انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** افقہ راویوں کی روایت کوترجیح محدثین میں اس پر بھی کلام رہا ہے کہ روایت کی ترجیح راویوں کی قوتِ حفظ پر ہونی چاہئے یااس میں اِن کی فقاہت بھی ترجیح ہوسکتی ہے، ایک شخص حفظ ویادداشت میں زیادہ معروف ہے اور دوسرا علم ودانش میں گہرائی رکھتا ہے توکس کی روایت اُن میں سے زیادہ لائقِ ترجیح ہوگی؟ محدثین میں روایت بالمعنی کا رواج نہ ہوتا توظاہر ہے کہ ترجیح قوتِ حفظ کی بناء پر ہوتی؛ لیکن روایت بالمعنی کا شیوع اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ راوی جتنا گہرا عالم اور فقیہہ ہوگا اتنا ہی بات کے مغز کوزیادہ پائے گا اور یہ نہ ہوگا کہ وہ روایت بالمعنی کی صورت میں بات اور کچھ کہہ جائے، آنحضرتﷺ نے فرمایا: "نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَاسَمِعَ فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ"۔ (ترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس شخص کوسرسبز کرے جس نے ہماری کوئی حدیث سنی اور اسے اسی طرح آگے پہنچادیا جیسا کہ اس نے سنا تھا؛ کیونکہ آگے سننے والے کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جواسے اس سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھ سکیں۔ اوعیٰ (زیادہ حفاظت کرنے والا) سے مراد اسے زیادہ سمجھنے والا ہے، جتنا راوی فقیہہ ہوگا اتنا ہی وہ اس مضمون کوزیادہ سنبھالنے والا ہوگا اور اس کی تائید حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کی ہی ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: "فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ"۔ (ترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ایسے کئی حامل فقہ ہیں جواس بات کواس شخص تک لے جائیں جوان سے زیادہ اس بات کو سمجھتے ہوں ۔ معلوم ہوا کہ جتنا کوئی راوی زیادہ فقیہہ ہوگا اتنا ہی مقصدِ حدیث کو زیادہ پانے والا ہوگا، امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) حدیث کی فقہ کواس کے حفظ سے زیادہ اہم سمجھتے تھے، امام علی بن المدینیؒ (۲۴۳ھ) بھی فقہ حدیث کوہی سب سے اشرف علم شمار کرتے تھے، حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں: "قال احمد بن حنبل معرفۃ الحدیث والفقہ فیہ احب الی من حفظہ وقال علی بن المدینی اشرف العلم الفقہ فی متون الاحادیث ومعرفۃ احوال الرواۃ"۔ (منہاج السنۃ:۴/۱۱۵) ترجمہ: امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں حدیث اور فقہ کی معرفت مجھے اس کے حفظ سے بھی زیادہ عزیز ہے، امام علی بن المدینی کہتے ہیں سب سے اشرف علم متون حدیث اور احوال رواۃ کی معرفت میں فقہ کوکارفرماکرنا ہے۔ غورکیجئے ان ائمہ فن نے فقہ اور حدیث کے معنی ومضمون کوکس قدراہمیت دی ہے، امام ابوحنیفہؒ اس بات کےپرجوش حامی تھے کہ مدارِ ترجیح راویوں کی فقاہت ہونی چاہئے، جتنا کوئی راوی زیادہ افقہ ہوگا اتنی ہی اس کی روایت کوترجیح ہوگی، امام اہل شام امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ) سے امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ) کی رفع الیدین عندالرکوع کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی، توامام اوزاعیؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ حدیث پڑھی: "حدثنی الزھری عن سالم عن ابیہ عبداللہ بن عمر بن الخطاب ان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا اِفْتَتَحَ اَلصَّلَاةَ وعند الرکوع وعندالرفع منہ"۔ ترجمہ: زہری نے مجھے سالم سے انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے یہ حدیث سنائی کہ حضورﷺ نماز شروع کرتے وقت اپنے کندھوں کے برابر رفع یدین کرتے اور رکوع کے وقت بھی اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی۔ اس پر حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی یہ حدیث پڑھ دی: "حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ﴿ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَايَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّاعِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ثُمَّ لَايَعُودُ لِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ"۔ (فتح القدیر لکمال بن الھمام، كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ،بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ:۲/۱۰۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: حماد نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے حضرت علقمہ اور اسود سے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے یہ حدیث سنائی کہ نبی کریمﷺ صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے کسی دوسرے مقام پر رفع یدین نہ کرتے تھے۔ اِس پر امام اوزاعیؒ نے کہا: "أُحَدِّثُكَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ وَتَقُولُ حَدَّثَنِي حَمَّادٌ عَنْ إبْرَاهِيمَ؟"۔ ترجمہ: میں تمھیں زہری سے وہ سالم سے وہ عبداللہ بن عمر سے حدیث سنارہا ہوں اور تم مجھے حماد سے اور وہ ابراہیم سے حدیث سنارہے ہو؟ اِس کے جواب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: "كَانَ حَمَّادٌ أَفْقَهَ مِنْ الزُّهْرِيِّ، وَكَانَ إبْرَاهِيمُ أَفْقَهَ مِنْ سَالِمٍ، وَعَلْقَمَةُ لَيْسَ بِدُونٍ مِنْ ابْنِ عُمَرَ فِي الْفِقْهِ، وَإِنْ كَانَتْ لِابْنِ عُمَرَ صُحْبَةٌ وَعَبْدِ اللہِ ھُوَعَبْدِ اللہِ"۔ (فتح القدیر لکمال بن الھمام، كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ،بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ:۲/۱۰۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ دیکھئے مسندالانام فی شرح مسندالامام:۲۰/۱۹، مطبع: محمدی لاہور) ترجمہ: حضرت حماد امام زہری سے زیادہ فقیہہ تھے، حضرت ابراہیم نخعی حضرت سالم سے زیادہ فقیہہ تھے اور علقمہ فقہ میں حضرت ابن عمر سے کم نہیں؛ اگرچہ حضرت ابن عمرکوصحابیت کا جوشرف حاصل ہے وہ علقمہ کونہیں، باقی رہے حضرت عبداللہ بن مسعود تووہ عبداللہ بن مسعود ہیں۔