انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
سود کے احکام،مختلف بینکوں اورجدید مالیاتی اداروں سے متعلق مسائل غیرمسلم ممالک میں بینک کے سود کا حکم غیرمسلم ممالک میں بھی بینک سے یاکسی کافر سے سودی معاملہ کرنا ناجائز وحرام ہے اور اس زمانےمیں بینک کا کسی بھی طرح کا فائدہ سود میں داخل ہے؛ اگربینک میں حفاظت کی غرض سے رقم رکھوائی ہے توسب سے بہتر اور بے غبار صورت یہ ہے کہ لاکر میں رکھوائے؛ البتہ کرنٹ اکاونٹ میں رکھوانے کی بھی گنجائش ہے، جس پرسود نہیں لگایا جاتا؛ اگرغلطی سے بینک وغیرہ سے سود لے لیا جائے تواسے صدقہ کردے۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۲۶۸،۲۶۹) بینک کے سود کے مصارف بینک کے سود کے سلسلہ میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نہ اس کواپنی ذات پرخرچ کیا جاسکتا ہے اور نہ صدقہ میں دیا جاسکتا ہے..... اپنی ذات پرخرچ کرنے کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ کوئی چیز خرید کراپنی ضروریات پوری کرے اور یہ بھی کہ کوئی ذمہ داری جواس پربجا طور پرعائد ہوتی ہے اس میں صرف کردے، جیسے: بجلی، فون، پانی وغیرہ کی اُجرت، صدقہ سے مراد صدقاتِ واجبہ، زکوٰۃ وفطرہ، قربانی وکفارہ وغیرہ بھی ہے اور صدقاتِ نافلہ وعطایا بھی کہ کوئی شخص اپنی طرف سے بطورِ صدقہ کسی کارِخیر میں استعمال کرے؛ اس کے علاوہ جوصورتیں ہوں اِن میں صرف کیا جاسکتا ہے، مثلاً کسی ضرورت مند کی انفرادی ضرورت کی تکمیل کسی اجتماعی فائدہ کا کام کردینا جیسے کنواں کھودنا وغیرہ، حکومت کے ناروا ٹیکسوں میں بھی یہ رقم دی جاسکتی ہے اور اگرسودی قرضے لیے ہوں تواس کوسود کی ادائیگی میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، مساجد اور اس کی ضروریات میں اس رقم کا صرف کرنا جائز نہیں۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۲۰) ٹیکس میں سود کی رقم دینا ٹیکس جوحکومت عوام سے وصول کرتی ہے وہ دوطرح کے ہیں، بعض منصفانہ ہیں اور خود اسلام میں ان کی گنجائش ہے، مثلاً پانی، روشنی، سڑک، ہسپتال، لائبریری اور پارک وغیرہ سہولتوں کے بدلے بلدیہ جوٹیکس لیا کرتی ہے وہ اس کا فائدہ محسوس طور پرہماری طرف لوٹا دیتی ہے، دوسرے قسم کے ٹیکس ایسی ہیں جن کو غیرمنصفانہ اور ناواجبی کہا جاسکتا ہے، مثلاً: انکم ٹیکس جوبسااوقات اسی فی صد تک پہنچ جاتا ہے، شرعی اعتبار سے غیرمنصفانہ ہونے کے علاوہ واقعہ ہے کہ اس قسم کے ٹیکس غیرمعقول بھی ہیں کہ ایک شخص اپنے گاڑھے پسینہ سے جوکچھ حاصل کرے آپ اس کا اسی فی صد اجتماعی مفاد کے لیے وصول کرلیں؛ پہلی قسم کے ٹیکس میں بینک کی سودی رقم دینا درست نہ ہوگا؛ اس لیے کہ وہاں سود دینا گویا اپنی ذات میں سود کا استعمال ہوگیا؛ اس لیے کہ وہ بھی ان قومی سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور فقہاء نے ایسے ٹیکس کی اجازت دی ہے۔ دوسری قسم کے ٹیکس میں یہ رقم دی جاسکتی ہے کہ اس طرح یہ مالِ حرام اس حکومت یاادارہ کوپہونچتا ہے جس نے یہ مال امانت داروں کوسود کے نام سے دیا ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۲۱۔ فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۳۸۱۔ فتاویٰ رحیمیہ:۹/۲۶۱) سود میں سود کی ادائیگی اگرکوئی شخص سودی قرض لینے پرمجبور ہوجائے اور قرض لے لے؛ پھراس کے پاس بینک سے حاصل ہونے والی سود کی کوئی رقم آجائےتواس میں کوئی حرج نہیں کہ وہی رقم بطورِ سود ادا کردے، اس لیے کہ سود دینا بھی گناہ ہے؛ کیونکہ اس طرح وہ اللہ کے عطا کئے ہوئے مالِ حلال کوحرام راہ میں خرچ کرتا ہے، اب اگرکوئی شخص سود ہی کی رقم اس راہ میں دے دیتا ہے توایک مالِ حلال کوبے حرمتی سے بچاتا ہے؛ اُمید ہے کہ اس پراس کا مواخذہ نہ ہوگا، حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا رحجان بھی اسی طرف ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۲۲) پراویڈنٹ فنڈ پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کوتین طرح کی رقوم دی جاتی ہیں، ایک توخودان کی جمع کی ہوئی رقم، دوسرے اسی کے برابر حکومت کی طرف سے دی گئی رقم، تیسرے ان دونوں کے اوپر دی گئی اضافی رقم، جس کوحکومت سود سے تعبیر کرتی ہے؛ علماء کا خیال ہے کہ یہ تینوں ہی رقوم ملازمین کے لیے جائز وحلال ہیں اور ان کے لینے اور استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اس لیے کہ جورقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹی گئی ہے وہ توان کی ہے ہی اور اسی کے برابر جواضافی رقم دی گئی ہے، چونکہ ملازمت کے وقت اس کا دیا جانا متعین ومعروف تھا، اس لیے وہ بھی اس کی تنخواہ کا جز ہی متصور ہوگا، رہ گئی وہ رقم جوسود کے نام سے دی گئی ہے تویہ بھی سود نہیں، سودایسے اضافے کوکہتے ہیں جولین دین کے معاملہ میں شرط اور معاہدہ کے مطابق دیا گیا ہو؛ اگرمقروض بطورِ خودقرض ادا کرتے ہوئے کچھ اضافہ کے ساتھ دے دے تویہ حسن ادائیگی ہے اور مالک مزدور کوبڑھاکردے تویہ اس کی طرف سے تبرع اور انعام ہے؛ لہٰذا یہ رقم جس کوحکومت سود سے موسوم کرتی ہے، اصل میں انعام ہے، کوئی اضافہ محض اس لیے سود کے زمرہ میں نہیں آسکتا کہ اس کوسود کا نام دے دیا جائے، جب تک کہ وہ شرعی اصطلاح کے مطابق سود کا مصداق نہ ہو، واللہ اعلم۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۳۸)