انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تاریخ اسلام کی کیفیت اورحقیقت تاریخ اسلام درحقیقت ایک مستقل علم یا فن ہے جو اپنے پہلو میں ہزار ہا ضخیم کتابیں بالغ نظر اور عالی مقام مصنفین کی لکھی ہوئی رکھتا ہے،عام طور پر مسلمان مؤرخین نے اپنے ہم عہد سلاطین یا کسی ایک ملک یا کسی ایک قوم یا کسی ایک سلطنت یا کسی ایک سلطان یا کسی ایک عظیم الشان واقعہ کی تاریخیں جُدا جُدا لکھی ہیں، بعض مؤرخین نے صرف علمائے اسلام،بعض نے صرف حکمائے اسلام بعض نے صرف فقرائے اسلام کی سوانح عمریاں ترتیب دی ہیں، غرض اس قسم کی مستند تاریخی کتابیں ہزارہا سے کم ہر گز نہیں ہیں، اس عظیم الشان ذخیرہ اور مجموعہ کا نام تاریخ اسلام یا فن تاریخ اسلام قرار دیا جاسکتا ہے اور جوں جوں زمانہ گذرتا جاتا ہے اس ذخیرہ کتب میں اضافہ ہوتا جاتا ہے،اسلامی سلطنتوں اوراسلامی ملکوں کی تعداد بھی اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ایک ایک اسلامی ملک اورایک ایک اسلامی سلطنت کی ایک ہی ایک تاریخ انتخاب کی جائے تو یہ منتخب مجموعہ بھی دوچار الماریوں میں نہیں ؛بلکہ کتب خانہ کے کئی کمروں میں سما سکتا ہے ،اُردو زبان میں ایک متوسط درجہ کی تاریخ مرتب کرنا درحقیقت تاریخ اسلام کی کتابوں کا عطر نکالنا اورخلاصہ درخلاصہ کرنا ہے،کسی بہت بڑے منظر کا فوٹو ایک کار ڈ پر لے لینا یا کسی عظیم الشان عمارت کی عکسی تصویر کو دانۂ تسبیح کے سوراخ میں رکھ دینا بہت ہی آسان کام ہے لیکن تاریخ اسلام کو کسی ایک کتاب میں جس کی ضخامت صرف دو ہزار صفحات کے قریب ہو مختصر کردینا بے حد دشوار ارنہایت مشکل کام ہے،اسی لئے میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہوں یا نہیں، اس کا فیصلہ قارئین کرام ہی کرسکیں گے کہ میری یہ کتاب تاریخ اسلامی کے متعلق کیا حیثیت رکھتی ہے اورمسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ جہاں تک واقعات کا تعلق ہے میں نے اس واقعہ اوراس زمانہ کی مستند سے مستند تاریخ کو تلاش کیا اور کئی کئی مؤرخین کی تاریخوں کو لے کر اُن کو پڑھ کر خود اُس واقعہ کی نسبت ایک صحیح اورپختہ رائے قائم کی اُس کے بعد پھر اپنے الفاظ میں اُس کو حتی الامکان مختصر طور پر لکھا ،جہاں کہیں مؤرخین کے اختلاف نے ایسی صورت اختیار کی کہ فیصلہ کرنا اورکسی ایک نتیجہ کو مرحج قراردینا دُشوار معلوم ہوا وہاں ہر مؤرخ کے الفاظ کو بجنسہ معہ حوالہ ترجمہ کردیا ہے ،جہاں کہیں استخراج نتائج اوراظہار رائے کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں بلا تکلف میں نے اپنی رائے کا اظہار اوراہم نتائج کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے،چونکہ یہ تاریخ اُردو زبان میں لکھی گئی ہے لہذا ہندوستانی مسلمان ہی اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے،بنا بریں میں نے اُن اسلامی ممالک اوراُن حکمران مسلمان خاندانوں کے متعلق کسی قدر زیادہ توجہ اور تفصیل سے کام لیا ہے جن کو ہندوستان اورہندستانی مسلمانوں سے زیادہ تعلق رہا ہے یا جن کو ہندوستانی زیادہ جانتے اور زیادہ پہنچانتے ہیں تاہم جن اسلامی ممالک یا جن مسلم حکمران خاندانوں کو ہندوستان والے کم جانتے پہچانتے ہیں، اُن سے واقف کرانے اوراسلامی تاریخ کا مکمل نقشہ پیش کرنے میں کوئی کوتاہی عمل میں نہیں آئی ہے،صحابہ کرامؓ اور مابعد زمانہ کے اسی قسم کے مشاہیر کی نسبت جن کو کسی نہ کسی اسلامی فرقہ یا گرو سے کوئی خصوصی تعلق ہے حالات لکھنے میں میں نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ایسی تفصیلات سے پرہیز کروں جو مسلمانوں کے اندر نا اتفاقی پیدا کرنے یا جمعیتِ اسلامی کو نقصان پہنچانے کا موجب ہوسکیں، لیکن اس احتیاط کو میں نے اس قدر زیادہ اہمیت ہر گز نہیں دی ہے کہ میری کتاب کی تاریخی حیثیت اورمیری مؤرخانہ شان کو کوئی صدمہ پہنچ سکے میں نے اس کتاب کو ایک اسلامی خدمت اور عبادت سمجھ کر لکھا ہے اور اس لیئے خدا ئے تعالیٰ سے اجر وثواب کا متوقع ہوں۔ میں اپنی کم بضاعتی وبے مائیگی کا اقرار کرتا ہوں کہ قدم قدم پر میرا ٹھوکر کھانا ممکن اورغلطی سے پاک ومبرار رہنا عجائبات میں شمار ہوسکتا ہے جو صاحب بغرض اصلاح نکتہ چینی کریں گے میں اُن کو محسن سمجھوں گا،جو صاحب حسد وعداوت کی بنا پر میری عیب شمار ی میں مصروف ہوں گے اُن کو میں حوالہ بہ خدا کرتا ہوں۔ اکبر شاہ خاں ،نجیب آباد یکم محرم الحرام ۱۳۴۳ھ