انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۲۹۔سلمہ بن دینَارؒ نام ونسب سلمہ نام ،ابو حازم کنیت،نسلاً عجمی تھے،ان کے والد دینار ایرانی تھے اوران کی ماں رومی تھیں، ابن سعد بن ابی سفیان مخزومی کے غلام تھے،اس نسبت سے مخزومی کہلاتے۔ فضل وکمال اگرچہ وہ ماں باپ دونوں کی جانب سے عجمی نژاد تھے،لیکن اسلام کے فیض مساوات نے ان کو مدینۃ کے شیوخ اوروہاں کے عابد وزاہد علماء کے گروہ میں شامل کردیا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں الواعظ الزاھد عالم المدینۃ وشیخھا امام نووی لکھتے ہیں ان کی توثیق و جلالت اورمدح وثنا پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۲/۲۰۸) حدیث حدیث کے بڑے حافظ تھے، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں : کان ثقۃ کثیر الحدیث (تہذیب التہذیب:۴/۱۴۴ بحوالہ ابن سعد) حدیث میں انہوں نے صحابہ میں سہیل بن سعد الساعدیؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عمرو بن العاص کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی تھی،لیکن محدثین کے نزدیک آخر الذکر دونوں بزرگوں سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے،غیر صحابی علماء میں ایک جماعت کثیر سے روایتیں کی ہیں، ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں، ابو امامہ بن سہل بن حنیف، سعید بن مسیب، عامر بن عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن ابی قتادہ، نعمان بن ابی عیاش،یزید بن رومان ،عبید اللہ بن مقسم، ابراہیم بن عبدالرحمن ،نعجہ بن عبداللہ، ابوصالح السمان، ابو سلمہ بن عبدالرحمن اورابن منکدر وغیرہ۔ زہری،عبیداللہ بن عمروبن اسحق،ابن عجلان،ابن ابی ذئب،مالک،حماد ،سفیان ،سلیمان ابن بلال،سعید بن ہلال،عمر بن علی،ابوغسان المدنی، ہشام بن سعد، وہیب بن خالد،ابو ضخر حمید بن زیادہ الخراط،اسامہ بن زید لیثی، محمد بن جعفر بن ابی کثیر اورافلح بن سلیمان النمری وغیرہ آپ کے حلقہ تلامذہ میں ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۴/۱۴۳) فقہ فقہ میں بھی انہیں پورا درک تھا اوروہ مدینہ کے مشہور فقیہ تھے،حافظ ذہبی اور امام نووی سب انہیں فقہا میں لکھتے ہیں (دیکھو تذکرۃ الحفاظ وتہذیب الاسماء حوالہ مذکور) حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ فقیہ النفس تھے، ان کے مناقب بہت ہیں ،وہ فقیہ ثبت اوربلند مرتبہ تھے (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۹) ان کے تفقہ کی ایک سند یہ ہے کہ وہ مدینہ الرسول کے قاضی تھے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۱۴۴) وعظ وپند مدینہ میں وعظ وپند کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۹) زہد وعبادت: عبادت وریاضت کے لحاظ سے ان کا شمار صلحائے مدینہ میں تھا،ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ مدینہ کے عابد وزاہد لوگوں میں تھے، (تہذیب التہذیب :۴/۱۴۴) حافظ ذہبی ،امام نووی اورابن حجر وغیرہ سب ان کے نام کے ساتھ زاہد کا لقب لکھتے ہیں،غرض جماعت تابعین میں وہ ہر اعتبار سے نہایت ممتاز تھے،محمد بن اسحق بن خزیمہ کا بیان ہے کہ ان کے زمانہ میں کوئی ان کا مثل نہ تھا۔ (تہذیب الاسماء:۲/۲۰۸) حکمت ودانائی مذہبی اوراخلاقی کمالات کے ساتھ ان کو حکمت سے بھی وافر حصہ ملا تھا،عبد الرحمن بن زید بن اسلم کا بیان ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کے منہ سے ابوحازم کے منہ سے زیادہ حکمت قریب ہو ، ابن خزیمہ کا بیان ہے کہ حکم ومواعظ میں ان کے زمانہ میں کوئی ان کا مثل نہ تھا۔ (شذرات الذہب:۲۰۸) حکیمانہ مقولے آپ کے بعض حکیمانہ مقولوں سے آپ کی حکمت کا اندازہ ہوسکتا ہے،فرماتے تھے کہ وہ تمام اعمال جن کی وجہ سے موت کا آنا گراں گزرتا ہو ان کو چھوڑدو،پھر جس وقت بھی موت آجائے تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، جو بندہ اپنے اوراپنے رب کے درمیان فرائض تعلقات کو اچھے اور درست رکھتا ہے تو خدا اس کے اوردوسرے بندوں کے تعلقات کو درست رکھتا ہے اور جو بندہ اپنے اورخدا کے فرائض میں کوتاہی کرتا ہے تو خدا اس کے اوردوسرے بندوں کے درمیانی فرائض میں کوتاہی پیدا کرتا ہے،ایک شخص سے تعلقات خوش گوار رکھنا بہت سے لوگوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھنے سے زیادہ آسان ہے،یعنی اگر ایک خدا سے تعلقات خوشگوار ہوں تو ساری دنیا سے خوشگوار ہوجائیں گے، ایک مرتبہ خلیفہ ہشام نے آپ سے پوچھا کہ میں حکومت کی ذمہ داریوں کے مواخذہ سے کس طرح بچ سکتا ہوں، فرمایا بہت آسان ہے،ہر چیز کو جائز طریقہ سے لو،اورجائز مصرف میں اس کو صرف کرو، ہشام نے کہا یہ وہی شخص کرسکتا ہے جس کو ہوائے نفس سے بچنے کی خدا کی جانب سے توفیق حاصل ہو۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۹) وفات ۱۴۰ میں وفات پائی۔ (ایضاً)