انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت طاؤس آپ کا پورا نام ابو عبدالرحمن طاؤس بن کیسان الحمیری الجندی ہے،یمن کے شہر جند کے باشندے تھے اور غلام تھے؛انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت زید بن ثابتؓ،حضرت زید بن ارقمؓ اور دوسرے متعدد صحابہؓ سے علم حاصل کیا تھا؛ لیکن حضرت عائشہؓ،حضرت معاذ بن جبلؓ اور خلفاء راشدینؓ سے ان کی روایات مرسل ہیں، یہ اپنے زمانے میں علم وفضل کے علاوہ عبادت وزہد میں بھی بہت مشہور تھے،انھوں نے چالیس حج کیے ،امام زہری فرماتے ہیں کہ اگرطاؤس کو دیکھتے تو یقین کرلیتے کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے، عمرو بن دینار کا قول ہے کہ میں نے لوگوں کے مال ودولت کے معاملے میں طاؤس سے زیادہ سیر چشم کوئی نہیں دیکھا(تہذیب التہذیب۹۵)علامہ نووی لکھتے ہیں ان کی جلالت قدر ان کی فضیلت،وفور علم ،صلاح وتقوی،قوت حافظہ اور احتیاط پر علماء کا اتفاق ہے(تہذیب الاسماء۱۲۵۱) حافظ ابو نعیم اصفہانی نےحلیۃ الاولیاء میں ان کے صلاح وتقوی کے واقعات اور ملفوظات تفصیل سے ذکر کیے ہیں ۱۰۵ھ میں منی یا مزدلفہ میں ان کی وفات ہوئی،جنازے میں ارکانِ حکومت سے لے کر علماء وصلحاءتک ہر طبقے کے افراد شریک تھےیہاں تک کے ہجوم کی وجہ سےپولیس بھیجنی پڑی۔ (حلیۃ الاولیاء۳۴۔علوم القرآن:۴۷۰) تفسیری اقوال (۱)اللہ تعالی کے اس ارشاد "غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ"(النور:۳۱)کی تفسیر کرتے ہوئے طاؤسؒ فرماتے ہیں کہ اس سے وہ احمق مراد ہے جس کو عورتوں میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ (تفسیر طبری:۱۶۲۱۹) (۲)طاؤسؒ اس آیت: "الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ"۔ (النساء:۳۷) جو لوگ کے بخل کرتے ہوں اوردوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہوں اور وہ اس چیز کوپوشیدہ کرتے ہوں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے اور ہم نے ایسے ناسپاسوں کے لیے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔ اور اس آیت: "وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"۔ (الحشر:۹) اور جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں" بخل" یہ ہے کہ انسان بخل اورکنجوسی سے کام لے اس مال میں جو اس کی ملکیت اوراس کے قبضہ میں ہے اوریہ خواہش ہو کہ میرا مال میرے ہی پاس رہے اور کسی کے پاس نہ جائے، اور"شح" یہ ہے انسان بخل کرے اس مال میں جو لوگوں کی ملکیت میں ہے اور اس بات کی خواہش کرے کہ جو لوگوں کی ملکیت میں ہے وہ بھی اسی کا ہوجائے خواہ حلال طریقہ سے ہو یا حرام طریقہ سے اوراپنے مال پر قناعت نہ کرے۔ (طبری:۳۵۱۸) (۳)اس آیت: "إِذْأَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِo فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ"۔ (الصافات:۱۴۰،۱۴۱) جبکہ یونس علیہ السلام بھاگ کر بھری ہوئی کشتی کے پاس پہونچے سو یونس شریک قرعہ ہوئے تو یہی ملزم ٹھیرے۔ کی تفسر میں طاؤس ؒ فرماتے ہیں کشتی کے نگران نے کہا کشتی چلنے سے رک گئی ہے اس لیے کہ تم میں سے کوئی بد شگون آدمی اس میں سوار ہے لہذا قرعہ ڈالو تاکہ ہم میں سے کوئی جس کے نام کا قرعہ نکلے اپنے آپ کو سمندر میں ڈالدے چنانچہ ان لوگوں نے قرعہ ڈالا توتین مرتبہ بھی یونس علیہ السلام ہی کا نام قرعہ میں نکلا پھر انہوں نے اپنے آپ کو سمندر میں ڈال دیا۔