انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امین الرشید بن ہارون الرشید محمدامین بن ہارون بن مہدی بن منصور عباسی زبیدہ خاتون کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا، امین ومامون دونوں ہم عمر تھے، ہارون الرشید نے اپنے بعد امین کوتختِ خلافت کا وارث مقرر کیا تھا؛ لیکن ساتھ ہی مامون کوخراسان وغیرہ ممالکِ مشرقیہ کا مستقل حاکم بناکر امین کووصیت کی تھی کہ مامون کوخراسان کی حکومت سے معزول نہ کرے اور مامون کونصیحت کی تھی کہ امین کی اطاعت وسیادت سے انکار نہ کرے، طوس میں جب ہارون الرشید کا انتقال ہوا ہے تومامون مرو میں تھا اور امین بغداد میں صالح ہارون الرشید کے ہمراہ تھا، ہارون کی وفات سے اگلے دن یعنی ۴/جمادی الثانی سنہ۱۹۳ھ کوطوس میں لشکر ہارون اور موجودہ سرداروں نے امین کی خلافت پرنیابۃً صالح کے ہاتھ پربیعت کی اور محکمہ ڈاک کے افسرحمویہ نے فوراً اپنے نائب کوجوبغداد میں تھا اس واقعہ کی اطلاع دی؛ چنانچہ اسی نے فوراً امین کوہارون الرشید کے مرنے اور اس کے خلیفہ تسلیم ہونے کی خبرسنائی، صالح بن ہارون الرشید نے بھی اپنے بھائی امین کی خدمت میں اس واقعہ کولکھا اور خلافت کی مبارکباد دی اور ساتھ ہی خاتم خلافت، عصاء اور چادر بھیج دی، ان ایام میں ہارون الرشید کی بیوی اور امین کی ماں زبیدہ خاتون شہررقہ میں اقامت گزین تھی اور خزانۂ خلافت اُسی کے قبضہ میں تھا، امین نے ان خبروں اور خطوں کے آنے پرجامع مسجد میں جاکرلوگوں کے سامنے خطبہ دیا، خلیفہ ہارون الرشید کی وفات کا حال سنایا اور لوگوں سے بیعت لی، زبیدہ خاتون اس خبر کوسن کررقہ سے بغداد کی طرف معہ خزانۂ شاہی روانہ ہوئی اس کے آنے کی خبر سن کرامین نے مقام انبار میں اس کا استقبال کیا اور عزت واحترام کے ساتھ بغداد میں لایا، مامون نے مرو میں باپ کے مرنے کی خبر سنی توامیروں اور سپہ سالاروں کوجووہاں موجود تھے، جمع کیا اور اپنے لیے مشورہ طلب کیا کہ مجھ کواب کیا کرنا چاہیے، ان امیروں اور سپہ سالاروں میں عبداللہ بن مالک یحییٰ بن معاذ، شبیب بن حمید بن قحطبہ، علاء حاجب، عباس بن زہیر، ایوب بن ابی سمیر، عبدالرحمن بن عبدالملک بن صالح، فضل بن سہل، قابل تذکرہ تھے، بغداد سے روانہ ہوکر جرجان تک مامون اور یہ تمام سردار بھی ہارون الرشید کے ہمراہ تھے اس سفر میں فضل بن سہل نے سپہ سالاروں اور سرداروں کومامون کی جانب مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور بہت سے سرداروں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم مامون کی طرفداری میں ضرور حصہ لیں گے؛ لیکن فضل بن ربیع امین کا طرفدار تھا، اب بعد وفاتِ ہارون فضل بن ربیع کی کوشش سے سب کے سب جوطوس میں موجود تھے، امین کی بیعت کرکے بغداد کی جانب روانہ ہوگئے اور اس بات کا مطلق خیال نہ کیا کہ ہارون کی وصیت کے موافق ہم کومامون کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے؛ کیونکہ اس تمام لشکر اور سامان کا مالک مامون ہے، یہ سردار جومامون کے پاس تھے، ہارون الرشید کی وصیت کے موافق ممالکِ مشرقیہ پراس کی حکمرانی کے مؤید اور ہرطرح اسی کے ہوا خواہ تھے ان میں سے بعض نے یہ مشورہ دیا کہ فضل بن ربیع ابھی راستہ میں ہے، یہاں سے فوج بھیج کراس کومرو کی جانب واپس لایا جائے؛ مگرفضل بن سہل نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اگراس طرح ان لوگوں کوواپس لایا گیا تواندیشہ ہے کہ وہ دھوکا دیں گے اور موجب نقصان ثابت ہوں گے، ہاں مناسب یہ ہے کہ اُن لوگوں کے پاس جنھوں نے فرمانبرداری کا اقرار کرکے اعانت وہمدردی کے وعدے کئے تھے، پیغام بھیجا جائے اور اُن کوہارون الرشید کی وصیت اور ان کے وعدے یاد دلائے جائیں۔ چنانچہ دوقاصد روانہ ہوئے، وہ جب فضل وغیرہ کے پاس پہونچے تواُنھوں نے سب کواپنا دشمن پایا، بعض نے توعلانیہ مامون کوگالیاں بھی دیں، یہ دونوں قاصد مشکل سے اپنی جان بچاکرواپس آئے اور حالات جوکچھ دیکھ کرآئے تھے، سنائے، مامون کویقین تھا کہ مجھ کوممالکِ مشرقیہ پرقابض نہ رہنے دیا جائے گا، اس لیے وہ بہت فکر مند اور پریشان تھا، ادھرفضل بن سہل نے اس بات کا بیڑہ اُٹھایا کہ مامون کوخلیفہ بناکررہوں گا، مامون کے ہمراہیوں میں ایسے لوگ بھی تھے، جومامون کے خلیفہ ہونے کوناپسند کرتے تھے؛ مگرممالک مشرقیہ پراس کے قابض رہنے کے خواہاں تھے، فضل بن سہل اور اُس کے ہم خیال لوگ امین کی خلافت کوناپسند کرتے تھے اور مامون ہی کوخلیفہ بنانےکے خواہاں تھے، فضل بن سہل کا باپ سہل ایک نومسلم مجوسی تھا، جوہارون الرشید کے زمانے میں مسلمان ہوا تھا، ہارون نے اس کے بیٹے فضل کومامون کا کاتب مقرر کیا تھا، مجوسی النسل ہونے کی وجہ سے وہ مامون کوخلیفہ بنانا چاہتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ امین کی ماں ہاشمیہ تھی اور وہ عربوں کی حمایت اپنے ساتھ رکھتا تھا، مامون کی ماں ایرانی النسل تھی، اس لیے ایرانی وخراسانی لوگ مامون کے ہوا خواہ تھے، امین بغداد میں عربوں کے اندر موجود تھا اور مامون اپنے حامیوں یعنی ایرانیوں کے اندر مرو میں تھا، زبیدہ خاتون مامون سے متنفر تھی اور عربی سردار جوعباسیوں کے ہواخواہ تھے وہ علویوں کوناپسند کرتے تھے؛ لیکن خراسان میں علویوں کے حامی بکثرت موجود تھے، جعفر برمکی جوعلویوں کا طرفدار تھا مامون کا آتالیق تھا؛ لہٰذا مامون کی قبولیت خراسان وغیرہ ممالکِ مشرقیہ میں زیادہ تھی، فضل بن ربیع وغیرہ جوبرامکہ سے متنفر تھے، مامون سے بھی ناخوش تھے؛ غرض کہ مامون وامین کے دل صاف نہ تھے اور ان دونوں کے گرد ایسے سردار جمع تھے جودوگروہوں میں منقسم تھے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کا مخالف تھا؛ لہٰذا ہارون کے مرتے ہی ان دونوں گروہوں نے امین ومامون کی پیشوائی میں ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائی کی تیاریاں شروع کردی تھیں اور ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن نہ تھے، مامون نے اہلِ خراسان کی استمالتِ قلوب کے لیے خراسان کا چوتھائی خراج معاف کردیا اور خراسانی سرداروں سے ترقیات وقدردانی کے بڑے بڑے وعدے کیے، اہلِ ایران خوش ہوہوکر کہتے تھے کہ مامون الرشید ہمارا ہمشیر زادہ ہے وہ ضرور ہمارے مرتبہ اور اقتدار کوبڑھائے گا ادھر مامون نے مرو کے علماء وفقہاء کوبلاکر کہا کہ آپ لوگ وعظ وپند کے ذریعہ لوگوں کے خیالات کی تربیت کریں اور حالات کوقابو میں رکھیں، ان تمام حالات کے موجود ہوتے ہوئے مامون الرشید نے سب سے بڑی عقلمندی یہ کی کہ امین الرشید کی خدمت میں مؤدبانہ عرضی لکھ کربھیجی اور ہدایا وتحائف روانہ کرکے اپنی نیاز مندی وفرمانبرداری کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ اگرخلیفہ امین الرشید کی طرف سے عزم ومآل اندیشی کے ساتھ کام لیا جاتا تومامون الرشید ہی کی طرف سے ناجائز وناشدنی حرکات کا ظہور ہوتا اور وہی ملزم قرار پاکر اہل عالم کی نگاہوں میں مطعون وبدنام ہوتا اور شاید اس کوکامیابی بھی حاصل نہ ہوتی؛ لیکن فضل بن ربیع اور دوسرے مشیر امین کے لیے اچھے مشیر ثابت نہ ہوئے اور امین سے کسی دانائی ہوشیاری کا ظہور نہ ہوا؛ بلکہ اس نے اپنے کاموں سے بہت جلد لوگوں کویقین دلایا کہ وہ ہارون الرشید کے تخت کوسنبھالنے کی قابلیت نہیں رکھتا، اس نے تختِ خلافت پرقدم رکھتے ہی پہلی غلطی یہ کی کہ اپنے بھائی قاسم یعنی مؤتمن کوجزیرہ کی حکومت سے معزول کرکے اس کے پاس صرف قنسرین وعواصم کا صوبہ باقی رکھا اور جزیرہ کی حکومت پراپنی طرف سے خزیمہ بن خازم کومامور کرکے بھیج دیا؛ اسی سال یعنی اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں اُس نے فضل بن ربیع کے مشورے سے اپنے بیٹے موسیٰ بن امین کوبجائے مامون کے ولی عہد بنانا چاہا اور مامون کوخود مخالفت کا موقعہ دے دیا، جس زمانہ میں ہارون الرشید خراسان کوجارہا تھا تواس نے یہ اعلان کردیا تھا کہ یہ لشکر اور تمام سامان مامون الرشید کے پاس خراسان میں رہے گا اور مامون ہی اس کا مالک ہے؛ لیکن فضل بن ربیع تمام سامان اور تمام لشکر کوجووفاتِ ہارون کے وقت طوس میں موجود تھا لے کربغداد کی طرف چل دیا اور اس طرح مامون کوبہت کمزور کرگیا، اس لیے فضل بن ربیع کویہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگرامین کے بعد مامون خلیفہ ہوگیا اور جلدی اس کوتختِ خلافت پہونچ گیا تووہ میرے ساتھ ضرور براسلوک کرے گا؛ لہٰذا اس نے یہ کوشش کی کہ مامون کوولی عہدی سے معزول کرادیا جائے؛ یہی خطرہ علی بن عیسیٰ سابق گورنرخراسان کوبھی اپنی نسبت تھا؛ لہٰذا اس نے بھی فضل بن ربیع کے اس مشورہ کی تائید کی اور امین کومامون کی معزولی پرآمادہ کردیا؛ مگرخزیمہ بن خازم کے روبرو جب یہ مسئلہ پیش کیا گیا تواس نے اس رائے کی سخت مخالفت کی اور خلیفہ کوسردست اس کام سے روک دیا، یہ خبریں مامون کے پاس پہونچ رہی تھیں؛ مگراس نے اس کے متعلق بالکل خاموشی اختیار کی اور نتیجہ کا منتظر رہا۔