انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حق پرورش کے لیے شرطیں warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. حق پرورش کے لیے ضروری ہے کہ جس کی پرورش کی جائے وہ نابالغ ہو اوراگر بالغ ہو تو معتوہ ہو (عقل وہوش کے اعتبار سے متوازن نہ ہو)۔ بالغ اورذی ہوش(رشید)لڑکے اورلڑکیاں والدین میں سے جس کے ساتھ رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں، لڑکے ہوں تو ان کو تنہا بھی رہنے کا حق حاصل ہے،لڑکی ہو تو اس کو تنہار رہنے کی اجازت نہ ہوگی۔ حوالہ وَلَا تَثْبُتُ الْحَضَانَةُ إلَّا عَلَى الطِّفْلِ أَوْ الْمَعْتُوهِ ، فَأَمَّا الْبَالِغُ الرَّشِيدُ ، فَلَا حَضَانَةَ عَلَيْهِ ، وَإِلَيْهِ الْخِيرَةُ فِي الْإِقَامَةِ عِنْدَ مَنْ شَاءَ مِنْ أَبَوَيْهِ ، فَإِنْ كَانَ رَجُلًا ، فَلَهُ الِانْفِرَادُ بِنَفْسِهِ ، لِاسْتِغْنَائِهِ عَنْهُمَا ، وَيُسْتَحَبُّ أَنْ لَا يَنْفَرِدَ عَنْهُمَا ، وَلَا يَقْطَعَ بِرَّهُ عَنْهُمَا وَإِنْ كَانَتْ جَارِيَةً لَمْ يَكُنْ لَهَا الِانْفِرَادُ وَلِأَبِيهَا مَنْعُهَا مِنْهُ ؛ لِأَنَّهُ لَا يُؤْمَنُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهَا مَنْ يُفْسِدُهَا ، وَيُلْحِقُ الْعَارَ بِهَا وَبِأَهْلِهَا ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا أَبٌ ، فَلِوَلِيِّهَا وَأَهْلِهَا مَنْعُهَا مِنْ ذَلِكَ۔(المغنی كِتَابُ النَّفَقَاتِ:۲۲۴/۱۸) بند حق پرورش کے لیے کچھ شرطیں وہ ہیں جو عورتوں اورمردوں دونوں کے لیے ضروری ہیں، کچھ شرطیں مردوں سے متعلق ہیں اورکچھ عورتوں سے متعلق،عورتوں اورمردوں کے لیے مشترکہ اوصاف میں سے یہ ہے کہ پرورش کرنے والا عاقل و بالغ ہو۔ حوالہ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ وَعَنْ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْحَدُّ ۱۳۴۳) بند بعض لوگوں نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ فاسق نہ ہو، لیکن حافظ ابن قیمؒ کا خیال ہے کہ فسق جتنا عام ہے،اس کے تحت اس قسم کی شرط لگانا بچوں کے حق میں مفید نہ ہوگا، اس لیے بھی کہ اکثر اوقات فاسق وفاجر ماں باپ بھی اپنے بچوں کے لیے فسق وفجور کی راہ کو پسند نہیں کرتے۔ حوالہ والعادة شاهدة بأن الرجل لو كان من الفساق فإنه يحتاط لابنته ولا يضيعها (فقہ السنہ:۲/۳۴۲) بند حقیقت یہ ہے کہ ابن قیمؒ کی رائے عین قرین قياس ہے،بشرطیکہ پرورش کرنے والی ایسی پیشہ ورفاسقہ نہ ہو کہ اس سے اپنے زیر پرورش بچوں کو غلط راہ پر ڈال دینا غیر متوقع نہ ہوحوالہ وَعَلَى هَذَا فَالْمُرَادُ فِسْقٌ يَضِيعُ الْوَلَدُ بِهِ(ردالمحتار،باب الحضانۃ۲۲/۱۳) بند امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک جب تک بچوں میں دین کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہ ہوجائے کافرہ ماں کو بھی بچہ پر حق پرورش حاصل ہے،ہاں اگر عورت مرتد ہوجائے تو اس کو حق پرورش بھی باقی نہ رہے گا،غلامی بھی حق پرورش میں مانع ہے،غلام یا باندی اس حق سے محروم رہیں گے، کہ وہ بچہ کی مناسب پرورش وپرداخت کے لیے وقت فارغ نہیں کرسکتے۔ حوالہ والذمية أحق بولدها المسلم مالم يعقل الأديان أو يخاف أن يألف الكفر للنظر قبل ذلك واحتمال الضرر بعده ولا خيار للغلام والجارية۔(ھدایہ ، باب الولد من احق به ؟:۳۸۳/۱) بند عورتوں کے لیے حق پرورش کی خاص شرط یہ ہے کہ وہ بچہ کی محرم رشتہ دار ہو۔ حوالہ ان تکون المرأۃ ذات رحم محرم من الصغار(بدائع الصنائع:فَصْلٌ في بَيَان مَنْ لَهُ الْحَضَانَةُ ۲۳۴/۸) بند دوسرے اس نے کسی ایسے مرد سے نکاح نہ کیا ہو،جو اس زیر پرورش بچہ کا محرم نہ ہو، اگر ایسے اجنبی شخص سے نکاح کرلیا تو اس کا حق پرورش ختم ہوجائے گا، ہاں اگر اس کا نیا شوہر بچہ کا محرم ہو، جیسے بچہ کے چچا سے نکاح کرلے،یا بچہ کی نانی اس کے دادا سے نکاح کرلے تو اس کے حق پرورش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، روایت موجود ہے کہ ایک خاتون کو حق پرورش دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا تھا: أنت احق بہ مالم تنکحی حوالہ (ابو داود بَاب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ ۱۹۳۸) بند مردوں کو حق پرورش حاصل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اگر زیر پرورش لڑکی کا مسئلہ ہو تو وہ مرد اس کا محرم ہوتا ہو،البتہ اگر کوئی دوسرا پرورش کنندہ موجود نہ ہو اور قاضی مناسب سمجھے اور مطمئن ہو تو وہ چچازاد بھائی کے پاس بھی لڑکی کو رکھ سکتا ہے،لڑکی کا حق پرورش جس کو دیا جائے ضروری ہے کہ وہ مرد امین اور قابل اعتماد ہو، یہاں تک کہ بھائی اور چچا ہی کیوں نہ ہو لیکن فسق وخیانت کی وجہ سے اس پر اطمینان نہ محسوس کیا جائے تو اسے حق پرورش حاصل نہ ہوسکے گا۔