انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کفار کو جہنم کا عذاب ہمیشہ کے لئے ہوگا ہمیشہ رہیں گے کفار کو آگ کے عذاب میں نہ تو وقفہ ہوگا اورنہ ختم ہوگا اور کم ہوگا ؛بلکہ بدستور ہمیشہ کے لئے مسلط رہے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے(پہلا ارشاد) "إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ، لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ " (الزخرف:۷۴) (ترجمہ)بے شک نافرمان(یعنی کافر)لوگ عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے وہ(عذاب)ان(پر)سے ہلکانہ کیا جائے گا اوروہ اسی(عذاب)میں مایوس پڑے رہیں گے۔ (دوسرا ارشاد) " وَالَّذِينَ کَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا" (فاطر:۳۶) (ترجمہ)اورجو لوگ کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگے ہے،نہ تو ان کو موت ہی آئے گی کہ مرہی جائیں(اورمرکر چھوٹ جائیں)اورنہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ (تیسرا ارشاد) "فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ" (البقرۃ:۸۶) (ترجمہ)نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اورنہ ان کی مدد کی جائے گی۔ (چوتھا ارشاد) " وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ،قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا بَلَى قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ " (غافر:۴۹،۵۰) (ترجمہ)اورجتنے لوگ دوزخ میں ہوں گے(یعنی بڑے اور چھوٹے تابع اور متبوع سب مل کر)جہنم کے مؤ کل فرشتوں(داروغوں)سے درخواست کے طور پر)کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ کسی دن تو ہم سے عذاب ہلکا کردے(یعنی عذاب کے بالکل ہٹ جانے یا ہمیشہ کے لئے کم ہوجانے کی امید تو نہیں، کم از کم ایک روز کی تو کچھ چھٹی مل جایا کرے)فرشتے کہیں گے کہ(یہ بتلاؤ)کیا تمہارے پاس تمہارے پیغمبر معجزات لے کر نہیں آتے رہے(اوردوزخ سے بچنے کا طریقہ نہیں بتلاتے رہے تھے؟)دوزخی کہیں گے ہاں آتے تو رہے تھے(مگر ہم نے ان کا کہنا نہ مانا :" قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَکَذَّبْنَا" فرشتے کہیں گے کہ تو پھر(ہم تمہارے لئے دعا نہیں کرسکتے کیونکہ کافروں کے لئے دعا کرنے کی ہم کو اجازت نہیں ہے) کافروں کی دعاء(آخرت میں )محض بے اثر ہے(کیونکہ آخرت میں کوئی دعاء بغیر ایمان کے قبول نہیں ہوسکتی اورایمان کا موقعہ دنیا ہی میں تھا وہ تم کھوچکے) احمد بن ابی الحواری فرماتے ہیں کہ میں نے اسحاق بن ابراھیم کو(جامع مسجد دمشق کے منبر پر)یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جنتی پر کوئی گھڑی ایسی نہیں آئے گی مگر اس پر ایسی ایسی نعمتوں کا اضافہ کیا جائے گا جن کو وہ پہلے سے جانتا بھی نہ ہوگا، اوردوزخی پر(بھی)کوئی گھڑی ایسی نہیں آئے گی مگر وہ نئے آنے والے عذاب سے ناواقف ہوگا، اللہ کا ارشاد ہے۔ (فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا) (النباء:۳۰) (اسی عذاب میں)مبتلا رہو ہم ہرگز نہیں اضافہ کریں گے مگر(تم پر)عذاب (ہی بڑھاتے رہیں گے) حضرت حسن (بصری)فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو برزہ ؓ سے سوال کیا اہل جہنم پر سب سے زیادہ سخت آیت کون سی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے "فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا" کی تلاوت کی پھر فرمایا خدا کی نافرمانیاں کرتے ہوئے اہل جہنم نے اپنے آپ کو ہلاکت (جہنم ) میں ڈال دیا۔ (ابن ابی حاتم،وخرجہ البیہقی ولم یرفعہ) (مشہور تابعی حضرت)مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ دوزخیوں کا آرام بس یہی ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک اپنا ہاتھ اپنی کوکھ پر رکھ لیا کرے گا اوراہل جہنم کے لئے اتنی اقسام کے عذاب ہیں جن کی اللہ تعالی نے دنیا میں اپنی مخلوق کو(سب کی)اطلاع نہیں فرمائی۔ مبارکؒ حضرت حسن (بصری)سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے زنجیروں،طوقوں اور آگ کا ذکر فرمایا ہے جبکہ ان میں سے کوئی عذاب دنیا میں نہیں ہے،پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی :" وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ" (ص:۵۸) (ترجمہ)اور(اس کے علاوہ)اوربھی اس قسم کی(ناگوار اورموجب آزار)طرح طرح کی چیزیں (عذاب موجود)ہیں (اس کو بھی چکھیں گے) محدث ابو یعلی فرماتے ہیں ہمیں شریح نے انہیں ابراھیم بن سلیمان نے اعمش سے بواسطہ حسن حضرت ابن عباس سے "زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ"کے متعلق بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا یہ عرش کے نیچے پانچ قسم کی نہریں ہیں بعض سے رات کے وقت بعض سے دن کے وقت عذاب دیا جائے گا۔ (ابو یعلی موصلی) اعتراض کے جوابات (حاشیہ مضمون بالا) اللہ تعالی نے انسانوں اورجنات کو اس لئے تخلیق کیا ہے کہ اس کی عبادت کریں اوراسی کے احکام کی پیروی کریں اگر انہوں نے اپنے مقصد تخلیق کو پس پشت ڈال دیا تو وہ سزا کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے اسی لئے اللہ تعالی نے جنت اوردوزخ کو پیدا فرمایا ہے تاکہ اپنے فرمانبرداروں کی آنکھیں جنت کی ابد الاباد کی نعمتوں سے ٹھنڈا کرے اوراپنے نافرمانوں کو دوزخ کی گوناں گوں تکالیف سے دوچار کرے۔ اللہ کے نافرمانوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ نافرمان ہیں جن کے عقائد بالکل درست ہیں لیکن اعمال صالحہ میں کو تاہی ہوئی اور حدوداللہ کی پابندی نہ کی تو ایسے لوگ یا تو اللہ کے فضل وکرم سے یا شفاعت سے بغیر سزا کے جنت میں چلے جائیں گے یا دوزخ میں سزا پاکر جنت میں داخل ہوں گے۔ دوسرے وہ نافرمان ہیں جنہوں نے ایسے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا جس کی سزا ہمیشہ کے لئے دوزخ ہے جیسے کفر وشرک ان کی کسی صورت میں مغفرت نہیں ہوگی جیسا کہ فرمان خدا وندی ہے۔ "إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ" (مائدۃ:۷۲) (ترجمہ)یقیناًجس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اوراس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ "إِنَّ الَّذِينَ کَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِکَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ" (بقرہ:۱۶۲) (ترجمہ)بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا اوراسی کفر کی حالت میں مرگئے ان پر اللہ کے فرشتوں کی اور آدمیوں کی سب کی لعنت ہے اس میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے ان کے عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی اورنہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ہم نے اختصار کے طور پر انہیں پر اکتفا کیا ہے احادیث مبارکہ میں بھی کفار کا ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنا ثابت ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مضمون میں قارئین نے ملاحظہ فرمایا ہوگا۔ دوام دوزخ کا انکار کفر ہے جنت کی نعمتیں اور دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لئے ہے جو آدمی یہ کہتا ہے کہ اہل جنت کے جنت میں اور اہل جہنم کے جہنم میں داخلہ کے بعد ایک مدت کے بعد دونوں فنا ہوجائیں گی تو اس نے یہ بات کہہ کر کفر کیا ہے۔ (فقہ اکبر بروایت امام ابو مطیع بلخی:۱۸۱) دوام دوزخ پر امت کا اجماع ہے امام ابو منصور عبدالقاہر بغدادی فرماتے ہیں اجمع اھل السنۃ وکل من سلف من اخیار الامۃ علی دوام بقاء الجنۃ والنار وعلی دوام نعیم اھل الجنۃ ودوام عناب الکفرۃ فی النار (اصول الدین:۳۳۸) یعنی تمام اہل سنت ،تمام اسلاف امت کا جنت اوردوزخ کے ہمیشہ کے لئے باقی رہنے پر اجماع اور اتفاق ہے اور(اسی طرح)جنتیوں کے لئے نعمتوں کے ہمیشہ ہونے پر بھی اورکافروں کے ہمیشہ کے لئے دوزخ میں عذاب میں مبتلا ہونے پر بھی اجماع اوراتفاق ہے۔ جنت اور دوزخ کبھی فنا نہیں ہوں گی۔ (فقہ اکبر مترجم:۴۸،عقیدہ طحاویہ:۲۳) حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں زندگی کی فرصت بہت تھوڑی ہے اور ہمیشہ کا عذاب اس پر آنے والا ہے۔ (مکتوبات مترجم :۱/۳۹)