انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابوسلمہؓ بن عبدالاسد نام، نسب عبداللہ نام،ابوسلمہ کنیت ،والد کا نام عبدالاسد اوروالدہ کا نام برہ بنت عبدالمطلب تھا پورا سلسلۂ نسب یہ ہے: عبداللہ بن عبدالاسد بن ہلال بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم القرشی المخزومی ۔ (اسد الغابہ :۵/۲۸۱) اسلام آنحضرت ﷺ کے ارقم بن ابی ارقمؓ کے مکان میں پناہ گزین ہونے سے پہلے حلقۂ مومنین میں داخل ہوئے ،ا ن کی بیوی حضرت ام سلمہ ؓ نے بھی ان کا ساتھ دیا،حضرت ابوسلمہؓ ،حضرت عبیدہ بن حارثؓ، حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ اورحضرت عثمان بن مظعونؓ ایک ساتھ ایمان لائے تھے۔ (اسد الغابہ:۵/۲۸۱) ہجرت حضرت ابوسلمہؓ سرزمینِ حبش کی دونوں ہجرتوں میں شریک تھے، ان کی بیوی حضرت ام سلمہ ؓ بھی رفیقِ سفر تھیں ، پھر حبش سے واپس آکر عازم مدینہ ہوئے، بخاری کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو واردِ یثرب ہوئے، لیکن دوسرے روایت میں اولیت کا سہراحضرت مصعب بن عمیرؓ کے سرباندھا گیا ہے، علامہ ابن حجران دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "(حضرت) ابوسلمہؓ جب حبش سے مکہ واپس آئے تو مشرکین نے پھر ان کو ہدفِ اذیت بنایا، اس بنا پران کا مدینہ آنا مشرکین کے خوف سے تھا، مستقل ہجرت کا ارادہ نہ تھا، برخلاف اس کے حضرت مصعب بن عمیرؓ اس وقت پہنچے جب کہ مستقل ہجرت کا حکم ہوچکا تھا اس لیے ان دونوں روایتوں میں باہم تخالف نہیں ہے۔" (فتح الباری: ۷/۲۰۳) بہرحال حضرت ابوسلمہؓ سب سے پہلے مدینہ پہنچے، یہ محرم کی دسویں تاریخ تھی، خاندان عمروبن عوف نے ان کو کامل دوماہ یعنی آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری تک اپنا مہمان رکھا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث: ۱۷۱) مواخات آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد بن خثیمہ اؓنصاریؓ سے مواخات کرادی اورمستقل سکونت کے لیے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۱۷۱) غزوات غزوۂ بدر واحد میں سرگرمِ پیکار تھے، معرکہ اُحد میں ابو اسامہ جُشمی کے ایک تیرنے ان کا بازو زخمی کردیا جو کامل ایک ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد بظاہر مندمل ہوگیا، لیکن غیر محسوس طریقہ پر اندر ہی اندر زہر پھیلاتا رہا، ( ایضاً) اسی اثناء میں وہ سریۂ قطن پر مامور ہوئے جس کی تفصیل یہ ہے: سریۂ قطن قید کے اطراف میں قطن ایک پہاڑ کا نام ہے جس کا دامن بنو اسد بن خزیمہ کا مسکن تھا، آنحضرت ﷺ کو خبر ملی کہ طلیحہ اوراسد بن خویلد یہاں اپنی قوم اور دوسرے زیر اثر قبائل کو جنگ کے لیے اُبھار رہے ہیں، اس بنا پر اوائل محرم ۴ھ میں حضرت ابو سلمہ ؓ کے زیرِ سیادت تقریبا دیڑھ سو مجاہدین کی ایک جماعت جس میں مہاجریں وانصار دونوں شریک تھے، قبل از وقت اس فتنہ انگیز تحریک کو دبانے پر مامور ہوئی،آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوسلمہؓ کو علم دے کر فرمایا: "روانہ ہوجاؤ یہاں تک کہ بنو اسد کی سرزمین میں پہنچ کر ان کی جمعیت کے فراہم ہونے سے پہلے ان کا شیرازہ منتشر کردو۔" حضرت ابو سلمہؓ غیر معروف راستہ سے یلغار کرتے ہوئے یکا یک بنو اسد پر جاپڑے،وہ اس ناگہانی حملہ سے بدحواس ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے تو انہوں نے اپنی جماعت کو تین دستوں پر منقسم کرکے ان کے تعاقب پر مامور فرمایا، چنانچہ وہ دشمن کو دور تک بھگا کر نہایت کثرت کے ساتھ اونٹ اوربھیڑ بکریاں چھین لائے جن کو حضرت ابو سلمہؓ نے مدینہ پہنچ کر بطورمال غنیمت دربارِ نبوت میں پیش کیا۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی سریہ ابو سلمہ) وفات حضرت ابوسلمہؓ اس مہم سے واپس آئے توزخم پھر عود کر آیا اورایک عرصہ تک بیمار رہ کر ۳ جمادی الآخر ۴ھ میں واصلِ بحق ہوئے، اتفاق سے آنحضرت ﷺ عین حالتِ نزع میں عیادت کے لیے تشریف لائے تھے، روح دیدارِ جمال کی منتظر تھی اِدھر آپ ﷺ تشریف لائے اوراُدھر روح نے جسم کا ساتھ چھوڑا، آپﷺ نے دستِ مبارک سے ان کی دونوں آنکھیں بند کرکے فرمایا: "انسان کی روح جس وقت اٹھائی جاتی ہے تو اس کی آنکھیں اس کے دیکھنے کے لیے کھلی رہ جاتی ہیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۷۲) ایک طرف پردہ کے پیچھے گھر کی عورتیں مصروفِ ماتم تھیں، آنحضرت ﷺ نے ان کو اس سے روک کر فرمایا کہ یہ دعائے خیر کا وقت ہے کیونکہ ملائکہ آسمانی جومیت کے پاس موجود ہوتے ہیں وہ دعا گو یوں کی دعا پر آمین کہتے ہیں، پھر خود اس طرح دست بدعاء ہوئے: "خدایا! اس کی قبر کو کشادہ و روشن کر،اس کو پر نور بنا، اس کے گناہوں کو بخشدے اورہدایت یاب جماعت میں اس کا درجہ بلند فرما"۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۷۲) تجہیز و تکفین حضرت ابو سلمہ ؓ نے مدینہ کے قریب مقام عالیہ میں وفات پائی ؛کیونکہ وہ قباء سے منتقل ہوئے تو یہیں آکر سکونت پذیر ہوئے تھے، بنی امیہ بن زید کے کنوئیں یسیرہ (ایام جاہلیت میں یہ کنواں بیر عبیر کے نام سے مشہور تھا، آنحضرت ﷺ نے اس کو بدل کر بیر یسیرہ نام رکھا، ایضاً: ۱۷۲)کے پانی سے غسل دیا اور مدینہ کی خاک پاک نے اپنے دامن میں چھپایا۔ (ایضا:۱۷۱) فضائل ومحاسن حضرت ابو سلمہ ؓ کا پایہ فضل وکمال نہایت بلند ہے، وہ بیمار ہوئے تو آنحضرت ﷺ اکثر ان کی عیادت فرمایا کرتے تھے۔ (اصابہ تذکرہ ابو سلمہ ؓ) حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز ابو سلمہؓ دربارِ نبوت سے خوش خوش گھر واپس آئے اور کہنے لگے کہ آج مجھے رسولِ خدا ﷺ کے ایک ارشاد نے بے حد محظوظ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو مصیبت زدہ مسلمان اپنی مصیبت میں خدا کی طرف رجوع کرکے کہتا ہے: "اے خدا! اس مصیبت میں میری مدد کر اوربہتر نعم البدل عطا فرما" تو خدا اس کی دعا قبول فرماتا ہے، چنانچہ ابو سلمہؓ کی وفات نے جب مجھے صدمہ پہنچایا تو میں نے خدا کی طرف رجوع کرکے کہا اے خدا! میری مدد کر اورتلافی بالخیر فرما ؛لیکن پھر یہ خیال گذرا کہ میرے لیے ابو سلمہؓ کا نعم البدل کون ہوسکتا ہے؟ عدت گذرنے کےبعد جب خود رسول اللہ ﷺ نے نکاح کا پیام بھیجا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ خدا نے تلافی بالخیر کی صورت پیدا کردی ۔ ( مسند احمد بن حنبل:۴/۱۲۷) اولاد حضرت ابو سلمہؓ نے دو لڑکے سلمہ وعمر اوردولڑکیاں زینب اوردرہ یادگار چھوڑیں ان کی تمام اولاد حضرت ام سلمہؓ ہند بنت ابی امیہ سے ہوئی تھی جو ان کے بعد امہات المومنینؓ میں داخل کی گئیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث:۱۷۰)