انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۵)حضرت ابوہریرہؓ الدوسی الیمانی (۵۸ھ) جاہلیت میں نام عبدالشمس تھا، والد نے کنیت ابوہریرہ رکھی، اسلام لانے کے بعد عبدالرحمن سے موسوم ہوئے، خیبر کے سال اسلام لائے، مدینہ ہجرت کی، اصحابِ صفہؓ میں سے تھے، حضورﷺ سے علمِ کثیر پایا، حضورﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور دوسرے کئی اور صحابہؓ سے روایات لیں، امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ آپؓ سے آٹھ سوکے قریب لوگوں نے روایات لیں، ممتاز شاگردوں میں ہمام بن منبہ (۱۱۰ھ)، سعید بن المسیب (۹۳ھ)، مجاہد (۱۰۰ھ)، علامہ شعبی (۱۰۳ھ)، ابن سیرین (۱۱۰ھ)، عطاء بن ابی رباح (۱۱۵ھ)، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اسماء خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، ابوصالح السمان کہتے ہیں: "کان ابوہریرۃ من احفظ اصحاب محمدﷺ "۔ اور وہ خود فرماتے ہیں: "لااعرف احدًا من اصحاب رسول اللہﷺ احفظ لحدیثہ منی"۔ (تذکرہ:۱/۳۴) ترجمہ: حضورﷺ کے صحابہؓ میں سے کسی کونہیں جانتا کہ وہ مجھ سے حضورﷺ کی احادیث کا زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ جہاں تک روایت کا تعلق ہے توآپؓ سوائے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاصؓ کے باقی سب صحابہؓ سے آگے تھے اور وجہ یہ تھی کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضورﷺ سے حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لکھتے نہ تھے۔ (بخاری:۱/۳۷) آنحضرتﷺ نے آپؓ کوقوتِ حافظہ کا دَم کیا تھا، حضرت ابوہریرہؓ اس کے بعد کبھی نہ بھولے، آپؓ سے ساڑھے پانچ ہزار کے قریب حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے صحیح بخاری میں ۴۴۸/ اور صحیح مسلم میں ۵۴۵/حدیثیں مروی ہیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوہریرہؓ نے بھی احادیث لکھنی شروع کردی تھیں، آپؓ اپنے تلامذہ کویہ تحریرات گاہے بگاہے دکھا بھی دیتے تھے (جامع بیان العلم:۱/۴۷) آپؓ کے شاگردوں نے جوحدیثی مجموعے تیار کیئے اُن میں ہمام بن منبہؒ کا صحیفہ بہت معروف ہے اور چھپ بھی چکا ہے۔ اس درجہ کے عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ آپؓ بلند پایہ فقیہ بھی تھے، امام ذہبیؒ نے "الفقیہ صاحبِ رسول اللہ" کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ کاتعارف کرایا ہے اور لکھا ہے: "کان من اوعیۃ العلم ومن کبارائمۃ الفتویٰ مع الجلالۃ والعبادۃ والتواضع"۔ (تذکرہ:۳۱) ترجمہ:علم کا محفوظ خزانہ تھے فتوےٰ دینے والے بڑے ائمہ میں سے تھے، جلالۃ عبادت اور توضع والے تھے۔