انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مسلم کی گرفتاری جب سے مسلم ہانی کے گھر سے نکلے تھے، اسی وقت سے ابن زیاد ان کی تلاش میں مصروف تھا؛ لیکن پتہ نہ چلتا تھا اس لئے اس نے ایک دن اہل شہر کو مسجد میں جمع کرکے اعلان کیا کہ جاہل اورکمینہ مسلم بن عقیل نے جو فتنہ بپا کیا ہے اس کو تم لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اس لئے جس شخص کے گھر سے وہ برآمد ہوں گے وہ ماخوذ ہوگا اورجو انہیں گرفتار کرکے لائے گا اسے انعام دیا جائے گا، اس اعلان کے بعد حسین بن تمیم کو کوفہ میں عام تلاشی کا حکم دیا، جس عورت کے گھر میں روپوش تھے اس کے لڑکے کو علم ہوچکا تھا ابن زیاد کے اعلان سے وہ گھبرا گیا، اوردوسرے دن صبح کو اس نے عبدالرحمن بن محمد سے تذکرہ کیا کہ مسلم ہمارے گھر میں روپوش ہیں ،عبدالرحمن نے قصرامارۃ میں جاکر اپنے باپ کو اطلاع دی، اس نے ابن زیاد سے کہدیا اس طرح مسلم کا پتہ چل گیا،ابن زیاد نے اُسی وقت ستر آدمیوں کا ایک دستہ مسلم کی گرفتاری کے لئے بھیج دیا، دستہ کی آمد کا شور سن کر مسلم سمجھ گئے؛ لیکن مطلق خوفزدہ نہ ہوئے اورتن تنہا پورے دستہ کا نہایت شجاعت وبہادری کے ساتھ مقابلہ کرکے انہیں گھر سے باہر کردیا یہ لوگ پھر ریلا کرکے اندر گھسے ،مسلم نے پھر نکال باہر کیا، کہ اتنے میں بکر بن حمران نے مسلم کے چہرہ پر ایسا وار کیا کہ اوپر کا ہونٹ کٹ گیا اورسامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے ؛لیکن اس حالت میں بھی مسلم نے اس شخص کو نہایت سخت زخمی کردیا اس کے زخمی ہوتے ہی باقی ۶۹ آدمی چھت پر چڑھ گئے اور اوپر سے مسلم کے اوپر آگ اور پتھر برسانے لگے ،مسلم نے یہ بزدلی دیکھی تو گلی میں نکل آئے اور بڑا پرزور مقابلہ کیا، شامی دستہ کے امیر محمد بن اشعث نے کہا کہ تنہا کب تک مقابلہ کروگے جان دینے سے کیا فائدہ میں تمیں امان دیتا ہوں ،سپر ڈال دو اوراپنے کو بیکار ہلاک نہ کرو، مسلم نے اس کے جواب میں نہایت بہادرانہ رجز پڑھا، لیکن محمد بن اشعث نے یقین دلایا کہ تمہارے ساتھ کوئی فریب نہ کیا جائے گا، مقابلہ سے باز آجاؤ،مسلم زخموں سے چور ہوچکے تھے،مزید مقابلہ کی طاقت باقی نہ تھی، اس لئے مکان کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے،محمد بن اشعث نے پھر امان کی تجدید کی،لیکن عمرو ابن عبید اللہ سلمی نے اسے تسلیم نہ کیا اورمسلم کی سواری کے لئے اونٹ تک مہیا نہ کیا؛چنانچہ اس خستہ حالت میں ان کو خچر پر سوار کرکے تلوار چھین لی گئی،تلوار چھننے سے مسلم کو اپنی زندگی سے مایوسی ہوگئی، اوربادیدہ پرنم کہا یہ پہلا دھوکا ہے، محمد بن اشعث نے پھر اطمینان دلایا،لیکن مسلم بہت مایوس تھے،بولے اب امان کہاں اس کی طرف آس ہی آس ہے،عمرو ابن عبید اللہ نے اشکباری پر طعنہ دیا کہ خلافت کے مدعی کو مصائب سے گھبراکر رونانہ چاہیے ،مسلم نے کہا میں اپنے لئے نہیں روتا ہوں ؛بلکہ اپنے گھر والوں کے لئے روتا ہوں جو تمہارے یہاں آرہے ہیں حسینؓ کے لئے روتا ہوں ،آل حسینؓ کے لئے روتا ہوں، پھر محمد بن اشعث سے کہا میرا بچانا تمہارے بس سے باہر ہے،البتہ اگر تم سے ہوسکے تو میرے بعد اتنا کام کرنا کہ حسینؓ کو میری حالت کی خبر کرکے یہ پیام بھجوادینا کہ وہ اپنے اہل بیت کو لے کر لوٹ جائیں اور کوفہ والوں پر ہرگز ہرگز اعتماد نہ کریں، محمد بن اشعث نے کہا خدا کی قسم جس طرح بھی ہوسکے گا یہ پیام ضرور پہنچاؤں گا ، محمد بن اشعث نے یہ وعدہ پورا بھی کیا جس کا ذکر آئندہ آئے گا۔ مسلم کو امان دینے کے بعد محمد بن اشعث انہیں قصرامارت میں لایا،اورابن زیاد سے کہا کہ میں مسلم کو امان دے چکا ہوں،لیکن ابن زیاد نے اسے تسلیم نہیں کیا اورکہا تم کو امان دینےکا اختیارنہ تھا ،میں نے تم کو صرف گرفتار کرنے کے لئے بھیجا تھا، اس کی ڈانٹ سُن کر محمد بن اشعث خاموش ہوگئے،مسلم بن عمرو باہلی نے جواب دیا دیکھتے ہو کتنا ٹھنڈا پانی ہے لیکن ا س میں سے تم کو ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا، تم کو اس کے عوض آتش دوزخ کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، اس کے اس کہنے پر مسلم نے پوچھا تم کون ہو؟ ابن عمرونے جواب دیا میں وہ ہوں جس نے حق کو اس وقت پہچاناجب تم نے اسے کوچھوڑا اورامت مسلمہ اورامام وقت کا خیر خواہ رہا جب تم نے ان کے ساتھ گھاٹ کی اوراس کا مطیع و منقاد رہا، جب تم نے سرکشی کی میں مسلم بن عمرو ہوں مسلم بن عقیل نے یہ جواب سن کر کہا تیری ماں تجھے روئے تو بھی کس قدر سنگ دل،قسی القلب، ظالم اور درشت خو ہے، ہاہلہ کے بچے تو مجھ سے زیادہ کھولتے ہوئے پانی اوردائمی دوزخ کا مستحق ہے۔