انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** روحوں کا ٹھکانہ موت اور قیامت کے درمیانی حالت میں انسانی روحوں کا مسکن کہاں ہوگا، اس سلسلہ میں نصوص شرعیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم والوں کی روحیں مرنے کے بعد آسمانی بادشاہت میں قدم نہ رکھ سکیں گی بلکہ وہ زمین ہی کی فضاؤں میں آوارہ پھرتی رہیں گی یا جہاں پر ان کے اجسام مٹی کے حوالے ہوئے ہونگے ان سے لگاؤ ہونے کی وجہ سے وہیں منڈلاتی رہیں گی اور وہیں سے دوزخ کا منظر دیکھیں گی اور تکلیف اٹھائیں گی، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے: "اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْـتَکْبَرُوْا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَایَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّۃَ حَتّٰی یَـلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ" (الاعراف:۴۰) جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلاتے ہیں اور ان سے تکبرکرتے ہیں ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جاویں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جاوے۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس کے برخلاف ہمہ تن پاکباز مؤمن روح کا یہ حال ہوتا ہے کہ موت ہی کے وقت رحمت الہی کا فرشتہ بلکہ خود زبان رحمت اس کے کانوں میں یہ صدا دیتی ہے: "یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِٕنَّۃُoارْجِعِیْٓ اِلٰى رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃًoفَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ" (الفجر:۲۷۔۳۰) اے اطمینان والی روح! تو اپنے پروردگار کی طرف چل اس طرح کہ تو اس سے خوش اوروہ تجھ سے خوش پھر تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ (ترجمہ تھانویؒ) ان سے بڑھ کر وہ پاکباز روحیں ہیں، جنہوں نے اپنے جسموں،فانی زندگیوں،مادی خوشیوں اورزوال پذیر عشرتوں کو خداکی راہ میں قربان کیا تو ان کو خدا کی طرف سے ایک مثالی جسم،غیر فانی زندگی اورروحانی عیش و مسرت کی لازوال دولت اسی وقت عنایت کردی جاتی ہے اس لیے فرمایا: "وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتo بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ" (البقرۃ:۱۵۴) اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ مردے ہیں بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں لیکن تم جو اس سے ادراک نہیں کرسکتے۔ (ترجمہ تھانویؒ) ایک اورجگہ کچھ اورتفصیل سے ان کی پر مسرت زندگی کو اس طرح بتلایا ہے: "وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًاo بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَo فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖo وَیَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْo اَلَّاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍoوَّاَنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ" (آل عمران:۱۶۹۔۱۷۱) اورجولوگ اللہ تعالی کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ مت خیال کر بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں ان کو رزق بھی ملتا ہے وہ خوش ہیں اس چیز سے جوان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اورجولوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہونگے وہ خوش ہوتے ہیں بوجہ نعمت وفضل خداوندی کے اللہ تعالی اہل ایمان کا اجر ضائع نہیں فرماتے۔ (ترجمہ تھانویؒ) یہ پر مسرت زندگی شہداء کو ملےگی اس زندگی کا مقام خدا کے پاس بتایا گیا ہے اوراحادیث صحیحہ میں ہے کہ ان زندہ شہیدوں کی روحیں دنیا سے پرواز کرکے سبز پرندوں کی شکل میں جنت کی سیر کرتی ہیں اور عرش الہی کی قندیلیں ان کا ٹھکانہ بنتی ہیں،اس کے بعد ہر عقل مند یہ بات تسلیم کریگا کہ انبیاء علیہم السلام کے روحانی درجات شہداءسے اعلی وبرتر ہیں؛ اس لیے ان کا مقام بھی اس احاطہ قدس میں ہوگا، اس لیے آنحضرتﷺ نے معراج کے سفر اورسچے خوابوں میں بعض پیغمبروں کو آسمان اورجنت کے مختلف درجات میں دیکھا۔ (مسلم، باب بیان ارواح الشھداء فی الجنۃ، حدیث نمبر:۳۵۰۰۔ وترائی اھل الجنۃ اھل الغرف، حدیث نمبر:۳۶۹۶) بعض نیک بخت روحیں وہ ہیں جو یہاں سے نکل کر فرشتوں کی صف میں داخل ہوجاتی ہیں؛ جیسا کہ حضرت جعفر طیارؓ کے متعلق صحیح احادیث میں آیا ہےکہ وہ شہادت کے بعد اپنے دونوں بازوؤں سے فرشتوں کے ساتھ عالم ملکوت میں اڑرہے تھے۔ (ترمذی، باب مناقب جعفر بن ابی طالبؓ، حدیث نمبر:۳۶۹۶) عالم برزخ کے یہ دو اڑانے والے بازو درحقیقت ان کے دونوں جسمانی بازوؤں کی مثال ہیں جو جنگ میں ان کے جسم سے کٹ کر گرگئے تھے اور وہ اس پر بھی اسلام کے جھنڈے کو اپنے بقیہ کٹے ہوئے بازو اورگردن کے سہارے پکڑے تھے۔ (البدایہ والنہایہ:۴/۲۹۲)