انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صحابہ کاقبول اسلام قرآن مجید کا اثر حضرت عمرؓ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا (نعوذ باللہ) کام تمام کرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے، لیکن جب قرآن مجید کی چند آیتیں سنیں تو ان کا دل نورِ ایمان سے لبریز ہوگیا ۔ ( اصابہ، تذکرہ حضرت عمرؓ ) حضرت ابوذرغفاریؓ نے اپنے بھائی سے قرآن مجید کے معجزانہ اثر کا ذکر سنا تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورصدق دل سے مسلمان ہوگئے۔ (صحیح مسلم، فضائل ابوذرؓ،حدیث نمبر:۴۵۲۰) حضرت عثمان بن مظعونؓ نے جب یہ آیت سنی إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ (النحل:۹۰) خداعدل،احسان اورقرابتداروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اوربدکاری،برائی اورظلم سے روکتا ہے وہ اس لیے یہ نصیحتیں کرتا ہے کہ شاید تم اس کو قبول کرلو۔ تو ان کے دل پر جو اثر ہوا اس کو وہ خود ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ فذٰلک حین استقرالایمان فی قلبی واجیت محمدا (مسند احمد،مسند عبداللہ بن عباس،حدیث نمبر:۲۷۷۰) یہی وہ وقت ہے جب ایمان میرے دل میں جاگزین ہوا اور میں محمد ﷺ سے محبت رکھنے لگا۔ حضرت جبیرؓ بن مطعم نے جب یہ آیتیں سنیں: أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ،أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ، أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ (الطور:۳۷) کیا یہ لوگ خود بخود پیدا ہوگئے؟ یا یہ لوگ خود پیدا کرنے والے ہیں، کیاآسمان وزمین کو انہی لوگوں نے پیدا کیا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ان کے دل میں ایمان نہیں(اے پیغمبر) کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کے خزانے نہیں ؟ یا یہ لوگ سربراہ کار ہیں۔ توخود کہتے ہیں کہ میرا دل اڑنے لگا، ( بخاری، کتاب التفسیر، سورہ طور،حدیث نمبر:۴۴۷۶) حضرت طفیل بن عمروالدوسیؓ نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن سنا تو بے اختیار ہوکر مسلمان ہوگئے۔ (استیعاب وطبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت طفیل بن عمروالد وسیؓ) طائف کے سفر میں حضرت خالد العد وانی ؓ نے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ آیت سنی : وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (طارق:۱) آسمان کی قسم اوررات میں آنے والے کی قسم تو اسی وقت پوری سورۃ کو یادکرلیا اور بالآخر مسلمان ہوگئے۔ (مسنداحمد،مسندخالد العد وانی،حدیث نمبر:۱۸۱۹۰) اشخاص سے الگ صحابہ کی جماعت کی جماعت قرآن مجید کے اثر سے متاثر ہوئی، اوراسلام لائی، مثلاً حضرت ابوعبیدہؓ ،حضرت ابوسلمہؓ ،حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ اورحضرت عثمان بن مظعون ؓ جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دعوتِ اسلام دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ (اسد الغابہ، تذکرہ ابوسلمہ بن عبدالاسدؓ) قرآن مجید نے ایرانیوں کے مقابل میں رومیوں کی فتح کی جو پیشین گوئی کی تھی وہ پوری ہوئی تو بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، سورۂ روم ) اخلاق نبوی کا اثر ایک بار ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے بہت سی بکریاں مانگیں، آپ ﷺ نے اس کا سوال پورا کیا، اس پر اس فیاضی کا یہ اثر پڑا کہ اپنے قبیلہ میں آکر کہا کہ لوگو! مسلمان ہوجاؤ ، کیونکہ محمد ﷺ اس قدر دیتے ہیں کہ ان کو اپنے تنگ دست ہوجانے کا بھی خوف نہیں ہوتا۔ (مسلم، کتاب الفضائل ، بَاب مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا وَكَثْرَةُ عَطَائِهِ،حدیث نمبر:۴۲۷۵) ایک یہودی عالم نے جب آپ کو تقاضائے قرض میں اس قدر تنگ پکڑا کہ ظہر کی نماز سے لے کر فجر تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑا تو صحابۂٔ کرام نے اس کو سخت دھمکیاں دیں ، لیکن آپ نے فرمایا خدا نے مجھے کسی ذمی پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، دن چڑھا تو وہ اسلام لایا اور کہا کہ میرا نصف مال خدا کی راہ میں صدقہ ہے، اس سخت گیری سے میرا صرف یہ مقصد تھا کہ توراۃ میں آپ کے جو اوصاف مذکور ہیں ان کا تجربہ کروں ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،جماع ابواب اسئلۃ الیہود وغیرہم،حدیث نمبر:۲۵۳۹،شاملہ،موقع جامع الحدیث) ثمامہؓ ابن آثال گرفتار ہوکر آئے تھے؛ لیکن جب آپﷺ نے ان کو بلاشرط وبلا معاوضہ رہا کردیا، تو انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیا اوران کا دل اسلام داعیِ اسلام اورمدینۃ الاسلام کی محبت سے معمور ہوگیا۔ (صحیح مسلم ،کتاب الجہاد والسیر، باب ربط الاسیر وحبسہ،حدیث نمبر:۳۳۱۰ ) مواعظ نبوی کا اثر ایک بار حضرت ضمادؓ مکہ میں آئے تو کفار سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کو جنون ہوگیا ہے، حاضر خدمت ہوئے اورکہا کہ "میں جنون کا علاج کرتا ہوں" آپ نے ان کے سامنے ایک تقریر کی جس کا اثر ان پر یہ پڑا کہ فوراً مسلمان ہوگئے۔ (مسلم ،کتاب الجمعہ، باب تخفیف الصلوٰۃ والخطبہ،حدیث نمبر:۱۴۳۶) حضرت حلیمہؓ کے شوہر یعنی آپ ﷺ کے رضاعی باپ جب مکہ تشریف لائے تو قریش نے کہا کہ کچھ سنا ہے تمہارابیٹا کہتا ہےکہ "لوگوں کو مرکر پھر جینا ہوگا" انہوں نے آپ سے کہا بیٹا یہ کیا کہتے ہو؟ آپ نے فرمایا" اگر وہ دن آیا تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر بتادوں گا کہ جو کچھ میں کہتا تھا سچ تھا، وہ فورا مسلمان ہوگئے اوران فقروں کا اثر عمر بھررہا، کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا ہاتھ پکڑے گا توجنت میں پہنچا کر ہی چھوڑے گا۔ ( اصابہ، تذکرہ حضرت حارث بن عبدالعزیٰ) شمائل نبوی کا اثر بعض صحابہ نے صرف آپ کی شکل وصورت ہی دیکھ کر آپ کی نبوت کا اعتراف کرلیا،حضرت ابورافعؓ آپ ﷺ کی خدمت میں قریش کی طرف سے قاصد بن کرآئے؛ لیکن آپ پر نظر پڑتے ہی شیدائے اسلام ہوگئے اوربالآخر علانیہ اسلام قبول کرلیا۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، بَاب فِي الْإِمَامِ يُسْتَجَنُّ بِهِ فِي الْعُهُودِ ،حدیث نمبر:۲۳۷۷) حضرت عبداللہؓ بن سلام کو آپ کا چہرہ دیکھتے ہی یقین ہوگیا کہ: وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّاب (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ،منہ ،حدیث نمبر:۲۴۰۹) جھوٹے آدمی کا چہرہ ایسا نہیں ہوسکتا دعاۃ اسلام کا اثر صحابہ میں بکثرت دعاۃ اسلام کے اخلاقی اثر سے اسلام لائے، متعدد صحابہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے اثر سے اسلام قبول کیا، یمن کے لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد و ہدایت سے اسلام لائے، حضرت طفیلؓ نے اپنے قبیلے کے بہت سے لوگوں کو مسلمان کیا، قبیلہ ہمدان حضرت عامربن ؓ سہر کے اثر سے اسلام لایا، حضرت ابوذر غفاریؓ کا آدھا قبیلہ ان کے اثر سے مسلمان ہوا، غرض احادیث وسیر میں اس قسم کے بکثرت واقعات مذکور ہیں اور اشاعت اسلام کے عنوان میں ان کی تفصیل آئے گی۔ معجزات کا اثر ایک سفر میں صحابہ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی، آپﷺ نے دو آدمیوں کو پانی کی تلاش میں بھیجا،یہ لوگ جستجو میں نکلے تو ایک ناقہ سوار عورت ملی جس کے ساتھ پانی کی دو مشکیں تھیں، ان دونوں بزرگوں نے اس کو آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا؛ تو آپﷺ نے ایک برتن منگوایا اوراس میں دونوں مشکوں سے پانی ڈال کر مشکوں کے دہانے بند کردیے اورعام اعلان کے ذریعہ سے تمام صحابہ آئے اورپانی پی کر سیراب ہوئے؛لیکن مشکوں کے پانی میں کوئی کمی نہیں ہوئی، عورت نے یہ معجزہ دیکھا تو اپنے قبیلہ میں آکر بیان کیا کہ خدا کی قسم آسمان وزمین کے درمیان یہ شخص عجوبہ روزگار اورخدا کا سچا پیغمبر ہے ۔ (بخاری، کتاب التیمم ، بَاب الصَّعِيدُ الطَّيِّبُ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ يَكْفِيهِ مِنْ الْمَاءِ ،حدیث نمبر:۳۳۱) رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن سلامؓ حاضر خدمت ہوئے اورچند غیبی امور کے متعلق سوالات کیے، آپ نے ان کے جوابات دیے تو انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیا ۔ (بخاری، بَاب خَلْقِ آدَمَ،حدیث نمبر:۳۰۸۲) فتح مکہ کا اثر اگر چہ صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی تعداد جن میں تمام اکابرِ صحابہ داخل ہیں متذکرہ بالااسباب سے اسلام قبول کیا، تاہم ایک جماعت اسلام کے عام غلبہ کا انتظار کررہی تھی، اس لیے جب مکہ فتح ہوا تو عام اہلِ عرب نے بطوع ورضاخود بخود اسلام قبول کرلیا، صحیح بخاری میں ہے۔ وَكَانَتْ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلَامِهِمْ الْفَتْحَ فَيَقُولُونَ اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ ۔ (بخاری، بَاب وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ،حدیث نمبر:۳۹۶۳) تمام عرب اپنے اسلام کے لیے فتح مکہ کا منتظر تھا، وہ کہتے تھے کہ محمد کو اپنی قوم سے نمٹ لینے دو، اگر وہ ان پر غالب آگئے تو وہ سچے پیغمبر ہیں، چنانچہ فتح مکہ کا واقعہ ہوا تو ہر قبیلہ کے لوگ نہایت سرعت کے ساتھ اسلام کی طرف دوڑے۔