انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بنواُمیہ کی ناراضی کا سبب بنوامیہ نے اپنی خلافت وحکومت کے زمانے میں اچھی جاگیروں پراپنے استحقاق سے زیادہ قبضہ کرلیا تھا، جس میں دوسرے مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی تھی؛ مگرچونکہ بنوامیہ حکمراں تھے اس لیے کوئی چون وچرا نہیں کرسکتا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے توانھوں نے سب سے پہلے اپنی بیوی کے زیورات جن میں وہ بلااستحقاق مال کی آمیزش سمجھتے تھے، اپنے گھر سے نکلواکر بیت المال میں بھجوائے؛ پھرآپ نے بنواُمیہ کوجمع کرکے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس باغِ فدک تھا جس کی آمدنی سے آپ بنوہاشم کے بچوں کی خبرگیری کرتے اور ان کی بیواؤں کے نکاح کردیا کرتے تھے، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اس باغ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا؛ مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دینے سے انکار کردیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہ باغ اسی حالت میں رہا، آخرمروان نے اس پرقبضہ کرلیا، مروان سے منتقل ہوتے ہوئے وہ مجھے ورثہ میں پہنچا ہے؛ مگرمیری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جس چیز کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے دینے سے انکار کردیا تھا وہ مجھ پرکس طرح حلال ہوگئی؛ لہوذا میں تم سب کوگواہ کرتا ہوں کہ میں باغ فدک اسی حالت میں چھوڑے دیتا ہوں جیسا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، اس کے بعد آپ نے اپنے تمام رشتے داروں پھرتمام بنواُمیہ سے وہ تمام جائدادیں اور اموال اور سامان واپس کرائے جوناجائز طور پران کے قبضہ وتصرف میں تھے۔ اوزاعی کہتے ہیں کہ ایک روز آپ کے مکان میں بنواُمیہ کے اکثر اشراف وسردار بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تمھیں کسی لشکر کا سردار اور کسی علاقہ کا مالک وحاکم بنادوں؟ یاد رکھو! میں اس بات کا بھی روادار نہیں ہوں کہ میرے مکان کا فرش تمہارے پیروں سے ناپاک ہو، تمہاری حالت بہت ہی افسوسناک ہے، میں تم کواپنے دین اور مسلمانوں کے اغراض کا مالک کسی طرح نہیں بناسکتا؛ انھوں نے عرض کیا کہ ہم کوبوجہ قرابت کوئی حق اور کوئی فضیلت حاصل نہیں؟ آپ نے فرمایا: کہ اس معاملے میں تمہارے اور ایک ادنی مسلمان کے درمیان میرے نزدیک رتی برابر فرق نہیں ہے، خلافتِ راشدہ کے بعد خلافتِ بنواُمیہ میں شان جمہوریت باکل جاتی رہی تھی اور حکومت میں وہی شخص مطلق العنان حکومت کارنگ پیدا ہوگیا تھا، جوقیصروکسریٰ کی حکومتوں میں پایا جاتا تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی جمہوری شان کوپھرواپس لانے کی کوشش فرمائی اور صدیق اکبر وفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہم اجمعین کا زمانہ پھرلوگوں کی نگاہوں میں گھومنے لگا؛ چونکہ بنواُمیہ کوآپ کی خلافت میں بہت نقصان پہنچا، وہ جائدادیں جوغاصبانہ طور پران کے قبضے میں تھیں ان سے چھن گئیں اور عزت وعظمت کا بلند مقام جوان کودوسرے قبائل کے مقابلے میں اپنی قومی حکومت کے سبب حاصل تھا، مساوات سے تبدیل ہونے لگا؛ لہٰذا تمام بنواُمیہ ان کی خلافت کواپنے لیے بے حد مضر اور باعث نقصان سمجھنے لگے، ان کی نیکی وپاک باطنی کے بنواُمیہ بھی اسی طرح قائل تھے جیسے اور لوگ؛ مگربنواُمیہ ان کے وجود کواپنی قوم اور قبیلے کے لیے سمّ قاتل سمجھنے لگے۔ ایک مرتبہ بنواُمیہ نے اپنی جائدادوں کوبچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ عمر بن عبدالعز کی پھوپھی فاطمہ بنت مروان کے پاس ئگے اور سفارش کی درخواست کی عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی کا بہت ادب ولحاظ کرتے تھے؛ چنانچہ فاطمہ بنتِ مروان نے آکر بنواُمیہ کی سفارش کی؛ انھوں نے پھوپھی کواس طرح سمجھایا کہ وہ یہ کہنے پرمجبور ہوئیں کہ میں توتمہارے بھائیوں کے اصرار سے تمھیں سمجھانے آئی تھی؛ مگرجب تمہارے ایسے پاک اور نیک خیالات ہیں تومیں کچھ نہیں کہتی، یہ کہہ کرواپس آئیں اور بنواُمیہ سے کہا کہ تم نے فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی سے رشتہ کیا تھا؛ لہٰذا وہی فاروقی رنگ اولاد میں موجود ہے۔