انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** انسان کا اصل مقام قرآن کی بہت سی آیات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اصل مقام جنت ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے: "اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْوٰرِثُوْنَo الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ، ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ"۔ (المؤمنون:۱۰،۱۱) ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس کے وارث ہونگے وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (ترجمہ تھانویؒ) "وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُن، وَاَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ"۔ (الزخرف:۷۱) اوروہاں وہ چیزیں ملیں گی جن کو جی چاہے گا اورجن سے آنکھوں کو لذت ہوگی اور تم یہاں ہمیشہ رہوگے اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دیئے گئے اپنے اعمال کے عوض۔ (ترجمہ تھانویؒ) "وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ"۔ (الاعراف:۴۳) اور ان سے پکار کر کہا جاویگا کہ یہ جنت تم کو دی گئی ہے تمہارے اعمال کے بدلے۔ (ترجمہ تھانویؒ) توحید کے مبلغ اعظم ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا ایک فقرہ یہ بھی تھا: "وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ"۔ (الشعراء:۸۵) اورمجھ کو جنت النعیم کے مستحقین میں سے کر۔ (ترجمہ تھانویؒ) جب ان آیتوں سے یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کا اصلی مقام جنت ہی قرار دیا گیا تو پھر اس کے حصول کا ذریعہ بھی خوب سمجھ لینا چاہئے اس کے حصول کا ذریعہ اللہ تعالی نے صرف انسان کا نیک عمل اور اللہ کی صحیح پہچان ہے،جن کے مجموعے کا نام"تقوی"ہے جیسا کہ ارشادِباری ہے: "تِلْکَ الْجَــــنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا"۔ (مریم:۶۳) یہ جنت ایسی ہے کہ ہم اپنے بندوں میں سے اس کا مالک ایسے لوگوں کو بناویں گے جو کہ خداسے ڈرنے والا ہو۔ (ترجمہ تھانویؒ) جب اپنے اصلی مقام 'جنت' کا حصول تقوی پر موقوف ہے تو پھر تقوی کے حصول کی کوششوں میں لگ کر اپنی اس حیات فانی اور زوال پزیر بادشاہی کے تمام کاموں کو اس حیات ابدی اورلازوال بادشاہی کے عوض میں بیچ دینا چاہئے،اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔