انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولادت سے نبوت تک طلوع سحر آفتاب کے طلوع ہونے سے تھوڑی دیر پیشتر صبح کی ہلکی ہلکی روشنی افق مشرق سے نمودار ہونی شروع ہوجاتی ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے تمام دنیا پر شب دیجور کی سیاہی اورجہالت وکفر کی تاریکی چھائی ہوئی تھی،اس عالمگیر گمراہی کی شب تاریک کے ختم ہونے کا وقت آیا تو طلوعِ آفتاب کی خبر دینے کے لئے اول سپیدہ سحر نمودار ہوا،ملک عرب میں جو مرکزِ تاریکی بنا ہوا تھا اور جس کے ریگستانوں میں شرک وعصیاں کی آندھیاں چل رہی تھیں خود بخود ایسے نشانات ظاہر کرنے لگے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس ملک میں آفتابِ رسالت طلوع ہونے اورہدایت کا چشمہ پھوٹنے والا ہے۔ اقوام عرب ہزار سال سے ذلت ومسکنت اورجہالت وگمراہی کی زندگی بسر کررہی تھیں؛ لیکن بعثتِ نبوی نہیں ؛بلکہ پیدائشِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے قبائلِ عرب میں شریفانہ جذبات اوربُرے کاموں سے نفرت پیدا ہونے لگی تھی، ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ ،عثمان بن الحویرث بن اسد وزید بن عمرو بن نفیل عم عمرؓ بن الخطاب، عبید اللہ بن جحش وغیرہ کئی شخص ایک جگہ جمع ہوئے اوراپنے عقائد و اعمال پر غور کرنے لگے، بالآخر سب نے متفقہ طور سے پتھروں اوربتوں کی پرستش سے بیزاری ظاہر کی اورمختلف مقامات کی طرف دین ابراہیمی کی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے،ورقہ بن نوفل نے دینِ مسیحی اختیار کرلیا اوربڑی محنت وتوجہ سے توریت وانجیل وغیرہ اہل کتاب کی کتابیں پڑھیں،عبیداللہ بن جحش اپنے خیال پر قائم یعنی دین حنیف کی جستجو میں مصروف رہا یہاں تک کہ اسلام کا ظہور ہوا اوراُس نے اسلام قبول کیا، حبش کی طرف ہجرت کی،وہاں جاکر نصرانیت کی طرف مائل ہوا، عثمان بن الحویرث قیصرِ روم کے پاس جاکر نصرانی ہوگیا،زید بن عمرو نے نہ تو یہود ونصاریٰ کا مذہب اختیار کیا نہ بت پرستی کی،خون اورمردہ جانوروں کو اپنے اوپر حرام کیا، قطع رحم اورخون ریزی سے پرہیز کیا جب کوئی شخص ان سے دریافت کرتا تو کہتے کہ میں رب ابراہیم کی پرستش کرتا ہوں ،بتوں کی برائیاں بیان کرتے اوراپنے قوم کو نصیحت وملامت کرتے، اکثر ان کی زبان پر یہ لفظ جاری تھا کہ "اَللَّھُمَّ لَو اَنِّی اَعْلَمُ اَیُّ اَلْوُجُوْہِ اَحَبُّ اِلَیْکَ لَعَبَدْ نُکَ وَلَا کِنْ لَا اَعَلَمُ"یعنی اے اللہ اگر میں اس بات سے واقف ہوجاتا کہ کس طرح تیری عبادت کی جائے تو میں ضرور تیری عبادت کرتا اور تیری رضا مندی حاصل کرتا،لیکن میں تو تیری رضا کی راہوں سے نا واقف ہوں، یہ کہتے اورسجدہ میں چلے جاتے۔ کاہنوں اورمنجموں نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ ملک عرب میں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہونے والا ہے اور بہت جلد اُس کی حکومت ظاہر ہوا چاہتی ہے،ملکِ عرب میں جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے یہودی بھی آباد تھے اورنصاریٰ بھی،علمائے یہود نے بھی اور علمائے نصاریٰ بھی تو ریت وانجیل کی بشارتیں بیان کرنی اورلوگوں کو سُنانی شروع کیں کہ نبی آخر الزماں ملکِ عرب میں عنقریب ظاہر ہوا چاہتے ہیں۔ چند روز کے لئے ملکِ یمن پر شاہ حبش کا قبضہ ہوگیا تھا،عبدالمطلب کے زمانہ میں بھی یمن کا علاقہ شاہِ حبش کے ماتحت تھا، اس زمانہ میں شاہ حبش کی جانب سے ابرہۃ الاشرم یمن کا صوبہ دار تھا،اُس نے یمن میں ایک معبد تیار کیا اوراہل عرب کو ترغیب دی کہ بجائے کعبہ کے اس یمن کے مندر کا حج کیا کریں؛ لیکن اس کو اپنی اس تحریک میں کامیابی نہ ہوئی ؛بلکہ ایک عرب نے موقع پاکر اس مندر میں اس کی تذلیل کے لئے پاخانہ کردیا،ابرہہ نے جوشِ انتقام میں مکہ پر چڑھائی کی اوراس ارادہ سے روانہ ہوا کہ خانہ ٔ کعبہ کو مسمار کردوں گا،اس کی فوج میں ہاتھی بھی تھے اس لیے مکہّ والوں نے اس فوج کا نام اصحاب الفیل اوراس سال کا نام عام الفیل رکھا،مکہ کے قریب پہنچ کر ابرہہ نے جب مقام کیا تو قریش مکہ اس فوج کے آنے کی خبر سن کر خوف زدہ ہوئے ؛کیونکہ ان میں اس فوج کے مقابلہ کی طاقت نہ تھی، سب نے مل کر سردار قریش یعنی عبدالمطلب سے استد عا کی کہ آپ ابرہہ کے پاس جائیں اور کوئی صورت بہتری کی نکالیں ؛چنانچہ عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے،اس نے جب ان کی شریف ووجیہہ صورت دیکھی اوران کی نجابت وسرداری کا حال سُنا تو بہت متاثر ہوا اورعزت کے مقام پر بٹھایا اورآنے کا مقصد دریافت کیا،عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کے لشکر نے میرے (چالیس یا دوسو) اونٹ پکڑلیے ہیں،وہ مجھے دلوائے جائیں،ابرہہ نے کہا کہ میں تم کو بہت عقلمند اورذی ہوش شخص سمجھتا تھا؛ لیکن میرا خیال غلط نکلا،تم کو معلوم ہے کہ میں خانۂ کعبہ کو مسمار کرنے آیا ہوں تم نے اپنے اونٹ لینے کی کوشش کی؛ لیکن خانۂ کعبہ کے بچانے کی کوئی تدبیر نہ کی،عبدالمطلب نے فوراً برجستہ جواب دیا کہ "اَنَا رَبُّ الْاِبِلِ وَلِلْبَیْتِ رَبٌّ یَمْنَعُہ"(میں تو صرف اونٹوں کا مالک ہوں مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا) ابرہہ اس جواب کو سُن کر برہم ہوا اور اس نے کہا کہ اچھا میں دیکھوں گا کہ رب البیت مجھ کو کس طرح روکتا اورکعبہ کی حفاظت کرتا ہے؛چنانچہ اس کے لشکر پر تباہی آئی اور وہ سب "کَعَصْفٍ مَّاکُوْلٍ " ہوگئے ابرہہ اوراس کے لشکر کا عبدالمطلب کے اس جواب کے بعد اس طرح تباہ و برباد ہونا ملک عرب کے لیے ایک نہایت عظیم الشان واقعہ تھا، جس نے سب کے دلوں میں ہیبت الہی قائم کردی تھی اوراکثر لوگوں کو ظلم و ستم اورقتل وغارت میں تامل ہونے لگا۔ مذکورہ واقعہ اصحابِ فیل کےبعد ہی ملک یمن کی حکومت شاہِ حبش کے قبضہ سے نکل گئی اورسیف بن ذی یزن (یادگار ملوک تبابعہ) ملک یمن پر قابض ومتصرف ہوا،عبدالمطلب چند شرفائے قریش کو ہمراہ لے کر سیف کو حکومتِ یمن کی مبارک باد دینے کے لئے گئے۔ سیف بن ذی یزن نے اپنے علم وواقفیت کی بنا پر عبدالمطلب کو خوش خبری سُنائی کہ نبی آخر الزماں جس کا تمام ملک اور ہر قوم کو انتظار ہے تمہاری اولاد سے ہوگا،اس بات کی عام طور پر شہرت ہوئی،تمام شریکِ وفد شرفاء کو اس بات کا شبہ ہوا کہ وہ نبی ہماری اولاد سے ہوگا، اب لوگ اہل کتاب کے احبارورہبان کے پاس جا جا کر نبی آخر الزماں کے حالات اورعلامات دریافت کرنے لگے،امیہ بن ابی الصلت کو یہ خیال ہوا کہ وہ نبی شاید میں ہوں گا،؛چنانچہ وہ ابو سفیان بن حرب کے ساتھ ملکِ شام کی طرف گیا اورکسی رہبان کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی نسبت دریافت کیا مگر وہاں سے مایوس کن جواب ملا۔ دنیا میں کسی بڑے نبی یا رسول کی بعثت یا پیدائش کے وقت آسمان پر بڑی کثرت سے اورغیر معمولی طور پر ستارے ٹوٹے ہوئے دیکھے جاتے رہے تھے ؛چنانچہ اسی کثرت سے غیر معمولی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے قریب شہاب ثاقب آسمان پر نمودار ہوئے اورعلمائے اہل کتاب نے حکم لگایا کہ یہ نبی آخر الزماں کی پیدائش کا زمانہ ہے ؛چنانچہ ۹ ربیع الاول ۱ عام الفیل مطابق ۴۰ جلوس کسریٰ نوشیروان مطابق ۲۲ اپریل ۵۷۱ء بروز دوشنبہ بعد از صبح صادق اورقبل از طلوع آفتاب آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے۔