انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ہلاکوخان کی موت اب برکہ خان سے شکست کھانے کے بعد ہلاکوخان نے ایک سردار کو شام کی طرف روانہ کیا کہ وہ قراتا تار کے قبائل کو ہمراہ لے کر آئے تاکہ ان لوگوں کی فوج برکہ خان کے مقابلہ پر روانہ کی جائے وہ سردار ملکِ شام میں جاکر اورقراتا تار کے لوگوں کو اپنے ہمراہ لے کر ہلاکوخان سے باغی ہوگیا،یہ خبر مراغہ میں ہلاکو خان کو پہنچی تو وہ اس قدر غمگین وافسردہ ہوا کہ مرض سکتہ میں مبتلا ہوکر ۶۶۳ھ آخر ماہ ربیع الاول کو فوت ہوا،آٹھ سال حکومت کرکے ۴۸ سال کی عمر میں فوت ہوا، اُس کا دارالحکومت شہر مراغہ تھا، اس نے مراغہ میں نصیر الدین طوسی اوردوسرے حکما کی مدد سے ایک رصدگاہ بنوائی تھی،ہلاکوخاں نے اپنے بیٹے اباقاخان کو عراق وخراسان وغیرہ کی حکومت دی تھی،آذربائیجان کی حکومت دوسرے بیٹے کو اوردیار بکر ودیار ربیعہ کا حاکم توران سلدوز کو بنایا اورخواجہ شمس الدین محمد جو ینی کو وزارت کے عہدے پر مامور کیا تھا،شمس الدین جوینی کے بھائی عطاء الملک علاء الدین کو حاکمِ بغداد بنایا تھا،ہلاکوخان کے فوت ہونے پر اُس کی تجہیز وتکفین مغلوں کی رسم کے موافق عجیب طرح سے عمل میں آئی یعنی بجائے قبر کے ایک تہ خانہ تیار کیا گیا اس میں ہلاکو خاں کی لاش کو رکھ کر چند نوجوان لڑکیوں کو خوب زیور ولباس سے آراستہ وپیراستہ کرکے خدمت گاری کے لئے اُس تہ خانہ میں داخل کیا گیا تاکہ وہ ہلاکو خاں کی مونس تنہائی بنیں،اس کے بعد تہ خانہ کا منہ نہایت مضبوطی کے ساتھ بند کردیا گیا،ایک لاش کے ساتھ اس طرح چند بے گناہ زندہ لڑکیوں کا بند کرنا ایک ایسی وحشیانہ رسم ہے جس کے تصوّر سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،ہلاکوخاں کے زمانے میں ہندوستان کے اندر سلطان غیاث الدین بلبن کی حکومت تھی، ہلاکو خاں ہمیشہ سلطان بلبن کے حالات معلوم کرتا رہتا تھا مگر اُس کو کبھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ ہندوستان پر حملہ کرے،بعض مغل سردار ہندوستان پر حملہ آور ہوئے،مگر ہندوستان کے غلام بادشاہوں کا یہ کارنامہ بہت عظیم الشان ہے کہ انہوں نے ہر مرتبہ مغلوں کو شکست دے کر بھگادیا اوربعد میں یہاں تک بھی نوبت پہنچی کہ مغل دارالسلطنت تک پہنچ گئے مگر ہندوستان میں اُن کے قدم ہرگز نہ جم سکے، یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام عالمِ اسلام میں بدامنی اورپریشانی پھیلی ہوئی تھی،مغلوں کے خروج اورتاخت وتاراج کے زمانے میں صرف ہندوستان ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں ایک زبردست اسلامی سلطنت قائم تھی اورجو مغلوں کی دست بُرد سے قریباً محفوظ و مامون رہا۔ ہلاکوخاں کے وزیر اور مصاحبوں میں خواجہ نصیر الدین طوسی بہت مشہور شخص ہے نصیر الدین طوسی علم ہیت کا زبردست عالم تھا،اسمعیلیوں ،باطنیوں کا تربیت کردہ تھا، اس کی ایک مشہور کتاب اخلاق ناصری ہے جو اُس نے ناصرالدین بادشاہ الموت کے نام پر معنون کی تھی محبطی بھی اُسی کی تضیف ہے جو علم ہیئت کی مشہور کتاب ہے۔