوا،اپس نے قریباً اکیس سال حکومت کی اُس نے اپنی حدودِ حکومت کو بہت وسیع کیا،اس کے اور خلیفہ بغداد کے درمیان کچھ بے لفطی ہوگئی تھی،شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد غور وغزنی تک اس کی حکومت کا ڈنکا بجنے لگا تھا فارس کے بادشاہ اتابک سعد آذر بائیجان کے بادشاہ اتابک ازبک کو بھی اُس نے شکست دی،اورخلیفہ بغداد سے سرتابی کرکے بغداد کی طرف ایک جرار فوج لے کر چلا،تاکہ خلیفہ کو معزول کرکے اُس کی جگہ سید علماء الملک ترمذی اپنے پیر کو تختِ خلافت پر بٹھائے خلیفہ نے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کو اُس کے پاس بھیجا کہ وہ نصیھت کرکے خوارزم شاہ کو اس ارادے سے باز رکھیں اورآپس میں صلح وآشتی پیدا ہوجائے،مگر اس سفارت کا کوئی اثر نہ ہوا اورسلطان محمد خوارزم شاہ اپنے ارادے سے باز نہ آیا،آخر قدرتی رکاوٹ پیدا ہوئی اور برف باری سے سخت نقصان اُٹھا کر خوارزم شاہ کو عراق سے واپس ہونا پڑا، ابھی یہ عراق ہی میں تھا کہ چنگیز خان نے اُس کے ملک پر حملہ کیا،چنگیز خان کے حالات میں اوپر مفصل کیفیت اس حملہ کی گذر چکی ہے۔ سلطان محمد خوارزم شاہ اپنے زمانے میں بہت زبردست بادشاہ تھا،اُس سے دور دور تک سلاطین ڈرتے تھے، اورتمام دُنیا میں اُس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی مگر اس برف باری کے واقعہ سے اُس کے اقبال ودولت میں مسلسل سرد بازاری نے ایسا دخل پایا کہ وہ دم بدم بربادی کی طرف ترقی کرتا رہا،آخر اس حالت میں فوت ہوا کہ اُس کو کفن بھی میسر نہ ہوسکا۔ سلطان محمد خوارزم شاہ کے ساتھ بیٹے تھے،جن میں رکن الدین غیاث الدین جلال الدین الگ الگ صوبوں کے حاکم مقرر تھے باپ کی وفات اور تباہی کے بعد یہ تینوں آپس میں متفق ہوکر چنگیز خاں کا مقابلہ نہ کرسکے؛بلکہ ان میں آپس میں بھی ناچاقی رہی اورالگ الگ مقابلوں میں انہوں نے ناکامی کا منہ دیکھا۔ ان میں جلال الدین خوارزم شاہ سب سے زیادہ مشہور ہے،اُس نے سندھ کے کنارے چنگیز خاں کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا مگر کوئی مفید نتیجہ نہ نکلاہندوستان کی حدود میں داخل ہوکر اورچند روز سندھ میں رہ کر پھر واپس چلا گیا اور واپسی میں الموت کے ملاحدہ یعنی فدائیوں کا بہت کچھ زور توڑتا گیا،ایک طرف مغلوں سے لڑا دوسری طرف فرنگیوں یعنی رومیوں سے بھی خوب لڑا،عراق میں اُس نے فتوحات حاصل کیں، مگر حالات کچھ ایسے ناموافق تھے کہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت کو دوبارہ قائم نہ کرسکا، اورگم نامی کے عالم میں مارا گیا،یا فقیری لباس میں روپوش ہوگیا، مؤرخین نے جلال الدین خوارزم شاہ کا ذکر اس لئے محبت وعزت کے ساتھ کیا ہے کہ وہ ایک بہادر شخص تھا اور متعدد مقامات پر اُس نے اپنی بہادری کا ثبوت پیش کرکے اپنے آپ کو مستحق ستائش بنالیا تھا،اسی پر خاندان خوارزم شاہیہ کا خاتمہ ہوگیا۔