انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
کورٹ میرج اورتحریر ، انٹر نیٹ ،ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعہ نکاح کے احکام عدالتی نکاح عدالت کے ذریعہ نکاح کی مروجہ صورت یہ ہے کہ مردوزن رجسٹرار کے پاس نکاح نامہ پردستخط کردیتے ہیں، قانوناً نکاح منعقد ہونے کے لیے زبانی ایجاب وقبول اور گواہان کی موجودگی ضروری خیال نہیں کی جاتی ہے..... شرعاً اس طرح نکاح منعقد نہیں ہوتا، جب فریقین قوتِ گویائی رکھتے ہیں توضروری ہے کہ زبان کے ذریعہ ایجاب وقبول ہو اور دومسلمان مرد یاایک مرد اور دوعورتیں بہ حیثیت گواہان موجود ہوں؛ اگررجسٹرار کے پاس ان دونوں شرطوں کی تکمیل ہوجاتی ہے، تب تونکاح صحیح ہوا اور ان دونوں کے ازدواجی تعلقات حلال ہوں گے؛ ورنہ تعلقات حرام ہوں گے اور نکاح فاسد؛ اگرخدانخواستہ کسی نے ایسے فاسد طریقہ پرنکاح کرلیا توچاہئے کہ دوبارہ گواہان کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے نکاح کودرست کرلیں؛ یوں بھی رجسٹرار کے ذریعہ نکاح کا یہ طریقہ اسلام کے تصورِ نکاح کی رُوح کے خلاف ہے، اسلام چاہتا ہے کہ نکاح علانیہ ہو، اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو اور لوگ زوجین کے درمیان حلال وجائز طریقہ پرمبنی ازدواجی رشتہ سے آگاہ ہوں، ظاہر ہے کہ عدالتی نکاح کی مروجہ صورت میں اگرزبانی ایجاب وقبول ہوجائے اور گواہان بھی موجود ہوں، جب بھی اس مقصد کی کماحقہ تکمیل نہیں ہوتی، نکاح صحیح کی صورت میں نکاح کے تمام ہی احکام ثابت ہوں گے؛ لیکن اگرنکاح فاسد ہو اور مرد نے اس عورت سے صحبت کرہی لی تو عورت کا خاندانی مہر (مہرمثل) اسے ادا کرنا ہوگا؛ نیز اس سے بچہ پیدا ہوجائے تواس بچہ کا نسب بھی اس مرد سے ثابت ہوگا اور وہ اس کے لیے محرم قرار پائے گا؛ البتہ لڑکے کواس مرد سے میراث نہیں ملے گی۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۸۶) تحریری نکاح تحریر کے ذریعہ بھی نکاح ہوسکتا ہےمگر یہ ضروری ہے کہ طرفین میں سے ایک کی جانب سے نکاح کی قبولیت کا زبانی اظہار ہو اور صرف ایک ہی طرف سے تحریر ہو؛ نیز قبولیت کا اظہار دوگواہوں کے سامنے کیا جائے اور وہ تحریر بھی ان گواہوں کو سنادی جائے، مثلاً زید، ہندہ کولکھے کہ میں نے تم سے اتنے مہرپر نکاح کیا، ہندہ کے پاس جب یہ تحریر پہنچے تواوّل وہ دوگواہوں کوطلب کرکے ان کویہ تحریر سنادے اور پھرکہے کہ میں اسے قبول کرتی ہوں، اب نکاح منعقد ہوجائے گا؛ اگرہندہ وہ تحریر پڑھ کر گواہوں کونہ سنائے بلکہ صرف اپنی قبولیت کا اظہار ان کے سامنے کرے یازبانی اظہار کی بجائے صرف تحریر لکھ دے اور اسی پرگواہوں کے دستخط کرالے یاگواہوں کے دستخط بھی نہ کرائے ان تمام صورتوں میں نکاح نہیں ہوسکے گا۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۸۷) ٹیلی فون کے ذریعہ نکاح صرف ٹیلی فون پرایجاب وقبول کافی نہ ہوگا، اس لیے کہ ایک تو دونوں کی مجلس بالکل مختلف ہے، دوسرے گواہان، فریقین کی بات پوری طرح سن نہیں سکتے؛ البتہ یہ صورت ممکن ہے کہ فون کے ذریعہ کوئی ایک فریق کسی کونکاح کے لیے وکیل بنادے اور وہ وکیل دوگواہوں کی موجودگی میں بہ حیثیت وکیل ایجاب وقبول کا فریضہ انجام دے، مثلاً ہندہ، زید کوٹیلی فون کردے کہ میں تم کو اس بات کا وکیل بناتی ہوں کہ تم اپنے آپ سے میرا نکاح کردو، اب زید یہ کرے کہ دوگواہوں کی موجودگی میں کہے کہ تم لوگ گواہ ہو کہ میں نے فلانہ بنتِ فلاں سے نکاح کرلیا، تونکاح ہوجائے گا؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ گواہان اس عورت سے واقف اور متعارف ہوں، طرفین ایک دوسرے کونکاح کا وکیل بنانے کے بجائے ایک فریق کسی کونکاح کا وکیل بنادے اور دوسرے فریق کے سامنے بہ حیثیت وکیل ایجاب کرے اور دوسرا فریق قبول کرلے توبھی نکاح منعقد ہوجائے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۲۸۸۔ فتاویٰ عثمانی:۲/۳۰۴۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۵/۴۰)