انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محمدمہدی نفسِ زکیہ کا خروج جب منصور نے عبداللہ بن حسن اور دوسرے افراد آلِ حسن کوقتل کرادیا تومحمد مہدی نے اس خبرکوسن کرزیادہ انتظار مناسب نہ سمجھا، ان کویہ بھی یقین تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دینے اور منصور کی خلع خلافت کرنے کے لیے ہرجگہ تیار ہیں؛ چنانچہ انہوں نے اپنے مدینہ کے دوستوں سے خروج کا مشورہ کیا، اتفاقاً عاملِ مدینہ رباح کوجاسوسوں کے ذریعہ اس کی اطلاع ہوگئی کہ آج محمدمہدی خروج کرنے والے ہیں اُس نے عفر بن محمد بن حسین اور حسین بن علی بن حسین اور چند قریشیوں کوبلاکرکہا کہ اگرمحمدمہدی نے خروج کیا تومیں تم کوقتل کردوں گا، ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ تکبیر کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ محمدمہدی نے خروج کیا ہے، ابتدا اُن کے ساتھ صرف ڈیڑھ سوآدمی تھے؛ انھوں نے سب سے پہلے قید خانہ کی طرف جاکر محمدبن خالد بن عبداللہ قسری اور اُس کے بھتیجے تدیربن یزید بن خالد اور اُن لوگوں کوجواُن کے ساتھ قید تھے آزاد کیا؛ پھردارالامارۃ کی طرف آکر رباح اور اس کے بھائی عباس اور ابن مسلم بن عقبہ کوگرفتار کرکے قید کردیا، اس کے بعد مسجد کی طرف آئے اور خطبہ دیا، جس میں منصور کی بری عادات اور افعالِ مجرمانہ کا ذکر کرکے لوگوں کے ساتھ عدل وانصاف کے برتاؤ کا وعدہ کیا اور اُن سے امداد کے خواہاں ہوئے، اس کے بعد مدینہ منورہ کے عہدۂ قضا پرعثمان بن محمد بن خالد بن زہیر کواسلحہ خانہ پرعبدالعزیز بن مطلب بن عبداللہ مخزومی کومحکمہ پولیس پرعثمان بن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب کومقرر کیا اور محمد بن عبدالعزیز کے پاس ملامتانہ پیام بھیجا کہ تم کیوں گھر میں چھپ کربیٹھ رہے، محمد بن عبدالعزیز نے امداد کا وعدہ کیا، اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر نے محمد مہدی کی بیعت نہیں کی؛ اسی طرح اور بھی چند شخصوں نے بیعت سے اعراض کیا، محمدمہدی کے خروج اور رباح کے مقید ہونے کے نودن بعد منصور کے پاس خبر پہنچی، وہ یہ سُن کرسحت پریشان ہوا، فوراً کوفہ میں آیا اور کوفہ سے ایک خط بطورِ امان نامہ محمدمہدی کے نام لکھ کرروانہ کیا، اس خط میں منصور نے لکھا تھا کہ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْيُصَلَّبُواْ أَوْتُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْيُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌo إِلاَّالَّذِينَ تَابُواْ مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُواْ عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (المائدۃ:۳۳،۳۴) میرے اور تمہارے درمیان اللہ اور اُس کے رسول کا عہد ومیثاق اور ذمہ ہے کہ میں تم کوتمہارے اہلِ خاندان کواور تمہارے متبعین کوجان اور مال واسباب کی امان دیتا ہوں؛ نیز اب تک تم نے جوخوں ریزی کی ہو یاکسی کا مال لے لیا ہو اس سے بھی درگذر کرتا ہوں اور تم کوایک لاکھ درم اور دیتا ہوں، اس کے علاوہ جوتمہاری اور کوئی حاجت ہوگی وہ بھی پوری کردی جائے گی، جس شہر کوتم پسند کروگے اسی میں مقیم کیے جاؤ گے، جولوگ تمہارے شریک ہیں ان کوامن دینے کے بعد ان سے کبھی مواخذہ نہ کروں گا اگرتم ان باتوں کے متعلق اپنا اطمینان کرنا چاہو تواپنے معتمد کومیرے پاس پھیج کرمجھ سے عہد نامہ لکھوالو اور ہرطرح مطمئن ہوجاؤ یہ خط جب محمد مہدی کے پاس پہنچا تو اُنھوں نے جواب میں لکھا کہ: طسمo تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِo نَتْلُوا عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَo إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَo وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَo وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَنُرِي فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ۔ (الشعراء:۱۔۶) ہم تمہارے لیے ویسا ہی امان پیش کرتے ہیں جیسا کہ تم نے ہمارے لیے پیش کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ حکومت ہمارا حق ہے تم ہمارے ہی سبب سے اس کے مدعی ہوئے اور ہمارے ہی گروہ والے بن کرحکومت حاصل کرنے کونکلے اور اسی لیے کامیاب ہوئے، ہمارا باپ علی وصی اور امام تھا تم اس کی ولایت کے وارث کس طرح ہوگئے؟ حالانکہ ان کی اولاد موجود ہے تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم جیسے شریف وصحیح النسب لوگوں نے حکومت کی خواہش نہیں کی، ہم ملعونوں اور مردودوں کے بیٹے نہیں ہیں، بنوہاشم میں کوئی شخص بھی قرابت وسابقیت وفضیلت میں ہمارا ہمسر نہیں ہے، زمانۂ جاہلیت میں ہم فاطمہ بنتِ عمرو کی اولاد سے ہیں اور اسلام میں فاطمہ بنتِ رسول اللہ کی اولاد ہیں، خدائے تعالیٰ نے ہم کوتم سے برتروبہتر بنایا ہے، نبیوں میں ہمارے باپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جوسب سے افضل ہیں اور سلف میں علی رضی اللہ عنہ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ازواجِ مطہرات میں سب سے پہلے خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے قبلہ کی طرف نماز پڑھی لڑکیوں میں فاطمہ سیدۃ النساء دختررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کوتمام جہان کی عورتوں پرفضیلت ہے، مولودینِ اسلام میں حسن وحسین ہیں جواہلِ جنت کے سردار ہیں، ہاشم سے علی کا دوسرا سلسلۂ قرابت ہے اور حسن کا عبدالمطلب سے دوہرا سلسلۂ قرابت ہے، میں باعتبارِ نسب کے بہترین بنی ہاشم ہوں، میرا باپ بنی ہاشم کے مشاہیر میں سے ہے مجھ میں کسی عجمی کی آمیزش نہیں اور نہ مجھ میں کسی لونڈی باندی کا اثر ہے، میں اپنے اور تمہارے درمیان خدا کوگواہ کرکے کہتا ہوں کہ اگرتم میری اطاعت اختیار کرلوگے تومیں تم کوتمہاری جان ومال کی امان دیتا ہوں اور ہرایک بات سے جس کے تم مرتکب ہوچکے ہودرگذر کرتا ہوں؛ مگرکسی حد کا حدود اللہ سے یاکسی مسلمان کا حق یامعاہدہ کا میں ذمہ دار نہ ہوں گ؛ کیونکہ اس معاملہ میں جیسا کہ تم جانتے ہو میں مجبور ہوں؛ یقیناً میں تم سے زیادہ مستحقِ خلافت اور عہد کا پورا کرنے والا ہوں، تم نے مجھ سے پہلے بھی چند لوگوں کوامان اور قول دیا تھا؛ پس تم مجھے کون سی امان دیتے ہو، آیا امان ابن ہبیرہ کی، یاامان اپنے چچا عبداللہ بن علی کی، یاامان ابومسلم کی؟۔ منصور کے پاس جب یہ خط پہنچا تواس نے بہت پیچ وتاب کھایا اور ذیل کا خط لکھ کرمحمد مہدی کے پاس روانہ کیا: میں نے تمہارا خط پڑھا، تمہارے فحر کا دارومدار عورتوں کی قرابت پرہے جس سے جاہل بازاری لوگ دھوکا کھاسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کوچچاؤں، باپوں اور ولیوں کی طرح نہیں بنایا، اللہ تعالیٰ نے چچا کوباپ کا قائم مقام بنایا ہے اور اپنی کتاب میں اس کوقریب ترین ماں پرمقدم کیا ہے؛ اگراللہ تعالیٰ عورتوں کی قرابت کا پاس ولحاظ کرتا توآمنہ (مادرِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) جنت میں داخل ہونے والوں کی سردار ہوتیں، خدا تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق جس کوچاہا برگزیدہ کیا اور تم نے جوفاطمہ اُم ابی طالب کا ذکر کیا ہے تواُس کی حالت یہ ہے کہ خدانے اس کے کسی لڑکے اور کسی لڑکی کواسلام نصیب نہیں کیا؛ اگراللہ تعالیٰ مردوں میں سے کسی کوبوجہ قرابت برگزیدہ کرتا توعبداللہ بن عبدالمطلب کواور بے شک وہ ہرطرح بہتر تھے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لی جس کوچاہا اختیار کیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّكَ لاتَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَأَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ۔ (القصص:۵۶) اور جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کیا تواُس وقت آپ کے چار چچا موجود تھے؛ پس اللہ تعالیٰ نے آیتِ کریمہ: وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ۔ (الشعراء:۲۱۴) نازل فرمائی؛ چنانچہ آپ نے لوگوں کو عذاب الہٰی سے ڈرایا اور دینِ حق کی طرف بلایا ان چاروں میں سے دونے اس دینِ حق کوقبول کرلیا، جن میں سے ایک میرا باپ تھا اور دونے دینِ حق کے قبول کرنے سے انکار کیا اُن میں سے ایک تمہارا باپ (ابوطالب) تھا؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُن دونوں کا سلسلۂ ولایت آپ سے منقطع کردیا اور آپ میں اور اُن دونوں میں کوئی عزیزداری اور میراث قائم نہ کی، حسن کی بابت جوتم نے یہ لکھا ہے کہ عبدالمطلب سے اُن کا دوسرا سلسلۂ قرابت ہے اور پھر تم کورسول اللہ سے دوہرا رشتہ قرابت ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیرالاوّلین والآخرین ہیں، اُن کوہاشم وعبدالمطلب سے ایک پدری تعلق تھا، تمہارا یہ خیال ہ کہ تم بہترین بنوہاشم ہواور تمہارے ماں باپ ان میں زیادہ مشہور تھے اور تم میں عجمیوں کا میل اور کسی لونڈی کا لگاؤ نہیں ہے، میں دیکھتا ہوں کہ تم نے کل بنوہاشم سے اپنے آپ کوزیادہ مفتخر بنایا ہے، ذرا غور توکرو! تم پرتُف ہے، کل خدائے تعالیٰ کوکیا جواب دوگے تم نے حد سے زیادہ تجاوز کیا اور اپنے آپ کواُس سے بہتر بتایا جوتم سے ذات وصفات میں بہتر ہے، یعنی ابراہیم بن رسول اللہ بالخصوص تمہارے باپ کی اولاد میں کوئی بہتر وافضل واہلِ فضل سوائے کنیزک زادوں کے نہیں ہے، بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تم میں علی بن حسین یعنی امام زین العابدین سے افضل کوئی شخص پیدا نہیں ہوااور وہ کنیزک کے لڑکے اور بلاشبہ تمہارے دادا حسن بن حسن سے بہتر ہیں، ان کے بعد تم میں کوئی شخص پیدا محمد بن علی کی مانند نہیں ہوا اُن کی دادی کنیزک تھیں اور وہ تمہارے باپ سے بہتر ہیں، ان کے لڑکے جعفر تم سے بہتر ہیں اور اُن کی دادی کنیزک تھیں، تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں؛ کیونکہ خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: مَّاكَانَ مُحَمَّدٌ أَبَاأَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا۔ (الأحزاب:۴۰) ہاں تم ان کی لڑکی کے لڑکے ہو اور بے شک یہ قرابت قریبہ ہے؛ مگراس کومیراث نہیں پہنچ سکتی اور نہ یہ ولایت کی وارث ہوسکتی ہے اور نہ اس کوامامت جائز ہے؛ پس اس قرابت کے ذریعہ تم کس طرح وارث ہوسکتے ہو، ہمارے باپ نے ہرطرح اس کی خواہش کی تھی، فاطمہ کودن میں نکالا، ان کی بیماری کوچھپایا اور رات کے وقت ان کودفن کیا؛ مگرلوگوں نے سوائے شیخین کے کسی کومنظور نہیں کیا، تمام مسلمان اس پرمتفق ہیں کہ نانا، ماموں اور خالہ مورث نہیں ہوتے؛ پھرتم نے علی اور اُن کے سابق بالاسلام ہونے کی وجہ سے فخر کیا ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت دوسرے کونماز پڑھانے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں لوگ ایک کے بعد دوسرے کوامام بناتے گئے اور اُن کومنتخب نہ کیا؛ حالانکہ یہ بھی اُن چھ شخصوں میں سے تھے؛ لیکن سبھوں نے اُن کواِس امر کے قابل نہ سمجھ کرچھوڑ دیا اور اس معاملہ میں اُن کوحق دار نہ سمجھا، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے تواُن پرعثمان رضی اللہ عنہ کومقدم کردیا اور وہ اس معاملہ میں متہم بھی ہیں، طلحہ رضی اللہ عنہ وزبیر رضی اللہ عنہ اُن سے لڑے، سعد رضی اللہ عنہ نے ان کی بیعت سے انکار کیا، بعد ازاں معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی، بعد اس کے تمہارے باپ نے پھرخلافت کی تمنا کی اور لڑے، ان سے ان کے ساتھی جدا ہوگئے اور حکم مقرر کرنے سے پہے اُن کے ہواخواہ اُن کے مستحق ہونے کی بابت مشکوک ہوگئے؛ پھرانھوں نے رضامندی سے دوشخصوں کوحاکم مقرر کیا، اُن دونوں نے اُن کی معزولی پراتفاق کرلیا؛ پھرحسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، انھوں نے خلافت کومعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کپروں اور درہموں کے عوض فروخت کرڈالا اور اپنے ہواخواہوں کومعاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا اور حکومت نااہل کوسونپ دی؛ پس اگر اس میں تمہارا کوئی حق بھی تھا توتم اس کوفروخت کرچکے اور قیمت وصول کرلی؛ پھرتمہارے چچاحسین رضی اللہ عنہ نے ابنِ مرجانہ (ابنِ زیادہ) پرخروج کیا لوگوں نے تمہارے چچا کے خلاف اُس کا ساتھ دیا؛ یہاں تک کہ لوگوں نے تمہارے چچا کوقتل کیا اور اُن کا سرکاٹ کراس کے پاس لے آئے؛ پھرتم لوگوں نے بنواُمیہ پرخروج کیا؛ انھوں نے تم کوقتل کیا، خرما کی ڈالیوں پرسولی دی؛ آگ میں جلایا، شہربدر کردیا، یحییٰ بن زید کوخراسان میں قتل کیا، تمہارے ذکور کوقتل کیا، لڑکوں اور عورتوں کوقید کرلیا اور بغیر پردہ کے اونٹوں پرسوار کراکے تجارتی لونڈیوں کی طرح شام بھیج دیا؛ یہاں تک کہ ہم نے اُن پرخروج کیا اور ہم نے تمہارا معاوضہ طلب کیا؛ چنانچہ تمہارے خونوں کا بدلہ ہم نے لے لیااور ہم نے تم کواُن کی زمین وجائداد کا مالک بنایا، ہم نے تمہارے بزرگوں کوفضیلت دی اور معزز بنایا، کیا تم اس کے ذریعہ ہم کوملزم بنانا چاہتے ہو، شاید تم کویہ دھوکا لگا ہے کہ تمہارے باپ کا حمزہ رضی اللہ عنہ وعباس رضی اللہ عنہ اور جعفر رضی اللہ عنہ پرمقدم ہون کی وجہ سے ہم ذکر کیا کرتے تھے؛ حالانکہ جوکچھ تم نے سمجھا ہے وہ بات نہیں ہے، یہ لوگ تودنیا سے ایسے صاف گئے کہ سب لوگ اُن کے مطیع تھے اور اُن کے افضل ہونے کے قائل تھے؛ مگرتمہارا باپ جدال وقتال میں مبتلا کیا گیا، بنواُمیہ اُن پراسی طرح لعنت کرتے تھے، جیسے کفار پرنمازِ فرائض میں کی جاتی ہے، پس ہم نے جھگڑا کیا اُن کے فضائل بیان کیے، بنواُمیہ پرسختی کی اور اُن کوسزادی تم کومعلوم ہے کہ ہم لوگوں کی بزرگی جاہلیت میں حجاج کے پانی پلانے کی وجہ سے تھی اور یہ بات تمام بھائیوں میں صرف عباس ہی کوحاصل تھی، تمہارے باپ نے اس کے متعلق ہم سے جھگڑا کیا، عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا؛ پس اس کے مالک جاہلیت اور اسلام میں ہم ہی رہے، جن دنوں میں مدینہ میں قحط پڑا تھا توعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے پانی مانگنے میں ہمارے ہی باپ کے ذریعہ توسل کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے پانی برسایا تھا؛ حالانکہ تمہارے باپ اُس وقت موجود تھے ان کا توسل نہیں کیا تم جانتے ہوکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی ہے توبنی عبدالمطلب میں سے کوئی شخص سوائے عباس رضی اللہ عنہ کے باقی نہ تھا؛ پس وراثت چچا کی طرف منتقل ہوگئی؛ پھربنی ہاشم میں سے کئی شخصوں نے خلافت کی خواہش کی؛ مگرسوائے عباس کی اولاد کے کوئی کامیاب ن ہہوا، سقایت توان کی تھی ہی، نبی کی میراث بھی اُن کی طرف منتقل ہوگئی اور خلافت ان کی اولاد میں آگئی، غرض دنیا وآخرت اور جاہلیت واسلام کا کوئی شرف باقی نہ رہا جس کے وارث ومورث عباس نہ ہوئے ہیں، جب اسلام شائع ہوا ہے توعباس رضی اللہ عنہ اس وقت ابوطالب اور اُن کی اولاد کے کفیل تھے اور قحط کی حالت میں اُن کی دست گیری کرتے تھے؛ اگربدر میں عباس رضی اللہ عنہ کوباکراہ نہ نکالا جاتا توابوطالب وعقیل بھوکے مرجاتے اور عتبہ وشیبہ کے برتن چاٹتے رہتے؛ لیکن عباس ان کوکھانا کھلارہے تھے انھوں نے ہی تمہاری آبرورکھی غلامی سے بچایا، کھانے کپڑے کی کفالت کرتے رہے؛ پھرجنگ بدر میں عقیل کوفدیہ دے کرچھڑایا؛ پس تم ہمارے سامنے کیا تفاخر جتاتے ہو ہم نے تمہارے عیال کی کفر میں بھی خبر گیری کی، تمہارا فدیہ دیا، تمہارے بزرگوں کی ناموس کوبچایا اور ہم خاتم الانبیاء کے وارث ہوئے، تمہارا بدلہ بھی ہم نے لیا اور جس چیز سے تم عاجز ہوگئے تھے اور حاصل نہ کرسکتے تھے اس کوہم نے حاصل کرلیا، والسلام۔ تفاخر نسبی کے معاملہ میں بے شک محمدمہدی کی طرف سے ابتدا ہوئی تھی اور منصور نے جوکچھ لکھا تھا جواباً لکھا تھا؛ مگرمنصور اس جواب میں حد سے بڑھ گیا ہے، محمدمہدی نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت کچھ نہیں لکھا تھا، منصور نے بلاوجہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں گستاخانہ الفاظ لکھے، منصور نے یہ بھی سخت بہتان باندھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا کوخلافت حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت باہر نکالا، حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں بھی منصور نے بڑی بدتمیزی اور گُستاخی کی ہے اُنھوں نے خلافت کوفروخت نہیں کیا؛ بلکہ انھوں نے مسلمانوں کے دوگروہوں میں جوآپس میں لڑتے تھے، اتفاق اور صلح کوقائم کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی کوپورا کیا تھا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ضرور ابی طالب کی امداد کی تھی اور عقیل کواپنے پاس رکھ کرپرورش کرتے تھے؛ لیکن ایسی باتوں کا زبان پرلانا اور طعنہ دینا شرفاء کا کام نہیں؛ بلکہ اس قسم کے احسانات کوزبان پرلاناکمینہ پن کی علامت سمجھی جاتی ہے، منصور نے ان باتوں کوزبان پرلاکر اپنی پرستار زادگی کا اظہار کردیا ہے۔ محمدمہدی نے مدینہ کے انتظام سے فارغ ہوکر محمدبن حسن بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر کومکہ کی طرف روانہ کیا، قاسم بن اسحاق کویمن کی امارت پراور موسیٰ بن عبداللہ کوشام کی امارت پرمامور کرکے رُخصت کیا، چنانچہ محمد بن حسن اور قاسم بن اسحاق دونوں مدینہ سے ساتھ ہی روانہ ہوئے عاملِ مکہ نے مقابلہ کرکے شکست کھائی اور محمد بن حسن نے مکہ پرقبضہ کرلیا۔ منصور نے مندرجہ بالا خط روانہ کرنے کے بعد عیسیٰ بن موسی ٰکومحمدمہدی سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کیا، عیسیٰ کے ساتھ محمد بن سفاح، کثیر بن حصین عبدی اور حمید بن قحطبہ کوبھی روانہ کیا، روانگی کے وقت عیسیٰ بن موسیٰ اور دوسرے سرداروں کویہ تاکید کردی کہ اگرتم کومحمد مہدی پرکامیابی حاصل ہوجائے توان کوامان دے دینا اور قتل نہ کرنا اور اگروہ روپوش ہوجائیں تواہلِ مدینہ کوگرفتار کرلینا، وہ اُن کے حالات سے خوب واقف ہیں، آلِ ابی طالب میں سے جوشخص تمہاری ملاقات کوآئے اس کا نام لکھ کرمیرے پاس بھیج دینا اور جوشخص نہ ملے اُس کا مال واسباب ضبط کرلینا، عیسیٰ بن موسیٰ جب مقامِ فید میں پہنچا تواس نے خطوط بھیج کرمدینہ کے چند شخصوں کواپنے پاس طلب کیا؛ چنانچہ عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب اُن کے بھائی عمربن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب اور ابوعقیل محمد بن عبداللہ بن عقیل مدینہ سے نکل کرعیسیٰ کی طرف روانہ ہوگئے، محمد مہدی کوعیسیٰ کے آنے کی خبر پہنچی توانھوں نے اپنے مصاحبوں سے مشورہ لیا کہ ہم کومدینہ سے نکل کرمقابلہ کرنا چاہیے، یامدینہ میں رہ کرمدافعت کرنی چاہیے، مشیروں میں اختلافِ رائے ہوا تومحمد مہدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء وپیروی کے خیال سے اُسی خندق کے کھودنے کا حکم دیا جس کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب میں کھدوایا تھا؛ اسی اثناء میں عیسیٰ بن موسیٰ نے قمام اعوض میں پہنچ کر پڑاؤ کیا، محمد مہدی نے مدینہ والوں کوباہر نکل کرمقابلہ کرنے سے منع کردیا تھا اور کوئی شخص مدینہ سے باہر نہیں نکل سکتا تھا؛ لیکن جب عیسیٰ بن موسیٰ قریب پہنچا توانہوں نے مدینہ سے نکلنے کی اجازت دے دی، یہ محمد مہدی کی غلطی تھی کہ پہلے حکم امتناعی کومنسوخ کردیا، اہلِ مدینہ کا ایک جمِ غفیر معہ اہل وعیال نکل کربغرضِ حفاظت پہاڑوں کی طرف چلا گیا اور مدینہ میں بہت ہی تھوڑے آدمی محمدمہدی کے پاس رہ گئے، اس وقت اُن کو اپنی غلطی محسوس ہوئی اور اُن لوگوں کے واپس لانے کے لیے آدمی بھیجے مگر وہ واپس نہ آئے، عیسیٰ نے اعوض سے کوچ کرکے مدینہ منورہ سے چار میل دور پرقیام کیا اور ایک دستہ فوج کومکہ کے راستے پرمتعین کردیا کہ بعدہزیمت محمدمہدی مکہ کی طرف نہ جاسکیں، اس کے بعد محمد مہدی کے پاس پیغام بھیجا کہ خلیفہ منصور تم کوامان دیتے اور کتاب وسنت کے فیصلہ کی طرف بلاتے ہیں اور بغاوت کے انجام سے ڈراتے ہیں، محمد مہدی نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں جوقتل کے خوف سے کبھی نہیں بھاگا ہے۔ ۱۲/رمضان المبارک سنہ۱۴۵ھ کوعیسیٰ بن موسیٰ آگے بڑھ کرمقام جرف میں آکرخیمہ زن ہوا۔ ۱۴/رمضان المبارک سنہ۱۴۵ھ کواس نے ایک بلند مقام پرکھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا کہ، اے اہلِ مدینہ میں تم کوامان دیتا ہوں، بشرطیکہ تم میرے اور محمد مہدی کے درمیان حائل نہ ہو اور غیرجانبدار ہوجاؤ، اہلِ مدینہ اس آواز کوسن کرگالیاں دینے لگے، عیسیٰ واپس چلاگیا، دوسرے دن پھراسی مقام پرلڑائی کے ارادے سے گیا اور اپنے سرداروں کومدینہ کے چاروں طرف پھیلادیا، محمد مہدی بھی مقابلہ کے لیے میدان میں نکلے، اُن کا عَلم عثمان بن محمد بن خالد بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اور اُن کا شعار اَحَدْ اَحَدْ تھا، محمد مہدی کی طرف سے ابوغلمش سب سے پہلے میدان میں نکلا اور للکار کراپنا ہم نبردطلب کیا، عیسیٰ کی طرف سے یکے بعد دیگرے کئی نامور بہادر اُس کے مقابلہ کونکلے اور سب مارے گئے، اس کے بعد جنگ مغلوبہ شروع ہوئی طرفین سے بہادری کے نہایت اعلیٰ اور انتہائی نمونے دکھائے گئے، ان لڑنے والی دونوں فوجوں کے سپہ سالاروں نے بھی شمشیرزنی اور صف شکنی میں حیرت انگیز جواں مردی کا اظہار کیا، اس کے بعد عیسیٰ کے حکم سے حمید بن قحطبہ نے پیادوں کولے کرخندق کے قریب کی دیوار کا رُخ کیا، محمد مہدی کے ہمراہیوں نے تیرباری سے اُس کوروکنا چاہا؛ مگرحمید نے اس تیر باری میں اپنے آپ کومستقل رکھ کرپیش قدمی کوجاری رکھا اور بڑی مشکل سے دیوار تک پہنچ کراُس کومنہدم کردیا اور خندق کوبھی طَے کرکے محمد مہدی کی فوج سے دست بدست لڑائی شروع کردی، عیسیٰ کوموقعہ مل گیا اُس نے فوراً خندق کوکئی مقامات سے پاک کرراستے بنادیئے اور سوارانِ لشکر خندق کوعبور کرکے محمدمہدی کی فوج پرحملہ آور ہوئے اور بڑے گھمسان کی لڑائی ہونے لگی، محمدمہدی کی فوج بہت ہی تھوڑی تھی اور حملہ آور لشکر تعداد میں کئی گنا زیادہ اور سامانِ حرب واسلحۂ جنگ سے خوب آراستہ تھا؛ مگرصبح سے لے کرنمازِ عصر تک برابر تلوار چلتی رہی، محمدمہدی نے اپنے ہمراہیوں کوعام اجازت دی کہ جس کا جی چاہے وہ اپنی جان بچاکر چلاجائے، محمدمہدی کے ہمراہیوں نے بار بار اور باصرار کہا کہ اس وقت آپ اپنی جان بچاکربصرہ یامکہ کی طرف چلے جائیں اور پھرسامان وجمعیت فراہم کرکے میدانی جنگ کریں؛ مگرمحمدمہدی نے ہرایک کویہی جواب دیا کہ تم اگراپنی جان بچانا چاہو توچلے جاؤ؛ لیکن میں دشمن کے مقابلے سے فرار نہیں ہوسکتا، آخرمحمد مہدی کے ہمراہ کل تین سوآدمی رہ گئے اُس وقت اُن کے ہمراہیوں میں سے عیسیٰ بن خضیر نے جاکر وہ رجسٹرجس میں بیعت کرنے والوں کے نام درج ہوتے تھے، جلادیا اور قید خانہ میں آکررباح بن عثمان اور اس کے بھائیوں کوقتل کیا، محمد بن قسریٰ نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیا تھا وہ بچ گیا، یہ کام کرکے عیسیٰ بن خضیر محمدمہدی کے پاس آکرپھرلڑنے لگا، اب محمدمہدی کے ہمراہیوں نے اپنی سواریوں کے پاؤں کاٹ ڈالےاور تلواروں کے نیام توڑ کرپھینک دیئے اور مرنے مارنے پرقسمیں کھاکر دشمنوں پرحملہ آور ہوئے یہ حملہ ایسا سخت اور ہیبت ناک تھا کہ عیسیٰ کی فوج شکست کھاکرمدیان سے بھاگی مگر چند آدمی اس کی فوج کے پہاڑ پرچڑھ گئے اور پہاڑ کے دوسری طرف اُترکرمدینہ میں آگئے اور ایک عباسیہ عورت کی سیاہ اوڑھنی لے کراُس کومسجد کے منارہ پرپھریرہ کی طرح اُڑایا، یہ حالت دیکھ کرمحمدمہدی کے ہمراہیوں کے اوسان خطا ہوگئے اور یہ سمجھ کرکہ عیسیٰ کی فوج نے مدینہ پرقبضہ کرلیا ہے پیچھے کولوٹے، عیسیٰ کے مفرور سپاہیوں کوموقع مل گیا، وہ سمٹ کرپھرمقابلہ پرآ:ے اور اس کے لشکر کی ایک جماعت بنوغفار کے محلہ کی طرف سے مدینہ میں داخل ہوکرمدینہ کی طرف سے محمدمہدی کے مقالبہ کونکل آئی، یہ تمام صورتیں بالکل خلافِ اُمید واقع ہوئیں محمدمہدی کویہ بھی اُمید نہ تھی کہ بنوغفار دشمنوں کوراستہ دے دیں گے، یہ دیکھ کرمحمدمہدی نے آگے بڑھ کرحمید بن قحطبہ کومقابلہ کے لیے للکارا؛ لیکن حمیدان کے مقابلہ پرنہ آیا، محمدمہدی کے ہمراہیوں نے پھران دشمنوں پرحملہ کیا، عیسیٰ بن خضیر بڑی بہادری اور جانبازی سے لڑرہا تھا، عیسیٰ بن موسیٰ نے آگے بڑھ کراُس کوپکارا اور کہا کہ میں تم کوامان دیتا ہوں تم لڑنا چھوڑ دولیکن عیسیٰ بن خضیر نے اُس کی بات پرمطلق توجہ نہ کی اور باربر مصروفِ قتال رہا، آخر لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہوکرگرپڑا، محمدمہدی اس کی لاش پرلڑنے لگے، عیسیٰ بن موسیٰ کے لشکری ہرچہارطرف سے اُن پرحملہ آور تھے اور وہ بڑی بہادری سے حملہ آوروں کوجواب دیتے اور پسپا کردیتے تھے، محمدمہدی نے اس وقت وہ بہادری دکھائی اور اپنی شجاعت وسپہ گری کی وہ دھاک بٹھائی کہ عیسیٰ بن موسیٰ کے لشکر میں کسی کوان کے مقالبہ کی تاب نہ تھی، آخر ایک شخص نے پیچھے سے لپک کراُن کی کمر میں ایک نیزہ مارا اس زخم کے صدمے سے وہ جوں ہی ذراجھکے توحمید بن قحطبہ نے آگے سے لپک کر اُن کے سینہ میں نیزہ مارا، آگے اور پیچھے سے دونیزے جب جسم کے پار ہوگئے تووہ زمین پرگرپڑے، قحطبہ نے فوراً گھوڑے سے اُترکراُن کاسراُتارلیا اور عیسیٰ بن موسیٰ کے پاس لے کرآیا اس شیرنرکے قتل ہوتے ہی مدینہ عیسیٰ بن موسیٰ کے قبضہ وتصرف میں تھا، عیسیٰ بن موسیٰ نے محمدمہدی کا سراور فتح کا بشارت نامہ محمدبن ابی الکرام بن عبداللہ بن علی بن عبداللہ بن جعفر اور قاسم بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ہاتھ منصور کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ حادثہ ۱۵/رمضان المبارک یوم دوشنبہ سنہ۱۴۵ھ عصرومغرب کے درمیان وقوع پذیر ہوا، محمدمہدی کی لاش کوعیسیٰ بن موسیٰ نے مدینہ وثمنیۃ الوداع کے درمیان سولی پرلٹکادیا اُن کی بہن زینب نے اجازت حاصل کرکے اس لاش کولے کربقیع میں دفن کردیا، اس لڑائی میں محمدمہدی کا بھائی موسیٰ بن عبداللہ، حمزہ بن عبداللہ بن محمد بن علی بن حسین وعلی پسرانِ زید بن علی بن حسین بن علی وزید پسران محمد بن زید پسران حسن بن زید بن حسن محمدمہدی کے ساتھ تھے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ آخرالذکر علی وزید کے باپ حسن بن زید بن حسن منصور کے مددگار تھے؛ اسی طرح بہت سے ہاشمی وعلوی ایسے تھے کہ باپ ایک طرف مصروفِ جنگ ہے توبیٹا دوسری طرف سے لڑرہا ہے، غالباً بنواُمیہ کے قتل اور اُن کی بربادی کے نظارے دیکھ کربہت سے علوی سہم گئے تھے، جیسا کہ علی بن حسین (زین العابدین) کربلا کا نظارہ دیکھ کر اس قدرمتأثر تھے کہ کبھی بنواُزیہ کے خلاف کوئی کام نہیں کیا اور بنواُمیہ کی حمایت وموافقت ہی کا اظہار فرماتے رہے؛ اسی طرح علویوں کے اکثربااثرافراد بنوعباس کی مخالفت کوموجب تباہی جاننے لگے تھے، محمد مہدی کی شکست وناکامی محض اس وجہ سے ہوئی کہ خود اُن کے خاندان والوں نے اُن کا ساتھ نہیں دیا اور اہلِ خاندان کے ساتھ نہ دینے کا یہ اثر ہوا کہ اور بھی بہت سے لوگ اُن سے الگ رہے؛ چنانچہ محمدمہدی نے جس وقت مدینہ میں لوگوں سے بیعت لی ہے اور رباح بن عثمان کوقید کرکے اپنی خلافت کا اعلان کیا ہے تواسماعیل بن عبداللہ بن جعفر کوبھی جومعمر آدمی تھے بیعت کے لیے بلوایا انہوں نے جواب میں کہلوابھیجوایا کہ بھتیجے تم مارے جاؤ گے میں تمہاری بیعت کیسے کروں، اسماعیل بن عبداللہ کے اس جواب کوسن کربعض اشخاص جوبیعت کرچکے تھے پھرگئے اورح مادہ بنتِ معاویہ نے اسماعیل بن عبداللہ کے پاس آکر کہا کہ آپ کے اس کلام سے بہت سے آدمی محمدمہدی سے جدا ہوگئے ہیں؛ مگرمیرے بھائی ابھی تک اُن کے ساتھ ہیں، مجھ کوڈر ہے کہ کہیں وہ بھی نہ مارے جائیں؛ غرض رشتہ داروں اور خاندان والوں کی علیحدگی نے محمد مہدی کوزیادہ طاقتور نہ ہونے دیا؛ ورنہ بہت زیادہ ممکن تھا کہ خلافت پھرحسن علیہ السلام کی اولاد میں آجاتی؛ اگرمحمدمہدی اس وقت طرح دے جاتے اور مدینہ سے بچ کرنکل جاتے یاابھی خروج میں جلدی نہ کرتے اور اپنے بھائی ابراہیم کے خروج کا انتظار کرکے دونوں بھائی ایک ہی وقت میں نکلتے توبھی کامیابی یقینی تھی؛ مگرمنصور اور خاندانِ عباسیہ کی خوش قسمتی تھی کہ عباسی لشکر کومحمداور ابراہیم کا مقابلہ یکے بعد دیگرے کرنا پڑا اور اُن کی طاقت تسلیم ہونے سے بچ گئی۔