انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** زید بن علی رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ساتھ کربلا میں اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ میں حکومتِ بنواُمیہ کی طرف سے جوسلوک ہوا اس نے اور اس کے بعد حجاج وغیرہ نے حجاز وعراق میں جس قسم کا طرزِ عمل اختیار کیا تھا اس نے حجاز وعراق کے عرب قبائل کواوّل خوف مدہ بناکر خاموش کردیا تھا اس کے بعد ایصالِ زراور مال ودولت کے استعمال نے یہ اثر پیدا کیا کہ لوگوں کے دلوں میں بنواُمیہ کی طرف سے حاسدانہ جذبہ پیدا ہوکر اندر ہی اندر بنواُمیہ کے ساتھ خلوص وہمدردی دلوں سے دور ہونے لگی، ہشام کی حکومت بست سالہ کا زمانہ بظاہر امن وسکون اور اطمینان کا زمانہ تھا اب عراق وحجاز میں حجاج وابن زیادہ وغیرہ سخت گیروتشدد پسند حکمراں بھی نہ تھے، بنوہاشم کورہ رہ کراپنی بربادیوں اور بنواُمیہ کی کامیابیوں کا خیال آتا تھا، وہ تمام ان لوگوں کوجوبراہِ راست حکومتِ وقت سے کوئی غیرمعمولی فائدہ نہیں اُٹھارہے تھے، اپنا ہمدرد دیکھتے تھے، خوف ودہشت کا پتھر بھی چھاتی سے اُترچکا تھا؛ لہٰذا بنوہاشم نے بنواُمیہ کی حکومت مٹانے اور خود حکومت حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے سے ان کوتجربہ تھا کہ حکومتوں کے مٹانے اور فنا کرنے کے لیے تلوار سے زیادہ تدبیر کارگر ہوتی ہے؛ لہٰذا سازشوں اور خفیہ کاروائیوں کا سلسلہ مور شور سے شروع کیا گیا یہ کام بنوہاشم کے دوخاندانوں نے ایک ہی وقت میں شروع کیا، یعنی علی بن ابی طالب اور عباس بن عبدالمطلب کی اولادوں نے جدا جدا کوششیں شروع کیں، عباسیوں کی کوششوں کا بیان آگے آئے گا، اس وقت علویوں یعنی فاطمیوں کی ایک کوشش کا تذکرہ مقصود ہے، اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یوسف بن عمر ثقفی کوہشام بن عبدالملک نے عراق کا حاکم مقرر کیا تھا، اس کے عہد امارت یعنی سنہ۱۲۲ھ میں زید بن علیؓ، حسینؓ بن علیؓ بن ابی طالب نے مخفی طور پرلوگوں سے بیعت لینی شروع کی، مذکورہ اسباب کی بناپرچونکہ اُمیہ کی قبولیت اس قدر کمزور ہوچکی تھی کہ اس بیعت میں زید بن علی کوبڑی کامیابی ہوئی، شہر کوفہ میں زید بن علی کے ہاتھ پرپندرہ ہزار آدمیوں نے بیعت کی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی زید بن علی کے حامیوں میں تھے، جولوگ گزشتہ زمانے کے حالات پرنظر رکھتے تھے، انھوں نے زید بن علی کوخروج سے باز رکھنے اور ابھی انتظار کرنے کا مشورہ دیا؛ لیکن زید بن علی نے اس مشورہ پرعمل نہ کیا؛ انھوں نے کوفہ میں خروج کیا، یوسف بن عمر ثقفی نے اس بغاوت کودبانے کی کوشش کی، معرکہ آرائی تک نوبت پہنچی، کوفیوں نے جس طرح حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور مصحف بن زبیر رضی اللہ عنہ کودھوکہ دیا تھا اسی طرح زید بن علی کوبھی دھوکہ دیا، جب تلوار چلانے اور مردانگی کے جوہر دکھانے کا وقت آیا توانہوں نے زید بن علی کے ساتھ طالب علمانہ کج بحثی شروع کی، ان سے سوا کیا کہ پہلے آپ یہ فرمایے کہ صدیق اعظم رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کوکیسا سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے خاندان میں کسی کوان دونوں حضرات کی نسبت برا کہتے نہیں سنا، کوفیوں نے کہا کہ جب خلافت کے اصل حق دار آپ ہی کے خاندان والے تھے اور ان دونوں کے خلافت پرقابض ہوجانے سے وہ ناراض نہ ہوئے تواب اگربنواُمیہ نے بجائے آپ کے خلافت پرقبضہ کرلیا ہے توآپ ان کوکیوں برا کہتے؟ اور ان سے لڑتے ہیں؟ یہ کہہ کر بیعت فسخ کرکے چل دیے اور زید بن علی نے ان کورافضی کا خطاب دیا۔ صرف دوسوبیس آدمی زید بن علی کے ساتھ رہ گئے، ان مٹھی بھر آدمیں سے زید بن علی نے یوسف ثقفی کی کئی ہزار فوج کا مقابلہ کیا؛ غرض کوفہ کی گلیوں میں وہ ایک ایک شخص کے گھر پرپپہنچ کرآواز دیتے اور عہد بیعت یاد دلاکر اپنی حمایت کے لیے بلاتے تھے؛ مگر کوئی نہیں نکلتا تھا، آخر کئی مرتبہ گورنرعراق کی فوجوں کوشکست دینے کے بعد وہ فوت ہوئے، ان کی پیشانی میں ایک تیرآکر لگا جس کے صدمہ سے جاں بز نہ ہوسکے، یوسف بن عمر ثقفی نے ان کا سرکٹواکر ہشام بن عبدالملک کے پاس دمشق بھجوادیا، زید بن علی کے صاحبزادے یحییٰ بن زید اپنے باپ کے فوت ہونے کے بعد اوّل نینوا کی طرف جاکر روپوش رہے؛ پھرموقع پاکر خراسان چلے گئے، زید بن علی کی یہ کوشش عجلت اور ناعاقبت اندیشی کے سبب ناکام رہی؛ لیکن اس سے عباسیوں نے فائدہ اُٹھانے میں کمی نہیں کی، ان کوزیادہ احتیاط برتنے اور زیادہ دوراندیشی سے کام لینے کی ترغیب ہوئی اور وہ اس بات کا بھی صحیح اندازہ نہ کرسکے کہ ملک میں بنواُمیہ کے اثرواقتدار کی اب کیا کیفیت ہے، زید بن عبدالملک نے زید بن علی کے کٹے ہوئے سرکودمشق کے دروازے پرلٹکادیا اور یوسف ثقفی نے زید بن علی کے ہمراہیوں کی لاشوں کوکوفہ میں سولی پرلٹکادیا جوبرسوں وہاں لٹکتی اور لوگوں کوبنواُمیہ سے متنفر اور بنوہاشم کا ہمدرد بناتی رہیں۔