انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
زکوۃ اورصدقہ فطر کے متعلق کچھ نئے مسائل سونے چاندی کا نصاب سونے اور چاندی کے سلسلہ میں ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جونصاب متعین فرمایا ہے، وہ قدیم عربی اوزان کے لحاظ سے ہے؛ چنانچہ دوسودرہم چاندی اور بیس مثقال سونے کووہ کم سے کم مقدار قرار دیا گیا ہے، جس پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور بازار میں اوزان کی تبدیلی کی وجہ سے مذکورہ مقدار کی تعیین میں تبدیلی ہوجاتی ہے؛ چنانچہ ہندوستانی اوزان کے حساب سے سونے چاندی کے نصاب کے سلسلے میں علماء کرام ومفتیانِ عظام نے یہ مقدار متعین کی تھی کہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے؛ مگراس زمانے میں اس مقدار کی تعیین میں کچھ تبدیلی آئی ہے کہ سونے کا نصاب تقریباً نوتولہ اور چاندی کا نصاب تقریباً ترسٹھ تولہ ہوتا ہے؛ اس لیے کہ پہلے ایک تولہ بارہ ماشہ کا ہوا کرتا تھا؛ مگراب ایک تولہ دس ماشے کا ہوتا ہے؛ لہٰذا جونوتولہ سونا یاترسٹھ تولہ چاندی یااس کی مالیت کے بقدر روپیہ پیسہ وغیرہ کا مالک ہو اس پرزکوٰۃ واجب ہوگی۔ (ملخص جدید فقہی مسائل:۱/۲۰۱) زکوٰۃ میں کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟ ایسے سامانِ تجارت جن کی فروختگی دیر سے عمل میں آئے، ان کی زکوٰۃ نکالنے میں اس کی قیمتِ خرید معتبر نہ ہوگی؛ بلکہ موجودہ قیمت کے ذریعہ زکوٰۃ ادا کرے؛ اس لیے کہ شریعت میں اصلاً توخود وہ شئی واجب ہوتی ہے، جس کی زکٰوۃادا کررہا ہے، قیمت تومحض اس کا بدل اور عوض ہے؛ لہٰذا ضروری ہے کہ ادائیگی کے وقت اتنی رقم ادا کرے جس میں اس سامان کا بدل بننے کی صلاحیت موجود ہو، خاص طور پرجولوگ اراضی کا کاروبار کرتے ہوں ان کواسے ملحوظ رکھنا چاہئے کہ زکوٰۃ موجودہ قیمت کے لحاظ سے ادا کرنی چاہئے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۹) مدارس، مساجد،قومی ورفاہی، بیت المال وغیرہ کی ملکیت پرزکوٰۃ مدارسِ اسلامیہ، مساجد اور دیگر قومی اور رفاہی فنڈبیت المال وغیرہ شخصِ حقیقی نہیں ہیں؛ بلکہ یہ سب اشیاء اشخاص حکمی میں شامل ہیں اور اسلامی شریعت نے زکوٰۃ کا فریضہ شخصِ حقیقی کی ملکیتِ تامہ پرواجب کیا ہے اور شخصِ حکمی کی ملکیت پرواجب نہیں کیا ہے، اس لیے مدارس، مساجد، قومی فنڈ اور بیت المال وغیرہ کی ملکیت پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ (ایضاح النوادر:۲/۲۳، ناشر:مکتبہ الاصلاح ، مرادآباد) رشوت اور مالِ حرام کی زکوٰۃ سود، مالِ رشوت اور مالِ حرام کا قابض شرعی طور پرمالک نہیں ہوتا ہے اور وجوب زکوٰۃ کے لیے ملکیتِ تامہ شرط ہے، اس لیے ایسے مال پرزکوٰۃ واجب نہیں ہوگی اور ایسے مال کے بارے میں حکمِ شرعی اور واجب یہی ہے کہ پورا مال اصلی مالک کوواپس کردیا جائے اور اگراصل مالک تک رسائی ممکن نہ ہوتو بلانیتِ ثواب نادار فقیر کوصدقہ کردینا واجب ہے اور اگرحاصل شدہ مال حرام کے بارے میں قابض اصل مالک کوتاوان وغیرہ دیکر بری ہوجاتا ہے یااس سے صلح کرکے اس کوراضی کرلیتا ہے توایسی صورت میں قابض مقبوضہ مال کا مالک ہوجائیگا اور اس پرزکوٰۃ بھی واجب ہوگی۔ (ایضاح النوادر:۲/۲۴، ناشر:مکتبہ الاصلاح ، مرادآباد) میکے اور سسرال کی طرف سے لڑکی کودیا گیا سامان کس کی ملکیت ہے؟ جوزیور لڑکی کواس کے میکے والوں کی طرف سے ملتا ہے اس میں عام رواج اور عرف یہی ہے کہ لڑکی اس زیور کی مالکہ ہوجاتی ہے اس لیے میکے کی طرف سے ملے ہوئے زیورات اگربقدر نصاب ہوں تواس کی زکوٰۃ ادا کرنا بیوی پرواجب ہوگا اور اگرشوہر کی طرف سے زیور ملا ہے تواس کی چار صورتیں ہیں: (۱)اگرشوہر یاشوہر کی طرف سے دینے والے نے یہ صراحت کردی ہے کہ یہ زیور لڑکی کودیدیا ہے اور یہ اس کا ہوگیا ہے تولڑکی اس کی مالک ہوجاتی ہے؛ لہٰذا اس کی زکوٰۃادا کرنا بھی لڑکی پرواجب ہوگا۔ (۲)شوہر یااس کی طرف سے دینے والے نے کوئی صراحت نہ کی ہو اور شوہر کی برادری اور قبیلہ کا رواج وعرف یہی چلا آرہا ہو کہ جوزیور وغیرہ دلہن (بہو) کودیا جاتا ہے وہ اسی کی ملکیت میں ہوجاتا ہے اور اتفاق سے علیحدگی کی نوبت آجائے توواپس لینا برادری میں برا مانا جاتا ہوتو ایسی برادری اور قبیلے میں شوہر کی طرف سے ملے ہوئے زیورات وغیرہ کی لڑکی مالک ہوجاتی ہے؛ لہٰذا اس کی زکوٰۃ بھی لڑکی ہی پرواجب ہوگی؛ لیکن ایسی برادری میں اگرشوہر نے دیتے وقت یہ کہہ دیا ہے کہ زیور تم کوصرف پہننے کے لیے دیا گیا ہے تم کومالک نہیں بنارہا ہوں توشوہر ہی مالک رہے گا؛ زکوٰۃ شوہر پرلازم ہوا کریگی۔ (۳)شوہر یا اسکی طرف سے دینے والے نے کوئی صراحت نہ کی ہو اور شوہر کی برادری اور قبیلے میں لڑکی کومالک بنانے کا رواج نہیں ہے تولڑکی اس زیور کی مالک نہیں ہوا کرتی ہے؛ بلکہ شوہر یاشوہر کی طرف سے چڑھانے والا ہی اس کا مالک ہوگا اور مالک ہی پرزکوٰۃ واجب ہوگی۔ (۴)شوہرکی برادری میں کسی قسم کا رواج اور عرف نہیں ہے یادونوں کا عرف ہے کہ کبھی لڑکی کومالک بنایا جاتا ہے اور کبھی مالک نہیں بنایا جاتا ہے تولڑکی کے مالک ہونے کے لیے شوہر کی طرف سے صاف الفاظ میں صراحت شرط ہے اور اگرشوہر نے کسی طرف سے چڑھاتے وقت کوئی صراحت نہ کی ہوتوایسی صورت میں لڑکی مالک نہ ہوگی؛ لہٰذا اس کی زکوٰۃ بھی لڑکی پرواجب نہ ہوگی؛ بلکہ جس کا زیور ہے اس پرواجب ہوگی۔ (ایضاح النوادر:۲/۱۲، ناشر:مکتبہ الاصلاح ، مرادآباد۔ فتاویٰ عثمانی:۲/۲۹۷) چوزوں اور مرغیوں پرزکوٰۃ کا حکم آج کل پولٹری فارم میں چوزے خرید کرجوپالے جاتے ہیں وہ کچھ ہفتوں کے بعد انڈے دینے کے قابل ہوکر کچھ مدت تک انڈے دیتے ہیں، ان انڈوں کی قیمت پرزکوٰۃ ہوگی؛ لیکن چوزوں اور مرغیوں پرزکوٰۃ نہیں ہے؛ البتہ جب ان کوفروخت کردیا جائیگا توان سے حاصل ہونے والے معاوضے پرزکوٰۃ ہوگی؛ اگرسال اسی وقت پورا ہورہا ہوتو اسی وقت؛ آئندہ کبھی پورا ہوتو اس وقت اس میں سے جتنی رقم باقی رہے اس پرزکوٰۃ ادا کی جائیگی۔ (فتاویٰ عثمانی:۲/۳۹) جہیز کے لیے خریدی ہوئی اشیاء پرزکوٰۃ کا حکم بچوں کی شادی کے لیے خریدے ہوئے پارچہ جات، ریفریجریٹر، اور دیگرگھریلو استعمال کی مشینیں وغیرہ پرزکوٰۃ نہیں ہے؛ البتہ زیور اور اُن کے لیے جمع کردہ رقم پرزکوٰۃ ہوگی۔ (فتاویٰ عثمانی:۲/۴۳) مکان کی تعمیر کے لیے جمع کی گئی رقم پرزکوٰۃ کا حکم زید تعمیرمکان کے لئے جورقم جمع کرتا ہے؛ اگر وہ رقم زکوٰۃ کے نصاب کوپہنچ جائے اور اس پرایک سال گزر جائے توزکوٰۃ واجب ہوگی۔ (فتاویٰ عثمانی:۲/۵۸) افریقہ وغیرہ بیرون ممالک والوں کا فطرہ یہاں پرکس گیہوں سے ادا کیا جائے بیرون ممالک کے باشندے اپنے خویش واقارب پرہندوستان میں فدیہ دینا چاہیں توبہتر یہ ہے کہ گیہوں دیدے اور قیمت دے تووہ قیمت لگائے جس میں صدقہ لینے والے غریبوں کا فائدہ ہو۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۷/۱۹۵) حج کے روپیہ پر زکوٰۃ جولوگ سفرِ حج کی سعادت کے لیے رقم جمع کرکے رکھے ہیں اور وہ ابھی تک ویزا یاٹکٹ وغیرہ کے لیے حوالہ نہیں کی گئی اور اپنے قبضے میں ہے اِس پرسال گزرجائے تواس کی زکوٰۃ دینا ہوگا؛ اسی طرح کچھ رقم دیدیا اور کچھ اس کے قبضے میں ہوتوجوقبضے میں ہے اس کی بھی زکوٰۃ دینا ہوگا۔ (مفہوم فتاویٰ محمودیہ :۹/۳۳۸) جس سودے پرقبضہ نہیں کیا، اس کی زکوٰۃ کسی شخص نے تجارتی سامان خرید کیا؛ لیکن ابھی قبضہ نہیں کرپایا تھا کہ وہ وقت آگیا جب اسے زکوٰۃ ادا کرنی ہوتی ہے توکیا ایسے شخص کواس سامان کی بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی جوابھی اس کے قبضہ میں نہیں آئی ہے، اس مسئلہ سے عام طور پروہ لوگ دوچار ہوتے ہیں جوبیرونِ ملک یاخود اندرونِ ملک دوردراز شہروں سے تجارت کیا کرتے ہیں، فقہاء حنفیہ کے یہاں اس سلسلہ میں صراحت ملتی ہے کہ اس طرح کے تجارتی مال پرجب تک قبضہ حاصل نہ ہوجائے، زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۹) مال تجارت کی زکوۃ میں اعتبار ہول سیل قیمت کا ہوگا یاریٹیل قیمت کا؟ اگرہول سیل تجارت ہوتوزکوٰۃ ادا کرتے ہوئے ہول سیل قیمت معتبر ہوگی اور اگرپھٹکر اور ریٹیل سیل کاکاروبار ہے تواسی لحاظ سے سامانِ تجارت کی قیمت لگائی جائے گی اور پھرزکوٰۃ ادا کی جائے گی..... اگردونوں طرح سامان فروخت کیا کرتا ہوتوپھٹکر قیمت کے لحاظ سے زکوٰۃ ادا کرے کہ اس میں فقراء کا فائدہ ہے اور اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ میں ہمیشہ اس پہلو کوترجیح دی جائے گی جس میں فقراء کا فائدہ ہو۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۰) حلال و حرام مخلوط مال پرزکوٰۃ اگرکسی شخص کے حلال وجائز مال کے ساتھ حرام مال کی بھی آمیزش ہوگئی ہو، جیسے رشوت یابینک انٹرسٹ یاانشورنس کے ذریعہ حاصل ہونے والی اضافی رقم تواگرمالِ حرام علاحدہ وممتاز ہویااس کا حساب اس طرح محفوظ ہو کہ اس کی علاحدگی ممکن ہوتواگرمالِ حرام کا مالک شخص متعین ہو اور اس کوپہچاننا ممکن ہو تواس کوواپس کردے؛ ورنہ بلانیت صدقہ فقراء پریارفاہی کاموں میں خرچ کردے اور اگر مالِ حرام نہ علاحدہ ہو نہ اس کا حساب ممکن ہو توپورے مال کی زکوٰۃ ادا کردے؛ کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مالِ حرام کے مالِ حلال کے ساتھ مخلوط ہوجانے کی وجہ سے اس پرملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور چونکہ احکامِ شرعیہ کی تعیین میں اس قول کے مطابق زیادہ آسانی اور زکوٰۃ کے مسئلہ میں فقراء کے لیے نفع ہے، اس لیے فقہاء نے اسی کواختیار کیا ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۶) زکوٰۃ اور ٹیکس ٹیکس کی ادائیگی کوزکوٰۃ کے لیے کافی سمجھ لینا یازکوٰۃ کی کچھ رقم کا بطورِ ٹیکس ادا کردینا نہ درست ہے اور نہ کافی..... زکوٰۃ اور ٹیکس کے درمیان بڑا بنیادی اور جوہری فرق ہے، زکوٰۃ ایک عبادت ہے؛ اسی لیے اس میں نیت اور ارادہ ضروری ہے، اخلاق وخدا ترسی مطلوب ہے، اس کے لیے متعین مصارف ہیں، ان ہی پران کوخرچ کیا جاسکتا ہے، غیرمسلموں اور عام رفاہی کاموں میں اس کا استعمال جائز نہیں ہے، اس کی ایک مقدار اور تناسب معین ہے، واجب ہونے کے لیے دولت کی ایک حد مقرر ہے؛ پھراس کی ادائیگی کے لیے ایک سال کی مدت ہے، بعض خصوصی اموال ہی ہیں جن میں واجب ہوتی ہے، ہرمال پرواجب نہیں ہوتی، یہ سارے احکام کتاب وسنت سے ثابت ہیں، اس میں ادنی تبدیلی اور تغیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس کے برخلاف ٹیکس عبادت نہیں ہے؛ بلکہ حکومت کی اعانت یااس سے پہنچنے والے فائدہ کا معاوضہ ہے، نہ اس کے لیے کوئی متعین تناسب اور مقدار ہے نہ کسی مال کی تعیین ہے، نہ اس کے لیے نیت وارادہ کا کوئی سوال ہے، نہ اس کے مصارف وہ ہیں جوزکوٰۃ کے ہیں اور نہ اس کے لیے وہ مناسب حدیں ہیں جوشریعت زکوٰۃ کے لیے متعین کرتی ہے؛ بلکہ بسااوقات یہ ظلم کی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۲) ریشم میں زکوٰۃ آج کل شہتوت کے ذریعہ ریشم کے کیڑوں کی پرورش کی جاتی ہے اور اس سے ریشم حاصل کیا جاتا ہے، اب گوریشم کی پیدائش زمین سے نہیں ہوتی، شہتوت سے ہوتی ہے؛ مگرچونکہ خود شہتوت حنفیہ رحمہ اللہ کے یہاں عشری اموال کی فہرست میں داخل ہے، اس کے ذریعہ جن کیڑوں کی پرورش ہو اور ان سے ریشم حاصل ہو، ان میں بھی عشرواجب ہوگا اس کی نظیر شہد ہے؛ شہد بھی زمین سے براہِ راست پیدا نہیں ہوتا؛ بلکہ زمینی نباتات سے کیڑے غذا حاصل کرتے ہیں اور اسی سے شہد نکلتا ہے، ریشم کی نوعیت بھی بالکل یہی ہے کہ ریشم کے کیڑے زمینی پودوں سے غذا حاصل کرتے ہیں اور بالواسطہ طور پر ان کے ذریعہ ریشم تیار ہوتی ہے۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۳۶)