انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمر بن سعدؒ نام ونسب نام عمر اورابو داؤد کنیت تھی،معلوم نسب نامہ یہ ہے ،عمر بن سعد ابن عبید،اصل نام کی بجائے کنیت ہی سے مشہور ہوئے،حفری اورکوفی دونوں وطنی نسبتیں ہیں،حفر کوفہ کا ایک محلہ ہے ،وہیں ان کی فرودگاہ تھی۔ (کتاب الانساب ورق:۱۷۱) علم وفضل علمی حیثیت سے باکمال ہونے کے ساتھ عبادت،انابت الی اللہ اورفقر واستغناء بھی نہایت بلند مقام رکھتے تھے،اپنے عہد کے اکابر تابعین کی صحبت سے مشرف اوران کے خزانہ علم سے مستفید ہوئے تھے، عجلی کے بیان کے مطابق تین ہزار ایسی حدیثیں ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ تھیں جن کی حجیت اوراستناد پر ماہرین فن کا اتفاق ہے،(تہذیب التہذیب:۷/۴۵۳)دنیائے دل کی آبادی کا عالم یہ تھا کہ جس مقام پر وہ ہوتے وہاں کے لوگ اس جگہ کو ہر آفت اوربلا سے مامون تصور کرتے،حافظ وکیع جیسے جلیل القدر امام فرماتے ہیں: ان کان یدفع البلاء باحد فی زماننا فبابی داؤد الحضرمی (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۴۰) اگر ہمارے زمانہ میں کسی کے ذریعہ بلائیں دور کی جاتی ہیں تو وہ ابوداؤد الحضرمی ہیں۔ امام ابو نعیم جب ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تو غایت تعظیم واحترام سے خاموش بیٹھے رہتے اورفرماتے: لم یکن بالکوفۃ بعد حسین الجعفی افضل منہ (تہذیب التہذیب:۷/۴۵۳) امام حسین الجعفی کے بعد کوفہ میں ان سے بڑا فاضل کوئی نہ تھا۔ شیوخ جن محدثین وعلماء سے انہوں نے کسبِ ضیا کیا ان میں درجِ ذیل کبار تابعین اور ممتاز اتباع تابعین کے نام ملتے ہیں مسعر بن کدام،مالک بن مغول، سفیان ثوری،صالح بن حسان،حفص بن غیاث،یحییٰ بن ابی زائدہ، شریک نخعی،ہشام بن سعد۔ تلامذہ اسی طرح خود ان کے خرمنِ علم کے خوشہ چینوں میں امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابوبکر بن ابی شیبہ،علی بن المدینی،قاسم بن زکریا،محمود بن غیلان،موسیٰ بن عبدالرحمن المسروقی،علی بن حرب اورعبد بن حمید کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۲۸۳،وتہذیب التہذیب:۷/۴۵۲) کان ابوداؤد ثقۃ زاھداً من اھل الکوفۃ امام ابوداؤد الحضرمی کوفہ کے ثقہ اورزاہد شخص تھے۔ محمد بن مسعود کا بیان ہے: ھواحب الیٰ من حسین الجعفی وکلا ھما ثقۃ (تہذیب التہذیب:۷/۴۵۳) وہ میرے نزدیک امام حسین الجعفی سے بھی زیادہ پسندیدہ شخص تھے اورثقہ تو دونوں ہی ہیں ۔ علاوہ ازیں ابو حاتم آجری عجلی اورابن معین بھی ان کی عدالت وصداقت کے معترف ہیں۔ عبادت علی بن المدینی بیان کرتے ہیں کہ کثرتِ عبادت وریاضت میں کم از کم کوفہ میں ان کی مثال نہیں مل سکتی،"مارایت بالکوفۃ اعبدمنہ" (سذرات الذہب:۲/۶) ابن حبان کتاب الثقات میں لکھتے ہیں: کان من عباد الخشف (تہذیب التہذیب:۷/۴۵۳) وہ بے انتہا عبادت گزار تھے۔ فقر ودرویشی بایں ہمہ تبحر علم وفن ان کی زندگی قرونِ اولیٰ کی سادگی ،تواضع اور درویشی وقلندری کا مثالی نمونہ تھی،علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان زاھداً ناسکا لہ فضل وتواضع (طبقات ابن سعد:۶/۲۸۱) وہ زاہد،پرہیز گار،متواضع اورصاحبِ فضل تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: رأیت اباداؤد الحضرمی وعلیہ جبۃ مخرقۃ وقدخرج القطن منھا یصلی بین المغرب والعشاءِ وھو یرحج من الجوع (صفوۃ الصفوہ:۳/۱۰۸) میں نے ابو داؤد الحفری کو اس عالم میں دیکھا کہ وہ پھٹا پرانا جبہ پہنے ہوئے تھے جس کی روئی باہر نکل پڑ رہی تھی،وہ مغرب وعشا کے درمیانی وقفہ میں نماز پڑھ رہے تھے اوربھوک سے نڈھال تھے۔ حسین بن علی الصدائی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں ابوداؤد الحفری کی فرود گاہ پر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا،انہوں نے اندر ہی سے دریافت کیا کون ہے؟ میں نے عرض کیا، ایک حدیث کا طالب علم حاضر ہے،فرمایا: اچھا ذرا ٹہرو ،راوی کا بیان ہے کہ اسی اثنا میں میں نے دروازے کے ایک سوراخ سے اندر جھانکا،کیا دیکھتا ہوں کہ شیخ ایک تہبند باندھے اُون کات رہے ہیں، جس کو پیچ کر وہ روزی فراہم کرتے تھے ؛چنانچہ میری آواز پر اون سمیٹ کر اکٹھا کیا اوراس پر ایک کپڑا ڈال دیا،پھر مجھے اندر بلایا اورحدیثیں املاء کرانا شروع کیں،یہاں تک کہ کاغذ ختم ہوگیا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے علاوہ خالصۃً لوجہ اللہ روایت کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ ابن عبد ربہ فرماتے ہیں کہ میں نے عباس الدوری کو اکثر یہ کہتے سُنا کہ: حدثنا ابوداؤد الحفری ولورایت اباداؤد الحفری لرأیت رجلا کانہ اطلع علی النار فرای مافیھا (صفوۃ الصفوۃ:۳/۱۰۹) ہم سے ابوداؤد حفری نے حدیثیں روایت کی ہیں اور تم اگر ان کو دیکھتے تو ایک ایسا شخص پاتے جس نے گویا آگ کے اندر جھانک کر اس حقیقت کو دیکھ لیا ہو۔ یعنی خوفِ آخرت اورخشیتِ الہیٰ سے ہمہ وقت لرزاں رہتے تھے،اسی فقر واستغنا اور دنیا سے کنارہ کشی کا نتیجہ تھا کہ وفات کے وقت ان کے گھر میں کوئی بھی سامان نہ تھا؛چنانچہ ابو حمدون جو شیخ کے جنازہ میں شریک تھے کہتے ہیں کہ: لما وفناہ ترکنا بابہ مفتوحاً ماخلف شیئا (العبر فی خبر من غبر:۱/۳۴۰) جب ہم نے ان کو دفن کردیا تو ان کے گھر کے دروازہ کوکھلا چھوڑدیا ؛کیونکہ انہوں نے اپنےپیچھے کچھ چھوڑا ہی نہ تھا۔ وفات جمادی الاخریٰ ۲۰۳ھ میں بایامِ خلافت مامون کوفہ رحلت فرمائی (طبقات ابن سعد:۶/۲۸۱)بعض علماء نے ان کا سالِ وفات ۲۰۶ھ بتایا ہے جو صحیح نہیں ہے۔