انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتنہ مختار مختار بن عبیدہ بن مسعود ثقفی کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ جب سلیمان بن صروتوابین کے گروہ کولے کر خونِ حسین کا بدلہ لیے کے لیئے کوفہ سے نکلا توکوفہ کے گورنر نے انتظاماً مختار کوقید کردیا تھا، توابین کے بقیۃ السیف جب کوفہ میں واپس آئے تومختار نے جیل خانہ سے تعزیت کے طور پرایک خط لکھ کربھیجا کہ تم لوگ بالکل غم نہ کرو اور مطمئن رہو؛ اگرمیں زندہ رہا توضرورتمہارے سامنے شہدا اور حضرت امام حسین کے خون کا عوض قاتلین سے لوں گا، ایک کوبھی نہ چھوڑوں گا اور ایسا خون بہاؤں گا کہ لوگوں کوبختِ نصر کا زمانہ یاد آجائے گا کہ اس نے بنی اسرائیل کوکس طرح قید کیا تھا؛ پھرلکھا تھا کہ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی ہے جوخونِ حسین کا قصاص لینا چاہتا ہو اور وہ اس کام کے لیے مجھ سے عہد کرلے۔ اس خط کورقاعہ بن شداد ثینی بن مخربہ عبدی، سعد بن حذیفہ بن الیمان یزید بن انس احمر بن شمیط حمسی، عبداللہ بن شداد یملی، عبداللہ بن کامل وغیرہ توابین نے پڑھا اور بے حد مسرور ہوئے کہ خدا کا شکر ہے کہ ابھی ایک اسیا شخص موجود ہے جوخونِ حسین کے لیے اپنے دل میں جوش اور اولوالعزم رکھتا ہے؛ چنانچہ رفاعہ بن شداد چار پانچ آدمیوں کولے کر جیل خانہمیں گیا اور اجازت حاصل کرنے کے بعد مختار سے ملا اور کہا کہ ہم آپ کوجیل خانہ توڑ کرنکال لے جائیں گے اور قید سے آزاد کردیں گے، مختار نے کہا نہیں آپ بالکل تکلیف نہ کیں، میں خود جب چاہوں آزاد ہوسکتا ہوں اور کوفہ کا گورنر عبداللہ بن یزید مجھ کوآپ ہی رہا کرے گا ابھی وہ وقت نہیں آیا، تم چند روز صبر کرو۔ توابین کے ہزیمت خوردہ واپس آنے سے پہلے مختار ایک خط جیل خانہ ہی سے کسی کے ہاتھ حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس روانہ کرچکا تھا، اس میں لکھا تھا کہ مجھ کوعبداللہ بن یزید حاکم کوفہ نے قید کررکھا ہے، آپ عبداللہ بن یزید کومیری سفارش کا خط لکھ دیں، میں مظلوم ہوں، آپ کوخدائے تعالیٰ سفارش کا ثواب عطا کرے گا، مختار کویقین تھا کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ضرور سفارش فرمادیں گے اور میں قید سے آزاد ہوجاؤں گا، اس حقیقت کوچھپاکر رفاعہ سے اس نے اس انداز میں اپنی راہائی کی نسبت باتیں کیں جس سے اس کی کرامت کا سکہ بیٹھے؛ چنانچہ چند روز کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر کا سفارشی خط عبداللہ بن یزید کے پاس آیا اور اس نے ان کی سفارش کی تکریم میں مختار بن عبیدہ کوجیل خانہ سے بلاکرکہا کہ میں تم کوقید سے آزاد کرتا ہوں؛ مگرشرط یہ ہے کہ تم کسی قسم کی شورش کوفہ میں نہ پھیلاؤ اور اپنے گھر ہی میں بیٹھے رہو، مختار نے اقرار کرلیا اور قید سے آزاد ہوکر اپنے گھر آبیٹھا، شیعانِ حسین نے اس کی اس اچانک آزادی کواس کی کرامت پرمحمول کیا اور اس کے پاس عقیدت ونیازمندی کے ساتھ آنے جانے لگے، عقیدت مندوں کی یہ آمدورفت پوشیدہ طور پرہوتی تھی، کچھ دن اس حالت میں گزرے کہ اتنے میں امیرالمؤمنین حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن یزید کومعزول کرکے عبداللہ بن مطیع کوکوفہ کی حکومت پربھیج دیا، عبداللہ بن مطیع ۲۵/رمضان سنہ۶۶ھ کوکوفہ پہنچا اس عزلونصب کوبھی مختار نے اپنی حکومت پرمحمول کیا اور پرانے حاکم کے کوفہ سے چلے جانے کے بعد اپنی پابندی کوتوڑکراور بھی آزادی برتنی شروع کی، لوگوں کی آمدورفت اس کے پاس زیادہ ہونے لگی اور اس کے متبعین کی جماعت حیرت انگریز طور پرترقی کرگئی، عبداللہ بن مطیع نے ایاس بن ابی مضارب کوکوتوال شہر مقرر کیا تھا، ایاس نے ایک روز عبداللہ بن مطیع گورنرکوفہ سے کہا کہ مختار کی جماعت خطرناک اور بہت طاقتور ہوگئی ہے، مجھ کواندیشہ ہے کہ کہیں یہ خروج نہ کرے، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختار کوبلاکرقید کردیا جائے جیسا کہ وہ پہلے بھی قید تھا۔ عبداللہ بن مطیع نے مختار کے چچازید بن مسعود ثقفی کوحسین بن رافع اژدی کے ہمراہ بھیجا کہ مختار کوذرا میرے پاس بلالاؤ، مجھ کواس سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں، یہ دونوں مختار کے پاس گئے اور امیرکوفہ کا پیغام پہنچایا، مختار فوراً کپڑے پہن کرچلنے کے لیے تیار ہونے لگا، زید نے اس وقت یہ آیت پڑھی: وَإِذْيَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْيَقْتُلُوكَ أَوْيُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ۔ (الانفال:۳۰) ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) وہ وقت یاد کرو جب کافر لوگ منصوبے بنارہے تھے کہ تمھیں گرفتار کرلیں، یاتمھیں قتل کردیں، یاتمھیں (وطن سے) نکال دیں، وہ اپنے منصوبے بنارہے تھے اور اللہ اپنا منصوبہ بنارہا تھا اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ بنانے والا ہے۔ (توضیح القرآن:۱/۵۳۲، مفتی تقی عثمانی، فریدبکڈپو،نیودہلی) مختار اس آیت کوسنتے ہی سمجھ گیا کہ زید کا مطلب کیا ہے؛ اسی وقت بولا: جلدی لحاف لاؤ مجھ کوجاڑا چڑھ آیا ہے اور لحاف اوڑھ کرپڑگیا کہ مجھ کوسردی معلوم ہوتی ہے؛ پھرحسین بن رافع کومخاطب کرکے کہا کہ دیکھئے میں چلنے کے لیئے تیار تھا؛ مگرکیا کروں، مجھ پرمرض کا حملہ یکا یک ہوا اور اب میں حرکت نہیں کرسکتا، میری تمام حالت جوآپ دیکھ رہے ہیں امیرسے بیان کردیں، کل صبح جب حالت درست ہوجائے گی توحکم کی تعمیل میں ضرور حاضر ہوں گا یہ دونوں شخص وہاں سے رخصت ہوئے، راستے میں حسین بن رافع نے زید سے کہا کہ تم نے یہ آیت اس لیے پڑھی تھی کہ مختار امیر کے پاس نہ جائے؛ ورنہ وہ جانے کے لیے تیار تھا، تمہارے روکنے سے رک گیا ہے اور اس نے محض بہانا بنایا ہے، یہ کہہ کرپھرحسین نے زید سے کہا کہ تم اطمینان رکھو اس کا تذکرہ عبداللہ بن مطیع سے نہ کروں گا؛ کیونکہ ممکن ہے مختار کے ہاتھوں سے مجھ کوکوئی فائدہ پہنچے، عبداللہ مطیع کے پاس دونوں نے جاکر کہہ دیا کہ مختار سخت بیمار ہے، ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کرآئے ہیں وہ اس وقت آنے کے قابل نہیں ہے، کل انشاء اللہ تعالیٰ حاضر ہوجائے گا۔ مختار نے زید اور حسین کے جاتے ہیں اپنے مریدوں یعنی بیعت شدہ لوگوں میں سے خاص خاص اور بااثر لوگوں کوبلایا اور کہا کہ اب زیادہ توقف اور انتظار کا موقع باقی نہیں ہے، ہم کوفوراً خروج پرآمادہ ہوجانا چاہیے، ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے تابع فرمان ہیں، جوحکم ہو اس کی تعمیل کے لیئے آمادہ ہیں؛ لیکن ہم کوایک ہفتہ کی مہلت ملنی چاہیے؛ تاکہ ہم اپنے ہتھیاروں کودرست کرلیں اور اپنی جنگی تیاریوں سے فارغ ہوجائیں۔ مختار نے کہا کہ عبداللہ مطیع مجھ کوایک ہفتہ تک کہاں مہلت دینے لگا ہے، سعد بن ابی سعد نے کہا کہ آپ مطمئن رہیں اگرعبداللہ بن مطیع نے آپ کوبلاکر قید کردیا توہم بلاتکلف آپ کوجیل خانہ سے نکال لائیں گے، مختار یہ سن کرخاموش ہوگیا اور لوگوں نے اس کواس مکان سے لے جاکر ایک دوسرے غیرمعروف مکان میں روپوش کردیا، اس کے بعد سعد بن ابی سعد نے اپنے ہم خیال لوگوں سے کہا کہ ہم کوخروج کرلینے سے پیشتر یہ تحقیق کرلینی چاہیے کہ آیا محمد بن حنفیہ نے مختار کواپنا نائب اس کام کے لیے بنایا ہے یانہیں؟ اگرواقعی یہ محمد بن حنفیہ کی طرف سے بیعت لینے کے لیے مامور ہے توہم کوبلاتکلف مختار کی ماتحتی میں خروج کرنا چاہیے اور اگرمحمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے مامور نہیں کیا ہے اور اس نے ہم کودھوکا دینا چاہا ہے توپھر ہم کواس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے؛ چنانچہ اسی وقت سعد بن ابی سعد تین چار آدمیوں کوہمراہ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچ کرمحمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا توانھوں نے کہا کہ ہاں ہم نے مختار کوخونِ حسین کا بدلہ لینے کی اجازت دی ہے، یہ سن کرسعد بن ابی سعد معہ ہمراہیوں کے کوفہ میں آیا اور سب کویہ حال سنایا، اس خبر کے سنتے ہی لوگ مختار کی بیعت اور متابعت پرآمادہ ہوگئے، مختار کوجب معلوم ہوا کہ میری بات کی تصدیق ہوگئی ہے تووہ بہ خوش ہوا کہ لوگوں کا شک بھی دور ہوگیا ہے، مختار نے کہا کہ ہم کوکامیابی حاصل کرنے کے لیئے ابراہیم بن مالک بن اشترکوبھی جوکوفہ کے رؤساء میں شمار ہوتا ہے، ضرور شامل کرلینا چاہیے؛ چنانچہ مختار کے مریدوں میں سے عامر بن شرجیل فوراً ابراہیم بن مالک کے پاس گیا اور کہا کہ تیرے باپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، اب لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ خونِ حسین کا معاوضہ طلب کریں؛ چنانچہ ایک معقول جمعیت اس ارادہ پرمتفق ہوچکی ہے، تجھ کوتوسب سے پہلے اس کام میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ ابراہیم نے کہا کہ میں اس شرط پرلوگوں کا شریک ہوسکتا ہوں کہ مجھ کوامیر بنایا جائے، عامر نے کہا کہ محمد بن حنفیہ درحقیقت ہمارے امام ہیں اور انہوں نے مختار کواپنا خلیفہ مقرر فرمایا ہے؛ لہٰدا ہم تنے مختار کے ہاتھ پربیعت کی ہے، ابراہیم نے کہا اچھا میں خود ہی مختار سے ملوں گا، عامر نے واپس آکر یہ حال مختار کوسنایا، مختار اگلے دن پندرہ آدمیوں کولے کرخود ابراہیم مالک کے مکان پرپہنچا، اس وقت ابراہیم مصلے پربیٹھا تھا، مختار نے جاتے ہی کہا کہ تیرا باپ شیعانِ علی میں سے بہت نامور شخص تھا، ہم تجھ کوبھی اپنی جماعت میں سے سمجھتے ہیں، امام مہدی محمد بن حنفیہ نے مجھ کواپنا نائب بناکر بھیجا ہے، تجھ کومیرے ہاتھ پربیعت کرنی چاہیے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ کامیابی کے بعد جومنصب اور عہدہ توپسند کرے گا تجھ کودیا جائے گا، ہمراہیوں نے اس وعدہ کی ضمانت اور تصدیق کی، ابراہیم فوراً مصلے سے اُٹھا اور مختار کواپنی جگہ بٹھاکر اس کے ہاتھ پربیعت کی اور مختار بیعت لے کرواپس چلا آیا، اگلے روز ۱۴/ربیع الاوّل سنہ۶۶ھ کورات کے وقت مختار نے ابراہیم بن مالک کے پاس آدمی بھیجا کہ اس وقت ہم خروج کا ارادہ رکھتے ہیں، تم بھی اپنی جمعیت لے کرہمارے پاس پہنچو، ابراہیم کے پاس آدھی رات تک اس کی جماعت کے لوگ آآکرجمع ہوئے۔ ایاس بن مضارب کوجاسوسوں نے یہ خبر پہنچادی تھی کہ آج شب میں بغاوت پھوٹنے والی ہے، اس نے عبداللہ بن مطیع کواطلاع دی، عبداللہ بن مطیع نے تدبیر پوچھی تواس نے مشورہ دیا کہ کوفے کے سات محلے ہیں، ہرمحلہ میں پانچ سوآدمیوں کا ایک دستہ متعین کردیا جائے کہ جب اس محلہ میں کسی کورات کے وقت نکلتے دیکھے گرفتار یاقتل کردے؛ چنانچہ اس رائے پرعمل ہوا اور ہرمحلہ میں ایک ایک سردار بھیج دیا گیا کہ رساتوں اور سڑکوں پرلوگوں کوجمع نہ ہونے دیں، اتفاقاً جب ابراہیم اپنی جمعیت کولے کرمختار کی طرف چلا ہے توراستے میں ایاس بن مضارب ہی سے مقابلہ ہوگیا، طرفین کے ایک دوسرے پرحملے ہوئے اور ایاس بن مضارب ابراہیم کے ہاتھ سے مارا گیا ادھر مختار کے مکان پربھی چار ہزار آدمی اس کے گرد جمع ہوگئے تھے، وہاں سرکاری فوج کے دوسرے دستے سے جنگ چھڑگئی، ادھر سے ابرہیم لڑتا بھڑتا مختار کے مکان کے قریب پہنچا، ادھر ہرمحلے کی فوجیں آگئیں اور مختار کی قیام گاہ کے سامنے جنگ ہونے لگی، ابراہیم نے سرکاری فوج کوشکست دے کربھگایا، ادھر سے عبداللہ بن مطیع اور تازہ دم فوج لے کرآیا کبھی ابراہیم ومختار عبداللہ بن مطیع کودھکیل کردارالامارۃ میں داخل کردیتے، کبھی عبداللہ بن مطیع ان کوپیچھے ہٹاتا ہوا کوفہ سے باہر نکال دیتا، رات بھر یہ لڑائی جاری رہی، جوں جوں لڑائی نے طول کھینچا، مختار کی جماعت ترقی کرتی رہی، یعنی لوگ آآکر شامل ہوتے رہے؛ بالآخرعبداللہ بن مطیع کودارالامارۃ میں محصور ہونا پڑا، مختار نے تین روز تک دارالامارۃ کا محاصرہ جاری رکھا؛ چونکہ اندر آدمی زیادہ تھے جگہ تنگ تھی اور کھانے پینے کا سامان بھی نہیں تھا؛ لہٰذا عبداللہ بن مطیع کسی پوشیدہ راستے سے نکل کرابوموسیٰ اشعری کے مکان میں جاکر چھپ گیا اور باقی لوگوں نے امان طلب کرکے دارالامارۃ کا دروازہ کھول دیا، مختار نے دارالامارۃ اور بیت المال پرقبضہ کرکے بہت ساروپیہ اپنے آدمیوں میں تقسیم کیا، جامع کوفہ میں اہلِ کوفہ جمع ہوئے، مختار نے خطبہ دیا اور محمد بن حنفیہ کی بیعت وامامت تسلیم کرنے کی ترغیب دی؛ چنانچہ اہلِ کوفہ نے کتاب وسنت کی پیروی اور اہلِ بیت کی ہمدردی کا بیعت کے ذریعہ اقرار کیا، مختار نے بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا وعدہ کیا اس بیعتِ عام کے بعد مختار نے سنا کہ عبداللہ بن مطیع ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے مکان میں روپوش ہے، اس نے ایک لاکھ درہم اس کے پاس بھجوائے اور کہلا بھیجا کہ مجھ کومعلوم ہوا ہے کہ تم سامانِ سفر نہ ہونے کی وجہ سے ابوموسیٰ کے مکان میں ٹھہرے ہوئے ہو؛ لہٰذا یہ ایک لاکھ درہم قبول کرلو اور تین دن کے اندر اپنا سامان درست کرکے کوفہ سے روانہ ہوجاؤ۔ عبداللہ بن مطیع شرم کی وجہ سے مکہ معظمہ کی طرف نہیں گیا؛ بلکہ کوفہ سے بصرہ چلا آیا، جس زمانہ میں سلیمان بن صرو کے ہمراہی ہزیمت خوردہ کوفہ میں آئے تھے، انہیں میں مثنیٰ بن مخرمہ عبدی نامی ایک شخص بصرہ کا رہنے والا تھا، مختار کے خط کوپڑھ کریہ لوگ جیل خانہ میں اس سے ملنے گئے تھے، اوپر اس کا ذکر آچکا ہے، اسی وقت مثنی نے مختار کے ہاتھ پربیعت کرلی تھی اور مختار نے اس کویہ صوصیت کرکے بصرہ کی طرف رخصت کیا تھا کہ تم وہاں جاکر شیعانِ علی سے میری نیابت میں بیعت لو اور اپنی جمعیت کوبڑھاؤ جس وقت میں کوفہ میں خروج کروں گا؛ اسی وقت تم بھی بصرہ میں خروج کرنا؛ چنانچہ مثنیٰ بن مخرمہ نے بصرے میں لوگوں سے خفیہ بیعت لینی شروع کی، ایک گروہ کواپنے ساتھ شامل کرلیا، مختار نے جب کوفہ میں خروج کا ارادہ کیا توبصرہ میں مثنیٰ کے پاس بھی اطلاع بھیج دی تھی، اس نے بھی وہاں تاریخِ مقررہ پرخروج کیا؛ لیکن بصرہ میں اس وقت عبداللہ بن زبیر کی طرف سے حرث بن ابی ربیعہ امیر بصرہ تھا، حرث بن ابی ربیعہ نے ان باغیوں کے منصوبوں کو پورا نہ ہونے دیا اور سب کوایک محلہ میں گھیر کرمحصور کرلیا؛ پھرسب کوبصرہ سے نکال دیا، یہ لوگ بصرہ سے نکل کرکوفہ میں مختار کے پاس چلے آئے، اس طرح بصرہ توبچ گیا؛ مگرکوفہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی حکومت سے نکل گیا، کوفہ میں مختار نے اپنا تسلط قائم کرکے شرفائے کوفہ کواپنا مصاحب بنایا اور دوسرے بلادِ اسلامیہ پرقبضہ کرنے کے لیئے چند جھنڈے بنائے، ایک علم عبداللہ بن حرث بن اشترکودے کراوینیا کی طرف بھیجا، ایک علم محمد بن عمیر بن عطارد کودے کرآذربائیجان کی طرف روانہ کیا، ایک علم عبدالرحمن بن سعید بن قیس کودے کرموصل کی طرف رخصت کیا، اسحاق بن مسعود کومدائن کا علم اور سعد بن حذیفہ بن الیمان کوحلوان کا علم سپرد کیا، عبداللہ بن مالک طائی کوکوفہ کا قاضی مقرر کیا، ہرطرف مختار کے فرستادہ سرداروں کوکامیابی حاصل ہوئی اور لوگوں نے مختار کی حکومت تسلیم کرکے بیعت کرلی، صرف موصل پرعبدالرحمن سعید کوکوئی قابونہ ملا؛ کیونکہ وہاں عبدالملک بن مروان کی طرف سے عبیداللہ بن زیاد بطورِ گورنر مامور تھا، عبدالرحمن بن سعید نے بجائے موصل کے تکریت میں جاکرقیام کیا اور مختار کوحالات سے اطلاع دی، مختار نے موصل کی مہم یزید بن انس کوسپرد کی اور تین ہزار سوار دیکر موصل کی جانب رخصت کیا، عبیداللہ بن زیاد نے جب یزید بن انس کے آنے کی خبرسنی توربیعہ بن مختار غنوی کویزید بن انس کے مقابلہ پرروانہ کیا، بابل کے مقام پردونوں کا مقابلہ ہوا۔ یہ لڑائی ۹/ذی الحجہ سنہ۶۶ھ کوئی ہوئی، ربیعہ مارا گیا اور شامی لشکر کوشکست ہوئی، شکست خوردہ شامی واپس جارہے تھے کہ راستے میں عبداللہ بن حملہ خشعمی تین ہزار کی جمعیت سے آتا ہوا ملا، جس کوعبیداللہ بن زیاد نے ربیعہ کی امداد کے لیے روانہ کیا تھا، عبداللہ نے منہزمین کوروک کراپنے ساتھ لیا اور اگلے دن ۱۰/ذی الحجہ بروم عیدالاضحیٰ کوفی لشکر پرحملہ کیا، اس لڑائی میں بھی کوفیوں کوفتح اور شامیوں کوشکست ہوئی، کوفیوں نے کئی ہزار شامیوں کوگرفتار کیا اور یزید بن انس کے حکم سے وہ قتل کیے گئے؛ اسی روز شام کے وقت یزید بن انس بھی جوپہلے سے بیمار تھا فوت ہوگیا اور مرتے وقت ورقاء بن غازب کوامیرلشکر بناگیا، اگلے روز ورقہ بن عازت کے جاسوس نے آکرخبر دی کہ عبیداللہ بن زیاد خود مقابلہ پرآنے والا ہے، ورقاء نے عبیداللہ کا نام سنتے ہی بابل سے کوچ کیا اور عراق کی حدود کے اندر آکرقیام کیا اور مختار کولکھا کہ میرے پاس تھوڑی فوج تھی؛ لہٰذا میں پیچھے ہٹ آیا ہوں، اس خبر کوسن کرکوفہ میں لوگوں نے ورقا کوملامت سے یاد کیا کہ فتح مند ہوکر شکست یافتوں کا طرزِ عمل کیوں اختیار کیا؟ مختار نے کوفہ سے ساتھ ہزار فوج دے کرابراہیم بن مالک بن اشترکوروانہ کیا اور حکم دیا کہ یزید بن انس کا تمام لشکر بھی ورقا کی سرداری سے نکال کرتم اپنے ماتحت کرلینا۔ ابراہیم کے رخصت ہونے کے بعد اہلِ کوفہ نے شیث بن ربعی کے پاس آکر شکایت کی کہ مختار ہماری پوری پوری قدردانی نہیں کرتا اور ہمارے حقوق غصب کرتا ہے، شیث بن ربعی نے کہا کہ میں ذرامختار سے مل کرگفتگو کرلوں اور دیکھوں کہ وہ کیا جواب دیتا ہے، شیث جب مختار کے پاس آیا تواس نے کہا کہ میں ہرایک کام اہلِ کوفہ کی مرضی کے موافق کرنے کوتیار ہوں اور مالِ غنیمت میں سے بھی ان کوحصہ دینے کا اقرار کرتا ہوں، بشرطیکہ وہ مجھ سے اس بات کا اقرار کریں کہ ہم بنواُمیہ اور عبداللہ بن زبیر سے لڑیں گے؛ یہاں تک کہ دونوں کی طاقتوں کونابود کردیں، شیث بن ربعی نے کہا: اچھا میں اہلِ کوفہ سے دریافت کرلوں، شیث بن ربعی مختار کے پاس سے اُٹھ کرآیا، کوفہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جومختار کے ہاتھ پراس کی حکومت سے پہلے ہی بیعت کرچکے تھے وہ اس کے ہم عقیدہ ہم خیال تھے، انہیں کومختار سے شکایات تھیں؛ چنانچہ شیث بن ربعی کے واپس آنے پران لوگوں نے مختار کے خلاف ہجوم کیا اور دارالامارۃ میں پہنچ کرمختار سے کہا کہ ہم نے تم کومعزول کردیا، تم حکومت چھوڑ کرالگ ہوجاؤ؛ کیونکہ تم محمد بن حنفیہ کے نائب اور خلیفہ نہیں ہو، مختار نے اس وقت بڑی چالاکی اور دوراندیشی سے کام لیا، لوگوں کوسمجھایا کہ میں تم پرکوئی سختی نہیں کرنا چاہتا، میں نے تم سب کوخونِ حسین بھی معاف کردیا، ہرقسم کی رعایت بھی تم کودی جائے گی، اس وقت بنواُمیہ کا مقابلہ درپیش ہے تم کوچاہیے کہ اسیے وقت میں فتنہ وفساد برپا نہ کرو؛ ورنہ نتیجہ اچھا نہ ہوگا، جاؤ سوچو! اور خوب غور کرو کہ تم جس کام پرآمادہ ہوئے ہو وہ تمہارے لیے اچھا نتیجہ پیدا نہ کرے گا۔ ان لوگوں کے سرداروں نے اس وقت مختار کی ان باتوں کومنظور کرلیا اور کہا کہ اچھا ہم غور کریں گے، ان کا مدعا یہ تھا کہ ابراہیم بن مالک جوکوفہ سے روانہ ہوا ہے دورچلا جائے اور ہمارے لیئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے، ادھر مختار نے بھی ابراہیم کی غیرموجودگی میں اپنی بے بسی کومحسوس کرلیا تھا؛ لہٰذا اس نے فوراً ایک تیز رفتار سانڈنی پراپنا قاصد ابراہیم کے پاس بھیجا کہ فوراً اپنے آپ کوکوفہ میں واپس پہنچاؤ اور خود دارالامارۃ میں مضبوطی کرکے بیٹھ گیا، لوگوں نے اگلے روز دارالامارۃ کا محاصرہ کرلیا، تیسرے روز ابراہیم راستے سے لوٹ کرکوفہ میں مع اپنی فوج کے داخل ہوا اور ان لوگوں کوجومختار کی مخالفت میں اُٹھے تھے قتل کرنا شروع کیا؛ غرض کوفہ میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں سے ایک دویازیادہ آدمی قتل نہ کئے گئے ہوں، مختار نے لوگوں کوجمع کرکے ان تمام لوگوں کی فہرستیں مرتب کروائیں جوابن زیاد کے لشکر میں قتل حسین کے وقت موجود تھے یاجنہوں نے کسی قسم کا کوئی حصہ میدانِ کربلا میں لیا تھا، عمروبن سعد اور شمرذی الجوشن بھی گرفتار ہوکرمقتول ہوئے، عمروبن سعد نے مختار سے امن حاصل کرلیا تھا؛ لیکن مختار نے اپنے قول واقرار کا لحاظ نہ کرکے اس کا سراتروالیا، عمروبن سعد کا لڑکا حفص بن عمرومختار کی مصاحبت میں تھا، جس وقت عمروبن سعد کا سردربار میں آیا تومختار نے حفص بن عمروسے کہا کہ تم اس کوپہچانتے ہو، کس کا سرہے؟ حفص نے کہا کہ ہاں میں پہچانتا ہوں؛ لیکن اب اس کے بعد زندگی کا لطف جاتا رہا، مختار نے اسی وقت حکم دیا کہ حفص کا سربھی کاٹ لو؛ چنانچہ حفص کا سربھی اتار لیا گیا؛ غرض اس قتل وگرفتاری کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا، لوگ گھروں سے گرفتار ہوہوکر آتے تھے اور قتل کئے جاتے تھے، عمروبن سعد اور شمروغیرہ کے سرمختار نے محمد بن حنفیہ کے پاس مدینہ میں بھجوادیئے تھے۔ مختار بہت ذی ہوش اور چالاک آدمی تھا اس نے کوفہ پرقابض ومتصرف ہوکر ایک خط حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کولکھا کہ میں دارالامارۃ کوفہ میں آج کل مقیم ہوں مجھ کودل سے آپ کی اطاعت منظور اور آپ کی خلافت تسلیم ہے، آپ کوفہ کی گورنری مجھ کوعطا کردیجئے، عبداللہ بن زبیر سمجھ گئے کہ یہ مجھ کودھوکہ دے کر اور اپنی طرف سے غافل رکھ کرحکومت وسلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے؛ انھوں نے مختار کی اطاعت کا امتحان لینے کی غرض سے عمروبن عبدالرحمن بن حرث بن ہشام مخزومی کوکوفہ کی گورنری کا پروانہ دیکر کوفہ کی طرف روانہ کیا ،مختار کوجب یہ بات معلوم ہوئی تواس نے زائد بن قدامہ کوپانچ سوسواروں کے ساتھ سترہزار درہم دے کرروانہ کیا کہ راستے ہی میں عمروبن عبدالرحمن کوروک کراور یہ رقم دیکرواپس کردو؛ اگروہ واپس ہونے سے انکار کردے توتم اپنے پانچ سوسواروں سے اس کوگرفتار کرلینا، عمروبن عبدالرحمن نے اوّل توانکار کیا؛ لیکن پھرپانچ سوسواروں کی جمعیت کودیکھ کرمناسب سمجھا کہ سترہزاردرہم قبول کرلیئے جائیں؛ چنانچہ سترہزار درہم لے کربصرہ کی طرف روانہ ہوگیا، عبداللہ بن مطیع بھی بصرہ ہی میں چلاگیا تھا، اب عمروبن عبدالرحمن نے بھی بصرہ ہی کا رُخ کیا، جہاں حرث بن ابی ربیعہ (قباعِ حکومت) کررہا تھا