انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حسن معاملت ادائے قرض کا خیال حدیث شریف میں آیا ہے: خیارکم،احاسنکم ،قضاء (ترمذی کتاب البیوع) تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض ادا کرنےمیں بہتر ہیں۔ یہ حدیث عملی حیثیت سے صرف صحابہ کرام پر صادق آتی ہے، حضرت زبیرؓ جب جنگِ جمل میں شریک ہوئے تو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو بلاکر کہا کہ آج صرف ظالم یا مظلوم قتل ہوں گے میرا خیال ہے کہ میں بھی مظلومانہ شہید ہوں گا، مجھ کو سب سے زیادہ اپنے قرض کی فکر ہے ،ہماری جائداد فروخت کرکے سب سے پہلے قرض ادا کرنا اوراگر تم مجبور ہوجاؤ تو ہمارے مولا(اللہ) سے مدد چاہنا۔ (بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ المغازی فی مالہ حیاو میتا مع النبی ﷺ) حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے نہایت دیانت کے ساتھ اس کی تعمیل کی؛ چنانچہ جب باپ کا کل قرض ادا کرچکے تو ان کے بھائیوں نے کہا اب ہماری میراث تقسیم کرو؛لیکن انہوں نے کہا کہ جب تک چار سال تک موسم حج میں یہ اعلان نہ کرلوں گا کہ زبیر پر جس کا قرض آتا ہو وہ ہم سے آکر لے لے وراثت تقسیم نہ کروں گا، چنانچہ چارسال تک برابر یہ منادی کرتے رہے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت زبیرؓ) حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن حرام غزوہ ٔاُحد کے لئے نکلے تواپنے بیٹے حضرت جابرؓ کو بلاکر کہا کہ میں ضرور شہید ہوں گا، مجھ پر جو قرض ہے اس کو ادا کرنا اوراپنے بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ (سدالغابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمروبنؓ حرام) چنانچہ حضرت عبداللہ ؓ نے چھ لڑکیاں چھوڑی تھیں جن کی کفالت کا بار حضرت جابرؓ پر تھا لیکن جب فصل خرما تیار ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے باپ کا قرض ادا کیا اوراس دیانت کے ساتھ اداکیا کہ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں اس پر راضی تھا کہ میرے باپ کی امانت ادا ہوجائے اور میں اپنی بہنوں کے پاس ایک کھجور لے کر بھی نہ پلٹوں۔ (بخاری ذکر غزوہ احد باب اذہمت طائفتان منکم ان تفتلا واللہ ولیہا الآیہ) ایک بار حضرت ابوالملیح بن عروہ بن مسعودؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنے باپ عروہ کا قرض ادا کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا ہاں حضرت قارب بن اسودؓ نے کہا تو اسود کا قرض بھی ادا کیجئے، آپﷺ نے فرمایا لیکن اسود نے شرک کی حالت میں انتقال کیا تھا، حضرت قاربؓ نے کہا ان کا بیٹا یعنی میں تو مسلمان ہوں ان کے قرض کا بار مجھ پر ہے اور مجھی سے اس کا تقاضا کیاجائے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت قارب بن اسودؓ) جب حضرت عمرؓ کو زخم لگا،اوران کو زندگی سے مایوسی ہوئی تو حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ کو بلاکر پوچھا کہ دیکھو مجھ پر کس قدر قرض ہے، حساب لگایا گیا تو چھیاسی ہزارنکلا فرمایا کہ اگر آل عمرؓ کے مال سے ادا ہوجائے تو خیر ورنہ بنوعدی بن کعب سے درخواست اعانت کرنا،ان کی اعانت سے بھی کام نہ چلے تو قریش سے درخواست کرنا؛لیکن ان کے علاوہ کسی سے نہ مانگنا۔ (بخاری، کتاب المناقب باب قصۃ البقۃ) حضرت ابن حدرؓ پر ایک یہودی کے چار درہم قرض تھے، اس نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں استغاثہ کیا ،تو آپﷺ نے تین بار فرمایا کہ اس کا حق دیدو، انہوں نے کہا میرے پاس کچھ نہیں، آپ ﷺخاموش ہوگئے تو وہ خود اُٹھے اور بازار گئے سر سے اتار کر عمامہ کا تہبند بنایا اور اپنے تہبند کو چاردرہم پر فروخت کرکے اس کا قرض ادا کیا۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت عبداللہ بن ابی حدردؓ) حضرت عائشہؓ اکثر قرض لیا کرتی تھیں ان سے پوچھا گیا کہ آپ قرض کیوں لیتی ہیں؟ بولیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اپنے قرض کے ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے خدا اپنی جانب سے اس کا مددگار مقرر کردیتا ہے تو میں اسی مددگار کی جستجو کرتی ہوں۔ (مسند ابن حنبل،جلد۶،صفحہ۹۹) رسول اللہ ﷺ جب قرض ادا فرماتے تھے تو بہترین مال دیتے تھے ،ایک بار آپ ﷺنے کسی سے اونٹ لیا تھا،صدقہ کے اونٹ آئے تو اس کو اس سے بہتر اونٹ دیا اور فرمایا: خیار الناس احسنھم قضاء (ابوداؤد کتاب البیوع باب فی حسن القضاء) بہترین لوگ وہ ہیں جو قرض اچھے طریقے سے ادا کرتے ہیں صحابہ کرام کا عمل بھی اسی حدیث پر تھا، ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓنے کسی سے چند درہم قرض لیے،قرض ادا کیا تو اس سے بہتر درہم دیئے، اس نے کہا، آپ کے درہم تو میرے درہم سے اچھے ہیں، بولے مجھے معلوم ہے؛لیکن میں نے بخوشی دیئے ہیں۔ (موطا محمد، کتاب الصرف وابواب الربواہ باب الرجل یکون علیہ الدین فیقضی افضل مما اخذۃ) ایک بار انہوں نے کسی سے دوہزار درہم قرض لیے ادا کیا تو دوسو درہم زیادہ دیے، اس نے کہا کہ آپ کے دوسو درہم زیادہ ہیں بولے وہ تمہارے ہیں۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) قرض داروں کو مہلت دینا قرض داروں کو قرض ادا کرنے کے لئے مہلت دینا بڑے ثواب کا کام ہے اورخود قرآن مجید نے اس کی ہدایت کی ہے: وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَیْسَرَۃٍ۔ (البقرۃ:۲۸۰) اگر قرض دارتنگدست ہوتو اس قدر مہلت دو کہ اس کا ہاتھ کھل جائے۔ لیکن اس کی توفیق ان ہی لوگوں کو ہوتی ہے جن کے دلوں میں لطف و محبت اوررحم وشفقت کا مادہ ہوتا ہے، اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے قلوب کو ان جذبات سے معمور کرکے ان کو اس کارخیر کی توفیق عطا فرمائی تھی،ایک شخص پر حضرت ابوقتادہ ؓ کا قرض آتا تھا وہ تقاضے کو آتے تھے تو غریب گھر میں چھپ جاتا تھا، حسن اتفاق سے ایک دن آئے اور اس کے بچے سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟اس نے کہا گھر میں کھانا کھارہے ہیں،بلا کر پوچھا،مجھ سے کیوں چھپتے ہو، بولا سخت تنگ دست ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے، حضرت قتادہؓ آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے قرض دار کو مہلت دیتا ہے یا قرض معاف کردیتا ہے وہ قیامت کے دن عرش کے سایہ میں ہوگا۔ (مسند ابن حنبل،جلد۵،صفحہ ۳۰۸) حضرت ابو الیسرؓ پر حضرت سمرہؓ کا قرض تھا وہ تقاضے کو آئے تو وہ چھپ گئے حضرت سمرہؓ تیزی کے ساتھ واپس ہوئے تو حضرت ابوالیسرؓ سمجھے کہ وہ نکل گئے ،جھانک کر دیکھا تو ان سے آنکھیں چار ہوگئیں، بولے کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنا ہے کہ جو شخص تنگدست کو مہلت دے گا اللہ تعالی اس کو اپنے سایہ میں لے گا؟ حضرت سمرہؓ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے آپ سے یہ سنا ہے۔ (اصابہ تذکرہ سمرہ بن ربیعہ) قرض معاف کردینا صحابہ کرام نہایت فیاض، نرم خو اوررحمدل تھے، اس لئے قرض کو معاف فرمادیتے تھے۔ ایک بار حضر کعب بن مالکؓ نے مسجد نبویﷺ میں ایک صحابی پر قرض کا تقاضا کیا شور وغل ہوا تو کاشائنہ نبوت میں آواز پہنچی آپ نے پردہ اُٹھا کر فرمایا، کعب آدھا قرض معاف کردو بولے معاف ہے۔ (ابوداؤد کتاب الاقضیہ باب فی الصلح) حضرت زبیرؓ پر حضرت عبداللہ بن جعفر کا چار لاکھ قرض تھا، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ادا کرنا چاہا تو بولے کہ اگر کہو تو معاف کردوں۔ (بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی فی مالہ حیاویتا) حضرت ام سلمہؓ نے ایک غلام کو مکاتب بنایا اس نے جب بدل کتابت ادا کرنا چاہا تو کہا کہ اس میں کچھ کمی کردیجئے انہوں نے کم کردیا۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ نصاح بن سرجس) ایک شخص پر حضرت ابولیسرؓ کا قرض آتا تھا وہ تقاضے کو آئے تو اس نے لونڈی سے کہلوایاکہ وہ گھر میں نہیں ہیں، انہوں نے آواز سن لی اورکہا کہ گھر سے نکلومیں نے تمہاری آواز سن لی وہ گھر سے نکلا تو بولے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا کہ تنگدستی نے مجبور کیا، بولے اللہ اللہ !جاؤ تمہارا قرض معاف ہے ،میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس نے تنگدست کو مہلت دی یا قرض معاف کردیا وہ قیامت کے دن خدا کے سایہ میں ہوگا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت ابوالیسرؓ) ایک شخص پر حضرت امام حسن علیہ السلام کا قرض آتا تھا، انہوں نے کل قرض ان پر ہبہ کردیا۔ (بخاری کتاب الہبہ باب اذا دہب دینا علی اجل) دوسرے کی جانب سے قرض ادا کرنا صحابہ کرام اپنے قرض دار بھائیوں کو قرض کی مصیبت اور قرض خواہوں کے تشدد سےبچایا کرتے تھے، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فلاں قبیلہ کا کوئی شخص ہے؟ ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ میں ہوں، ارشاد ہوا کہ تمہارا بھائی قرض میں ماخوذ ہے انہوں نے اس کا کل قرض ادا کردیا۔ (ابوداؤد کتاب البیوع باب فی التشدید نی الدین) ایک دفعہ ایک شخص کا جنازہ آیا، جس پر تین دینار قرض تھا، آپ نے نماز جنازہ پڑھانے سے انکار فرمایا تو حضرت ابو قتادہ انصاری ؓ نے کہا یا رسول اللہ میں اس کا قرض ادا کردوں گا، اب آپ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (بخاری کتاب الحوالۃ باب اذا حال دین المیت علی رجل جار) ایک صحابی نے باغ خریدا کوئی اُفق آئی اور تمام پھل ضائع ہوگیا، اب قیمت کیونکر اداکرتے ،رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ قرض کے بوجھ سے پریشان ہیں، تمام صحابہ کو حکم دیا کہ سب لوگ اعانت کریں، تمام صحابہ نے کچھ نہ کچھ اس میں حصہ لیا۔ (ابوداؤد کتاب البیوع باب فی وضع الجائحۃ) وصیت کا پورا کرنا وصیت چونکہ وراثت سے پوری کی جاتی ہے،اس لیے اکثر ورثا اس کو پورا نہیں کرتے کہ مال وراثت میں کمی نہ آنے پائے؛لیکن صحابہ کرام نہایت دیانت کے ساتھ وصیت کو پورا کرتے تھے، عاص بن وائل نے وصیت کی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد سو غلام آزاد کیے جائیں ،اس کے بیٹے ہشام نےپچاس غلام آزاد کردیے ان کے دوسرے بیٹے حضرت عمروبن العاص ؓ نے اپنے حصہ کے بقیہ بچاس غلام آزاد کرنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا،آپ ﷺنے فرمایا، اگر وہ مسلمان ہوتا اورتم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے ،صدقہ کرتے، حج کرتے تو اس کو ثواب ملتا۔ (ابوداؤد کتاب الومایاباب فی وصیۃ الحربی لیلم دولیہ ایلزمہ ان ینفذہا) عورتوں کا مہر ادا کرنا ہم نے عورتوں کے تمام حقوق سلب کرلیے ہیں، بالخصوص مہر تو بالکل نسیامنسیا ہوگیا؛ لیکن صحابہ کرام نہایت دیانتداری کے ساتھ عورتوں کا مہر ادا کرتے تھے اور اسی طرح ادا کرتے تھے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کی شادی کردی، مہر متعین تھا، اوراب تک عورت کو کچھ نہیں دیا تھا کہ موت کا پیغام آپہنچا، موت کے وقت وصیت کی کہ خیبر میں ہمارا جو حصہ ہے وہ عورت کو مہر میں دےدیا جائے،عورت نے اس کو فروخت کیا تو ایک لاکھ درہم قیمت ملی۔ (ابوداؤد کتاب النکاح فیمن تزوج ولم لیم صداقاحتی امات) بی بیوں کے درمیان عدل کرنا متعدد بیویوں کے درمیان عدل کرنا بڑا مشکل کام ہے،خود اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ۔ (النساء:۱۲۹) اورتم لوگ متعدد عورتوں کے درمیان عدل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ لیکن صحابہ کرام اس مشکل کو آسان کرنے کی کوشش کرتے تھے ، حضرت معاذ بن جبلؓ کو دو بی بیاں تھیں ، وہ ان دونوں کے درمیان اس شدت کے ساتھ عدل کرتے تھے کہ جب ایک کی باری ہوتی تو اس دن نہ دوسری کے گھر کا پانی پیتے تھے، نہ اس کے گھر کےپانی سے وضو کرتے تھے۔ (نزہتہ الابرار فی الاسامی ومناقب الاخیار تذکرہ حضرت معاذ بن جبلؓ) خرید وفروخت میں نرمی صحابہ کرام خرید وفروخت میں نہایت انسانیت مروت اورمسامحت سے کام لیتے تھے،حضرت عثمانؓ نے ایک صحابی سے ایک قطعہ زمین خریدی؛ لیکن قبضہ کرنے میں دیر لگائی، انہوں نے وجہ پوچھی تو بولے، لوگ مجھ کو ملامت کررہے ہیں کہ ٹھگ گئے، بولے اگر یہی بات ہے تو قیمت واپس کرلیجئے، اس کے بعد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ خدا اس بندے کو جنت میں داخل کرے گا جو خرید و فروخت اورمعاملات میں نرم خو ہو۔ (مسند ابن حنبل،جلد۱صفحۃ۵۸،عثمان بن عفانؓ) ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک قمیص خرید کر واپس کرنا چاہی؛ لیکن دیکھا تو اس میں خضاب کا رنگ لگ گیا تھا،اس لیے اس کو واپس نہیں کیا۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ) تقسیم وراثت میں دیانت جو لوگ اپنی اولاد میں کسی کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں، اس کو زیادہ حقوق عطا کرتے ہیں، صحابہ کرام بھی اپنی بعض اولاد کو زیادہ محبوب رکھتے تھے، لیکن اس محبت کی وجہ سے وہ حقوق ادا کرنے میں ناانصافی نہیں کرتے تھے،حضرت ابوبکرصدیقؓ نے حضرت عائشہؓ کو کچھ مال دیا تھا؛لیکن اب تک ان کا قبضہ نہیں ہواتھا، اس لیے ہبہ نا مکمل تھا ،جب انتقال کرنے لگے تو کہا کہ اے بیٹی! مجھے اپنے بعد تمہاری خوشحالی سے زیادہ کوئی چیز عزیزنہیں اور تمہارے افلاس سے زیادہ کوئی چیز ناگوار نہیں ہے ،میں نے تم پر جو مال ہبہ کیا تھا اگر تمہارا اس پر قبضہ ہوجاتا تو وہ تمہارا ہوجاتا ؛لیکن آج وہ مال وراثت میں داخل ہے جس کے وارث تمہارے دوبھائی اوردو بہنیں ہیں، اس لئے کتاب اللہ کے موافق باہم تقسیم کرلوحضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اگر اس سے زیادہ مال ہوتا تو میں اس کو بھی چھوڑدیتی۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیہ باب مالا یجوز من النحل) ظلم و غصب سے اجتناب صحابہ کرام دوسرے کے حق سے ایک ذرہ بھی لینا گوارا نہیں کرتے تھے، ایک بار ایک عورت نے حضرت سعید بنؓ زید بن عمروبن نفیل پر ایک گھر کے بارے میں دعویٰٰ کیا،حضرت سعید نے فرمایا کہ گھر اس کو لے لینے دو؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص ناحق کسی کی بالشت بھر زمین بھی لے لے گا، قیامت کے دن خدا زمین کے ساتوں طبقوں کو اس کے گلے کا طوق بنائے گا ،خدایا! اگر وہ جھوٹی ہے تو اس کو اندھا کردے اوراسی گھر میں اس کی قبر بنادے، راوی کا بیان ہے کہ میں نےاس کو دیکھا کہ اندھی ہوگئی تھی اور دیوار پکڑ کر چلتی تھی اورکہتی تھی کہ مجھ پر سعید بن زید کی بددعا پڑ گئی، ایک دن وہ اٹھی گھر میں کنواں تھا، اس میں گر پڑی اوروہی اس کی قبر بنا۔ (مسلم کتاب البیوع باب غزرا لشب فی جدار الجاروبخاری کتاب الغصب مختصرا) قسم کھانے سے اجتناب جو لوگ امانت میں خیانت کرنےوالےیا دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں، ایسے لوگ معاملات میں قسم کھانے سےپرہیزبھی نہیں کرتے ، اسی بناپر اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا: وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ ۔ (القلم:۱۰) بات بات پر قسم کھانے والے ذلیل شخص کی بات نہ مانو۔ یہی وجہ ہے کہ محتاط لوگ سچی قسم کھانے سے بھی احتراز کرتے ہیں، صحابہ کرام بھی تقوی وپرہیزگاری کی بنا پر قسم کھانے سے اجتناب فرماتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک غلام آٹھ سودرہم پر اس شرط کے ساتھ کہ اس میں کوئی عیب نہیں فروخت کیا ،بعد کو مشتری نے دعویٰ کیا کہ اس غلام میں ایک بیماری ہے، حضرت عثمانؓ کی خدمت میں مقدمہ پیش ہوا اورانہوں نے قسم لینا چاہی؛ لیکن انہوں نے قسم کھانے سے انکار کردیا اورغلام کو واپس لے لیا، جب وہ اچھا ہوگیا تو پھر پندرہ سو درہم پر فروخت کیا، اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ اس بات کا معاوضہ تھا کہ انہوں نے باوجود سچے ہونے کے قسم کھانا ایک بڑی بات سمجھا۔ (موطا امام مالک کتاب البیوع باب العیب فی الرقیق مع زرقانی) مروان نے ایک مقدمہ میں حضرت زید بن ثابتؓ سے منبر مسجد نبوی ﷺ پر قسم لینا چاہی ،انہوں نے اس کے سامنے تو قسم کھالی؛ لیکن منبر شریف پر قسم کھانے سے انکار کیا۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیہ باب ماجاء فی الیمین علی المنبر)