انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دوسری ہجرت حبشہ کی دوسری ہجرت مہاجرین مکہ میں قیام پذیر تو ہوگئے مگر مشرکین مکہ ان کو کب چین لینے دیتے بالخصوص اس وجہ سے اورجلے ہوئے تھے کہ قریش کی سفارت مہاجرین کے مقابلہ میں دربار حبش سے ناکام واپس ہوئی تھی اورمہاجرین وہاں آرام واطمینان کی زندگی بسرکرتے تھے، اس لیے پھر پہلے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ایذا رسانی شروع کردی، اس لیے آنحضرت ﷺ نے وبارہ ہجرت حبشہ کی اجازت دے دی، مگر اس مرتبہ پہلی ہجرت کی طرح آسانی سے قافلہ چلاجانا دشوار تھا،کفارنے سخت مزاحمت کی،طرح طرح رکاوٹیں ڈالنا شروع کیں،تاہم ۸۳ مرد اور۲۰ عورتوں کا قافلہ کسی نہ کسی طرح حبش روانہ ہوگیا،(طبقات ابن سعد جزاول قسم اول ص ۱۳۸) اکثر کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: نمبرشمار نام نمبرشمار نام ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۴ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ حضرت عثمان بن عفان ؓ حضرت ابوحذیفہ ؓ حضرت عبداللہ بن جحش ؓ حضرت شجاع بن وہب ؓ حضرت عتبہ بن غزوان ؓ حضرت طلیب بن عمیر ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت مقداد بن عمروؓ حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد ؓ حضرت معتب بن عوف ؓ حضرت عامر بن ربیعہ ؓ حضرت خنیس بن حذافہ ؓ حضرت عثمان بن مظعون ؓ حضرت عبداللہ بن مظعون ؓ حضرت قدامہ بن مظعون ؓ حضرت سائب بن عثمان ؓ حضرت ابوسبرہ بن ابی رہم ؓ حضرت عبداللہ بن مخرمہ ؓ حضرت حاطب بن عمرو ؓ حضرت عبداللہ بن سہل ؓ حضرت سعد بن خولہ ؓ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ حضرت سہیل بن بیضاء ؓ حضرت معمر بن ابی سرح ؓ حضرت عیاض بن زہیر ؓ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ حضرت خالد بن سعید ؓ حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ ؓ حضرت خالد بن حزام ؓ حضرت اسود بن نوفل ؓ حضرت عمروبن امیہ ؓ حضرت یزید بن زمعہ ؓ حضرت ابوالروم بن عمیر ؓ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۰ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۵ ۶۶ ۶۷ ۶۸ حضرت خراس بن نضر ؓ حضرت جہم بن قیس ؓ حضرت ابو فکیہہ ؓ حضرت مطلب بن ازہر ؓ حضرت عتبہ بن مسعود ؓ حضرت شرجیل بن حسنہ ؓ حضرت حارث بن خالد ؓ حضرت عمروبن عثمان ؓ حضرت عباد بن ابی ربیعہ ؓ حضرت ہاشم بن ابوحذیفہ ؓ حضرت ہبار بن سفیان ؓ حضرت عبداللہ بن سفیان ؓ حضرت معمر بن عبداللہ ؓ حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ حضرت قیس بن حذافہ ؓ حضرت ہشام بن عاص ؓ حضرت ابو قیس بن حارث ؓ حضرت سائب بن حارث ؓ حضرت حجاج بن حارث ؓ حضرت تمیم بن حارث ؓ حضرت سعید بن حارث ؓ حضرت سعید بن عمرو ؓ حضرت محمیہ بن جزاء ؓ حضرت حاطب بن حارث ؓ حضرت خطاب بن حارث ؓ حضرت سفیان بن معمر ؓ حضرت خالد بن سفیان ؓ حضرت جنادہ بن سفیان ؓ حضرت نبیہہ بن عثمان ؓ حضرت سلیط بن عمرو ؓ حضرت سکران بن عمرو ؓ حضرت مالک بن زمعہ ؓ حضر ت عمرو بن حارث ؓ حضرت عثمان بن عبدغنم ؓ ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ ۹ ۱۰ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ حضرت فاطمہ بنت علقمہ ؓ حضرت عمیرہ بنت سعدی ؓ حضرت حسنہ ام شرجیل ؓ حضرت حبیبہ بنت ابوسفیان ؓ حضرت ام سلمہ ؓ حضرت ربطہ بنت حارث ؓ حضرت رملہ بنت ابی عوف ؓ حضرت لیلی بنت ابی حتمہ ؓ حضرت سہلہ بنت سہیل ؓ ۱۱ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ حضرت ام کلثوم اسماء بنت عمیس ؓ حضرت فاطمہ بنت عمیس ؓ حضرت امینہ بنت خلف ؓ حضرت خزیمہ بنت جہم ؓ حضرت ام حرملہ ؓ حضرت فاطمہ بنت مجلل ؓ حضرت فکیہہ بنت یسار ؓ حضرت برکہ بنت یسار ؓ حضرت اسما بنت عمیس ؓ غریب مسلمانوں کو خانمان برباد کرنے کے بعد بھی قریش کی آتشِ غضب نہ ٹھنڈی ہوئی ،چنانچہ آنحضرت ﷺ کو اورآپ ﷺ کی حمایت کےبدلے میں بنوہاشم کا مقاطعہ کردیا، اورایک معاہدہ مرتب کیا،جس کی رو سے بنو ہاشم کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات جرم قراردیے گئے، اس ظالمانہ معاہدہ کے بعد بنو ہاشم شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہوگئے اورتین سال تک قید وبند میں گذارے ،بالآخر قریش کے ایک نرم دل آدمی ہشام بن عمرو کو بنو ہاشم کی بے کسی پر رحم آیا، اورانہوں نے چند معززین کی تائید سے اس معاہدہ کو منسوخ کرکے چاک کر ڈالا، اورہاشمیوں کو قید تنہائی سے نجات ملی۔ (سیرۃ ہشام: ا/ ۲۰۳،۲۰۵) حضرت ابوطالب اورحضرت خدیجہ ؓ کا انتقال اس معاہدہ کی تنسیخ کو تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے حامی اورچہیتے چچا ابوطالب کا انتقال ہوگیا، اس سانحہ کے تقریبا سوامہینہ بعدام المومنین حضرت خدیجہ ؓ نے بھی داغ مفارقت دیا اور دوڈھائی مہینہ کے اندر اندر آنحضرت ﷺ کے دونوں محافظ اُٹھ گئے۔ قریش کی ایذا رسانی اب قریش کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی، ابوطالب کی حمایت اورحضرت خدیجہ ؓ کا تمول اوران کی وجاہت سب ختم ہوچکے تھے، اس لیے ان کو دل کھولکر بھڑاس نکالنے کا موقعہ ملا اورانہوں نے کسی ممکن ایذارسانی سے دریغ نہ کیا،ان میں اکثر واقعات اوپر گذرچکے ہیں،ایک مرتبہ ایک گستاخ نے مٹی لاکر فرقِ مبارک پر جھونک دی، آپ اسی حالت میں گھر تشریف لائے،ایک صاحبزادی نے اس حالت میں دیکھا تو زاروقطاررونے لگیں، سرسے مٹی دھوتی جاتی تھیں اورآنسو بہتے جاتے تھے سرور عالم ﷺتشفی دیتے تھے کہ جان پدر مت رو،اللہ تمہارے باپ کو کفارکی دراز دستیوں سے روکنے والا ہے، اس موقع پر آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ابو طالب کی زندگی تک قریش میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہ کرسکے۔ (سیرۃ ابن ہشام : ا/۲۲۷) تبلیغ اسلام اورطائف کا سفر ابوطالب اورحضرت خدیجہ ؓ کے انتقال کے بعد مشرکین مکہ کے جو روستم نے سرزمین حرم آنحضرت ﷺ کے لیے تنگ کردی ،اس لیے آپ ﷺنے زید بن حارثہ ؓ کی معیت میں طائف کا رخ کیا، کہ شاید وہاں کچھ بندگانِ خدا توحید کی صدا پر لبیک کہیں، چنانچہ طائف پہنچ کر سردارانِ ثقیف کے سامنے اسلام پیش کیا، لیکن جواب کیا ملتا ہے؟ کیا اللہ نے تم کو بھیجا ہے؟ کیا اللہ کو تمہارے علاوہ دوسرا پیغمبر نہیں ملا؟ اللہ کی قسم ہم تم سے بات نہیں کرسکتے ؛کیونکہ اگر تم پیغمبر ہو جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو تم سے گفتگو کرنے میں بڑا خطرہ ہے اوراگر جھوٹے ہو، تو قابل التفات نہیں،(ایضا صفحہ ۲۳۹ زید بن حارثہ ؓ کا نام طبقات میں ہے) آپﷺ یہ جواب سن کر ایک گونہ مایوس ہوگئے ؛تاہم دس دن ٹھہر کر قبیلہ ثقیف کے ایک ایک سربرآوردہ شخص سے ملے؛ لیکن سب نے جواب دیا کہ محمد ﷺ ہمارے یہاں سے نکل جاؤ اورجہاں تمہاری آواز سننے والے ہوں وہاں جاؤ صرف اس جواب پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ کچھ اوباشوں کو لگادیا،جنہوں نے ذات اقدس پر سنگ باری شروع کردی اور اس قدر پتھر برسائے کہ آپ ﷺ کے دونوں پاؤں زخموں سے چور ہوگئے، زید بن حارثہ ؓ آپ ﷺ کو بچاتے تھے،اس مدافعت میں وہ بھی زخمی ہوئے۔ (ابن سعد حصہ سیرۃ :۱۴۳) مکہ کی واپسی اور مطعم بن عدی کی امان غرض اس طرح آپﷺ وہاں سے مغموم وناکام واپس ہوئے ،راستہ میں زیدبن حارثہ ؓ نے گذارش کی کہ مکہ میں ہم کس طرح رہ سکتے ہیں، جب کہ قریش ہمارے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اپنے مذہب کا حافظ وناصر ہے وہ خود ہماری حفاظت کا سامان کرے گا، چنانچہ اللہ نے آپ ﷺ کی حفاظت کا سامان کیا اورمطعم بن عدی نے اپنی پناہ میں لے کر عام اعلان کردیا کہ میں نے محمد ﷺ کو پناہ دی اس لیے کوئی آپ ﷺ کے ستانے کا ارادہ نہ کرے اورآپ ﷺ اطمینان سے ان کے گھرمیں رہنے لگے۔ (ابن سعد حصہ سیرۃ: ۱۴۲) مطعم بن عدی کا گھر اورتبلیغ اسلام اسلام اوربانیِ اسلامﷺ کے خلاف غیظ و غضب کا جو طوفان اٹھاتھا وہ طائف سے واپسی کے بعد پہلے سے بھی زیادہ تندہوگیا ؛لیکن آنحضرت ﷺ اس سے مطلق خوف زدہ اورمایوس نہ ہوئے،بلکہ مطعم بن عدی کے گھر میں بیٹھ کر اورقبائل کا دورہ کرکے بدستور اشاعتِ اسلام فرماتے رہے،اور اجتماع کا کوئی موقع ایسا نہ چھوڑا جس میں خدا کا پیغام نہ پہنچایا ہو، حج کے موسم میں حجاج کے فروگاہوں پر،بالخصوص عکاظ، مجنہ، اورذوالعکاظ کے بازاروں میں ،غرض جہاں کہیں اللہ کے کچھ بندے یکجا ہوتے، وہاں آپ ﷺ ان کے کانوں تک اس کا پیغام پہنچادیتے، پورے دس سال تک آپ ﷺ اس فرض نبوت کو نہایت جانفشانی اورتندہی کے ساتھ ادا کرتے تھے، جن قبائل میں آپ ﷺ نے گشت لگاکر پیغام خداوندی پہنچایا،ان کی فہرست حسب ذیل ہے: (زرقانی :۱/۳۵۹) بنوعامر،بنومحارب،بنوفزارہ، غسان ،مرہ، حنیفہ،سلیم، عبس، بنونضر، بکا،کندہ کعب، حارث بن کعب، عذرہ، حضارمہ،لیکن اس دعوت کا مشترک جواب یہ ملتا کہ آدمی کا قبیلہ اس آدمی کے حالات زیادہ جانتاہے، یعنی جب قریش نے تمہاری دعوت کو مسترد کردیا،تو دوسرے کیوں قبول کریں گے۔ تبلیغ کااثر قبائل پر اگر چہ عرب کے تمام قبائل میں اسلام کے خلاف یکساں فضا تھی ؛تاہم انفرادی طورپر ان میں ایسے نفوس صالحہ موجود تھے،جن کی فطرت سلیمہ دعوت حق سننے پر مستعدتھی، اوران کے قلب سیلم کا عارضی زنگ تھوڑی کوشش سے دور ہوسکتا تھا، چنانچہ کفرو ضلالت کے بیابان میں توحید کی آواز بالکل بے اثر نہ رہی؛ بلکہ کئی ایک قبائل میں اسلام کا خاصا اثرپڑا، ان قبائل اوران کے ان مقدس نفوس کا اجمالی خانہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے، اس سے اندازہ ہوگا کہ ہجرت کے قبل مکہ کی زندگی میں اسلام نے کن کن قبائل کو متاثر کیا۔ نام قبیلہ یا بطن اسمائے گرامی بنو ہاشم حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ،حضرت جعفر بن ابوطالب،حضرت علی بن ابو طالب ؓ موالیِ ہاشم حضرت آنسہ ؓ مولیٰ آنحضرت ﷺ حضرت ابوکبشہ ؓ مولیٰ آنحضرت ﷺ حضرت زید بن حارثہ ؓ مولیٰ آنحضرت ﷺ بنو مطلب حضرت عبیدہ بن حارث،حضرت طفیل بن حارث ؓ بنو مطلب کے حلیف حضرت ابومرثد محنوی ؓ حضرت مرثد بن ابی مرثد ؓ بنو عبدشمس حضرت عثمان بن عفان،حضرت خالد بن سعید ؓ بنوشمس کے حلیف حضرت عبداللہ بن جحش،حضرت ابواحمد بن جحش،حضرت عکاشہ بن محصن،حضرت شجاع بن وہب ؓ بنو شمس کے حلیف حضرت عقبہ بن وہب ؓ بنو نوفل کے حلیف حضرت عتبہ بن غزوان ؓ بنواسد بن عبدالعزیٰ حضرت زبیر بن عوام ؓ بنو اسد کے حلیف حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ بنو عبددار حضرت مصعب بن عمیر ؓ بنو عبدبن قصی حضرت طلیب بن عمیر ؓ بنی زہرہ بن کلاب حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص ،حضرت طلیب بی ازہر، حضرت عبداللہ صفر،حضرت عبداللہ بن شہاب ،عامر بن ابی وقاص ،حضرت مطلب بن ازہر ؓ بنی زہرہ کے حلیف حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت مقدادبن عمر، حضرت خباب بن ارت، حضرت مسعود بن ربیع، حضرت عتبہ بن مسعود ،حضرت شرجیل بن حسنہ ؓ بنو تیم بن مرہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ، حضرت عامر بن فہیرہ خادمِ صدیق اکبر، حضرت حارث بن خالد،حضرت عمروبن عثمان ؓ بنومخزوم بن یقظہ حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد، حضرت ارقم بن ارقم ،حضرت شماس بن عثمان، حضرت عیاش بن ابی ربیعہ، حضرت سلمہ بن ہشام ،حضرت ہاشم بن ابوحذیفہ، حضرت ہیار بن سفیان، عبداللہ بن سفیان ؓ بنو مخزوم کے حلیف حضرت عماربن یاسر،حضرت مصعب بن عوف ؓ بنو عدی حضرت عمر بن الخطاب،حضرت زید بن خطاب، حضرت سعید بن زید ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بنوعدی حضرت عمرو بن سراقہ، حضرت نعم النجام بن عبداللہ ،معربن عبداللہ، عدی بن نضلہ، عروہ بن ابی اثاثہ ،حضرت مسعود بن سوید، حضرت عبداللہ بن سراقہ ؓ حلیف بنوعدی حضرت عامر بن ربیعہ،حضرت عاقل بن ربیعہ، حضرت خالد بن ربیعہ، حضرت ایاس بن ربیعہ،حضرت عامربن ربیعہ،حضرت خولی بن ابی خولی،حضرت مہج بن صالح غلام عمربن خطاب ؓ بنو سہم حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت عبداللہ بن حذافہ، حضرت ہشام بن عاص، حضرت ابوقیس بن حارث،حضرت عبداللہ بن حارث، حضرت سائب بن حارث، حضرت حجاج بن حارث،حضرت تمیم بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت سعید بن عمرو ؓ بنی حمج بن عمرو حضرت عثمان بن مظعون ،حضرت عبداللہ بن مظعون، حضرت قدامہ بن مظعون، حضرت سائب بن عثمان،حضرت معمر بن حارث،حضرت خطاب بن حارث، حضرت سفیان بن معمر، حضرت خالد بن سفیان، حضرت جنادہ بن سفیان، حضرت نبیہ بن عثمان ؓ بنوعامر بن لوئی حضرت ابوسبرہ بن ابی رہم، عبداللہ بن مخزمہ، حضرت حاطب بن عمرو،حضرت عبداللہ بن سہیل،حضرت عمیر بن عوف ،حضرت وہب بن سعد، حضرت سلیط بن عمرو،حضرت سکران بن عمر،حضرت مالک بن زمعہ ؓ بنو فہر بن مالک حضر ابو عبیدہ بن جراح ،حضرت سہیل بن بیضاء، حضرت معمر بن ابی سرح، حضرت عیاض بن زہیر، حضرت عمرو بن حارث، حضرت عثمان بن عبد غنم ؓ بنو اسد عبدالعزیٰ حضرت سعید بن عبدقیس، حضرت خالد بن خرام، حضرت اسود بن نوفل، حضرت عمرو بن امیہ، حضرت یزید بن زمعہ ؓ بنو عبدار بن قصی حضرت ابوالروم بن عمیر ، حضرت فراس بن نضر، حضرت جہم بن قیس ؓ بنو عبد بن قصی کے حلیف حضرت ابو فکیہہ ؓ بنی سعد کے حلیف حضرت محمیہ بن جزاء ؓ قبیلہ دوس حضرت معیقب بن ابی فاطمہ دوسی ، حضرت فطیل بن عمرو دوسی رئیس قبیلہ ؓ قبیلۂ دوس کی خواہش جب مکہ میں چاروں طرف مشرکین کی یورش اوردشمنان اسلام کا نرغہ تھا، اس وقت بھی اطراف مکہ کے وہ قبائل جن پر اسلام کا پر تو پڑچکا تھا،ذاتِ نبوی ﷺ کی حمایت اورامداد پر آمادہ تھے، چنانچہ قبیلہ دوس جو مستحکم قلعہ کا مالک تھا، اس کے سردار طفیل بن عمرو ؓ نے خواہش کی آنحضرت ﷺ یہاں ہجرت کرآئیں،لیکن آپ ﷺ نے انکار کردیا،(مسلم جلد ۱،باب الدلیل علی ان قاتل نفسہ لایکفر) اسی طریقہ سے ایک ہمدانی نے آپ ﷺ کی حفاظت پر آمادگی ظاہر کی،(مستدرک حاکم:۲/۶۱۳)حکم الہیٰ کا آپ ﷺکو انتظار تھے۔ مدینہ کاخواب بالآخرجس چیز کا انتظار تھا، آنحضرت ﷺ کوخواب میں اس کا مشاہدہ کرادیا گیا، اورآپ ﷺ نے خواب دیکھا کہ مکہ سے کھجوروں والی زمین میں ہجرت کررہے ہیں، اس سے آپ ﷺ یمامہ یا ہجر سمجھے،لیکن درحقیقت یہ یثرب (مدینہ)کی بابرکت زمین تھی۔ (بخاری :۱/۵۵۱) اہل مدینہ کا قبول اسلام اوپر گذرچکا ہے کہ آنحضرت ﷺ حج کے موسم میں حجاج میں تبلیغ اسلام فرماتے تھے،اس سلسلہ میں آپ ﷺ کو چند خزرجی اشخاص ملے،آپ ﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا،ان کا آئینۂ قلب اس کے پہلے ہی عکس میں توحید کے پر تو سے چمک اُٹھا ،البتہ ان کی تعداد اوراولیت میں اختلاف ہے کہ پہلی مرتبہ کتنے لوگ مشرب باسلام ہوئے اوروہ کون کون لوگ تھے،ان کی تعداد باختلاف روایت ۲،۶ اور ۸ ہے ،لیکن ۶ کی روایت راجح ہے اوراس صورت میں واقعہ کی صورت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو موسم حج میں بنو نجار کے کچھ آدمی ملے،آپ ﷺنے دریافت فرمایا کہ تم یہود کے حلیف ہو، انہوں نے اثبات میں جواب دیا، آپ ﷺ نے اسلام پیش کیا، اورقرآن کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں اور وہ لوگ مشرب باسلام ہوگئے۔ ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: حضرت اسعد بن زرارہ ،حضرت عوف بن حارث ،حضرت رافع بن مالک ،حضرت قطبہ بن عامر، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت جابر بن عبداللہ انصار کی پہلی بیعت دوسرے سال موسم حج میں خزرج کے بارہ آدمی آئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کی،یہ بیعت جہاد نہ تھی، بلکہ چند اخلاقی باتوں کا عہد تھا ،یعنی شرک، چوری،زنا،قتل اولاد،اوربہتان سے احتراض،اورامر بالمعروف میں اطاعت، یہ لوگ جب بیعت کرکے واپس جانے لگے تو آنحضرت ﷺ نے مصعب بن عمیر ؓ کو تعلیم قرآن کے لیے ساتھ دیا یہ وہاں امامت بھی کرتے تھے۔ ( سیرۃ ابن ہشام :۱/۳۳۷) انصار ؓ کی دوسری بیعت تیسری مرتبہ خزرجی مسلمان بہتر اشخاص اپنے ساتھ لائے، اوران سبھوں نے بیعت کی مگر یہ بیعت آسان نہ تھی، اس میں جان کی بازی تھی کہ وہ ہزاروں دشمنان اسلام کے درمیان آنحضرت ﷺ کی حفاظت اپنے اہل و عیال کی طرح کریں گے۔ (ایضاً ص ۲۵۳ تا ۲۶۳ سے لی گئی ہے) عام ہجرت انصار ؓ کی بیعت اوراذن ہجرت کے بعد ستم رسید مسلمانوں کے لیے ،بیت الامن مدینہ کی شاہراہ کھل گئی اورآنحضرت ﷺ نے عام مسلمانوں کو مژدہ سنادیا اور ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا،سب سے پہلے حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد اورعامر بن ربیعہ ؓ نے ابتداء کی(سیرۃ ابن ہشام :۱/۲۵۶) اس کے بعد مسلمان ہر طرف سے جوق درجوق اس جائے پناہ میں آنے لگے ان کی فہرست بہت طویل ہے اکثروں کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ عبداللہ بن جحش ؓ ابواحمد بن جحش ؓ عکاشہ بن محصن ؓ شجاع بن وہب ؓ عقبہ بن وہب ؓ ارید بن حمیرہ ؓ منقذبن بناتہ ؓ یزید بن رقیش ؓ سعید بن رقیش ؓ محرز بن نضلہ ؓ قیس بن جابر ؓ عمروبن محصن ؓ مالک بن عمرو ؓ صفوان بن عمرو ؓ ثقیف بن عمرو ؓ ربیعہ بن کثم ؓ زبیر بن عبیدہ ؓ تمام بن عبیدہ ؓ سنجرہ بن عبید ؓ محمد بن عبداللہ بن جحش ؓ عمربن خطاب ؓ عیاش بن ابی ربیعہ ؓ زید بن خطاب ؓ عمروبن سراقہ ؓ عبداللہ بن سراقہ ؓ خنیس بن حذافہ ؓ سعید بن زید ؓ عمروبن نفیل ؓ وقادبن عبداللہ ؓ خولی بن ابی خولیٰ ؓ مالک بن ابی خولی ؓ ایاس بن بکیر ؓ عامر بن بکیر ؓ عاقل بن بکیر ؓ خالد بن بکیر ؓ طلحہ بن عبید اللہ ؓ صہیب بن سنان ؓ حمزہ بن مطلب ؓ زید بن حارثہ ؓ کنانہ بن حصین ؓ آنسہ ؓ ابوکبشہ ؓ عبیدہ بن حارث ؓ طفیل بن حارث ؓ حصین بن حارث ؓ مسطح بن اثاثہ ؓ سوئیط بن سعد ؓ طلیب بن عمیر ؓ جناب مولی عتبہ بن ؓ غزوان ؓ زبیر بن عوام ؓ ابوسبرہ ؓ مصعب بن عمیر ؓ ابوحذیفہ ؓ سالم مولیٰ ابو حذیفہ ؓ عتبہ بن غزوان ؓ عثمان بن عفان ؓ مستورات زینب بنت جحش ؓ ام حبیب بنت جحش ؓ جذامہ بنت جندل ؓ ام قیس بنت محصن ؓ ام حبیب بنت ثمامہ ؓ آمنہ بنت رقیش ؓ سنجرہ بنت تمیم ؓ حمنہ بنت جحش ؓ ام سلمہ ؓ ہجرت کا سلسلہ فتح مکہ تک کیوں قائم رہا اوراس کے کیا اسباب تھے مدینہ آنے کے بعد مسلمانوں کی زندگی بڑی حد تک محفوظ ومطمئن ہوگئی تھی ؛تاہم ہجرت عظمی کے بعد اس کا سلسلہ منقطع نہیں کیا گیا اورکچھ نہ کچھ لوگ برابر ہجرت کرتے رہے،اس کے متعدد وجوہ واسباب تھے، اول یہ کہ ابھی بہت سے ستم رسیدہ مسلمان مشرکین کے پنجہ ظلم میں اسیر تھے،جب جب ان کی گلو خلاصی ہوتی گئی،مدینہ آتے گئے،دوسرے یہ کہ ان مسلمانوں کے لیے جو مکہ سے دور دراز مقامات پر رہتے تھے،اتنا وقت درکار تھا کہ ہجرت کے لیے ضروری انتظامات کرسکیں تیسرا اور سب سے اہم سبب یہ تھا کہ ہجرت کے بعد بھی اسلام میں اتنی قوت پیدا نہ ہوئی تھی کہ وہ اپنے ان پرستاروں کے جان و مال کی پوری حفاظت کرسکے، جو مدینہ کے علاوہ دوسرے مقامات پر رہتے تھے اور یہ اس وقت تک ناممکن تھا جب تک کہ مشرکین کی قوت نہ ٹو ٹ جائے اوران کا سب سے بڑا قافلہ اورمرکز مکہ مکرمہ مسلمانوں کے قبضہ میں نہ آجائے اس لیے ہجرت کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہا جب تک خانہ کعبہ پر توحید کا علم نصب نہ ہوگیااور ہجرت عظمیٰ کے بعد سے فتح مکہ تک برابر مسلمان آتے رہے ؛چنانچہ غزوۂ خیبر کے قبل تک جو فتح مکہ کے کچھ ہی دن پیشتر ہوا قابل ذکر اشخاص میں سعید بن عامر بن خدیم ؓ، حجاج بن علاط اورعوف بن مالک اشجعی ؓ آئے، پھر عین غزوۂ خیبر کے موقعہ پر مہاجرین حبش کا پورا قافلہ مدینہ آگیا،ان سب کے نام اوپر لکھے جا چکے ہیں، پھر فتح مکہ کے کچھ دن پہلے مسلمانوں کی کافی تعداد آئی،جن میں ذیل کے اشخاص قابل ذکر ہیں، حضرت عمروبن عاص ؓ،خالد بن ولید ؓ، مغیرہ بن شعبہ ؓ، سلمہ بن اکوع ؓ، ابوہریرہ ؓ دوسی ؓ،عبداللہ بن ابی اوفی ؓ، ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ، سلیمان بن صرد ؓ، اوریہ سلسلہ فتح مکہ تک قائم رہا،فتح مکہ کے دن آنحضرت ﷺ نے اعلان فرمادیا کہ: لاھجرۃ بعد الفتح الاجھادونیۃ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں، اب صرف جہاد اورنیت کا ثواب ہے۔ کیونکہ اب اسلام کو کل عرب میں امن و امان حاصل ہوگیا تھا اورمسلمانوں کی حفاظت کیلئے کسی خاص دارالامان کی ضرورت نہیں تھی۔