انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عثمان خان ۶۹۹ھ میں غیاث الدین کنجسر ومغلوں کے ایک ہنگامہ میں مقتول ہوا،اس کے کوئی بیٹا نہ تھا،صرف ایک لڑکی تھی جو عثمان خان کے عق میں تھی، لہذا اراکین سلطینت نے متفقہ طور پر عثمان خان کو قونیہ کے تختِ سلطنت پر بٹھا کر اپنا بادشاہ تسلیم کیا ، اس طرح اسرائیل بن سلجوق کی اولاد نے جو سلطنت ۴۷۰ھ میں قائم کی تھی وہ ۶۹۹ ھ میں ختم ہوکر اُس کی جگہ سلطنت عثمانیہ قائم ہوئی جو ہمارے اس زمانے تک قائم رہی،اسرائیل بن سلجوق وہی شخص تھا جس کو سلطان محمود غزنوی کے حکم سے ہندوستان کے قلعہ کا لہنجر میں قید رہنا پڑا تھا۔ عثمان خان کی تخت نشینی کے وقت سلطنتِ قونیہ کی بہت کمزور حالت تھی اوررومیوں نیز مغلوں کے حملوں سے اس ضعیف تر اور برائے نام سلطنت کا مٹ جانا یقین تھا لیکن عثمان خان کے تخت نشین ہوتے ہی اس تن بے جان میں جان پڑنی شروع ہوئی جس کا سب سے برا راز یہ تھا کہ عثمان خان کے ساتھی اور اراکین سلطنت اورفوج کے سپاہی اوررعایا سب عثمان خان کے حُسنِ سلوک سے خوش اوراُس کو محبوب رکھتے تھے،عثمان خان میں ایک طرف دین داری اوردوسری طرف شجاعت بدرجۂ کمال موجود تھی،عثمان خاں نے سب سے پہلے رومیوں سے شہر قراحصار کو فتح کرکے اپنا دار السلطنت بنایا، اس نئی سلطنت کا نیا دار سلطنت تجویز ہونا بھی بہت ہی مبارک ومیمون ثابت ہوا، عثمان خان کو اپنی تخت نشینی کے بعد ہی حاسدوں اورقیبوں کی عداوت کا اورسازشوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا تھا،جن پر وہ انجام کا ر غالب آیا اورسب کو طاقت کے ذریعہ خاموش کردیا تاہم سلجوقیوں کے پُرانے خاندان کے افراد عثمان خان کی حکومت کو رشک ورقابت کی نظر سے دیکھتے تھے اس پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوناچاہئے،اگر عثمان خان کسی موقعہ پر بھی اپنی کمزوری یا خوف کا اظہار کرتا تو اُس کے رقیب یقیناً اُس کے خلاف فوراً اُٹھ کھڑے ہوتے لیکن عثمان خان نے ہر موقعہ پر اپنے آپ کو بے خوف اورنڈر ثابت کیا؛چنانچہ جب عیسائیوں نے شروع ہی میں قونیہ پر حملہ آوری کے لئے فوجیں فراہم کیں تو عثمان خان نے امرائے سلطنت کو جمع کرکے مجلس مشورت منعقد کی،اس موقعہ پر عثمان خان کا چچا یعنی ارطغرل کا بھائی بھی جو بہت بوڑھا تھا موجود تھا،اُس نے اپنی رائے ظاہر کی کہ عیسائیوں کے مقابلے میں ہم کو فوج کشی نہیں کرنی چاہئے ؛بلکہ جہاں تک ممکن ہو صلح وآشتی کے ذریعہ اس جنگ کو ٹال دینا چاہئے،اگر جنگ برپا ہوئی تو اندیشہ ہے کہ مغلوں اوردوسرے ترک سرداروں کی فوجیں بھی عیسائیوں کے حملہ کو کامیاب بنانے کے ئے ہمارے ملک پر چڑھائیاں کردیں گی اور ہم ان سب کا بیک وقت مقابلہ نہیں کرسکیں گے،عثمان خان نے اپنے چچا کی زبان سے یہ پست ہمتی پیدا کرنے والا مشہور سُن کر فورا ً بلا تامل اپنی کمان میں تیر جوڑ کر اُس بوڑھے چچا کا کام تمام کردیا،اس نظارہ کو دیکھ کر کسی کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ جنگ اورحملہ آوری کے خلاف رائے ظاہر کرے چنانچہ عثمان خان نے حملہ کیا اورعیساائیوں کو شکستِ فاش دے کر قراحصار پر قابض ومتصرف ہوگیا اوراس کے بعد بجائے قونیہ کے قراحصار ہی کو اپنا دارالسلطنت بنایا، اس کے بعد عثمان خان نے پیہم عیسائی علاقوں پر حملے شروع کردیئے اورایک کے بعد دوسرا شہر فتح کرتا اورعیسائیوں کو ایشیائے کوچک سے نکالتا گیا،عیسائیوں کے بادشاہ قیصر قسطنطنیہ نے جب دیکھا کہ عثمان خان پر حملہ آور ہوں،تاکہ وہ عیسائیوں کی طرف سے منہ موڑ کر مغلوں کی طرف متوجہ ہو؛چنانچہ قیصر کو ایک حد تک اپنی کوشش میں کامیابی بھی حاصل ہوئی،مغلوں نے قیصر کے اُبھارنے سے عثمان خان کے ملک پر حملے شروع کردیئے مگر چونکہ عثمان خان کو عیسائیوں کے مقابلے میں پیہم فتوحات حاصل ہوئی تھیں، اس لئے اس کی فوج کے دل خوب خوب بڑھ گئے تھے اورفتوحات ہی ایسی چیز ہیں جو جنگ جو قوموں میں جوش اورہمت پیدا کردیا کرتی ہیں ؛چنانچہ عثمان خان نے اپنے ارخان کو جو تہتمنی اورصف شکنی میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا اپنی فوج کا ایک حصہ دے کر مغلوں کے حملے کو روکنے پر مامور کیا اور خود بقیہ فوج لے کر رومیوں پر پہلے سے بھی زیادہ شدّت کے ساتھ حملے کرنے لگا،جنگ جو اورسپاہی پیشہ قوموں کے لئے جنگ کے ایام عید کی خوشی لے کر آیا کرتے ہیں،رعایا نے بھی اپنے بہادر فرماں روا کا دل سے ساتھ دیا اورارخان نے مغلوں کے ہر ایک حملہ کو بڑی خوبی کے ساتھ اورہر مرتبہ اُن کو شکست دے کر پیچھے ہٹایا، یہاں تک کہ مغل تھک کر بیٹھ رہے اوراپنی حملہ آوری کے اس ناستودہ سلسلہ کو ترک کردیا،ارخان اس طرف کا انتظام کرکے باپ سے جاملا،دونوں باپ بیٹوں نے عیسائیوں کو مار مار کر پیچھے ہٹانا اوربھگانا شروع کردیا،عثمان خان ایشیائے کوچک کو فتح کرتا ہوا شمال میں بحرا سود کے ساحل تک پہنچ گیا ادھر ارخان نے عیسائیوں کو مغرب کی طرف بھگاتے ہوئے بروصہ کو فتح کرلیا،بروصہ قیصر روم کا ایک زبردست شہر ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل کے قریب تھا،اس شہر کو جب ارخان نے فتح کیا ہے تو عثمان کان ساحل بحراسود تک پہنچ کر قراحصار میں سالماً غانماً واپس آ گیا تھا اوراتفاق سےبیمار تھا، بروصہ کی فتح کا حال سُن کر عثمان خان نے فوراً بروصہ کا قصد کیا اوراپنے سرداروں کو حکم دیا کہ اگر میں بروصہ پہنچنے سے پہلے راستہ ہی میں فوت ہوجاؤں تو تم میری لاش کو بروصہ لے جاکر دفن کرنا اورہیں میرا مقبرہ بنانا اور آئندہ میرے بیٹے ارخان کو بروصہ ہی میں رہنا اوراسی شہر کو دارالسلطنت بنانا چاہئے؛چنانچہ عثمان خاں بروصہ پہنچ کر کئی روز کے بعد فوت ہوا اور اسی شہر میں اُس کی وصیت کے موافق اس کا مقبرہ بنایا گیا،یہ واقعہ ۷۲۷ھ کا ہے۔ عثمان خان نے مرتے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مجھ کو اپنے مرنے کا کوئی غم اس لئے نہیںکہ تجھ جیسا لائق بیٹا میرا جانشین ہوگا، تجھ کو چاہئے کہ دینداری،نیکی،رحم دلی اورعدل کو کبھی ترک نہ کرے،رعیت کی حفاظت کرنا اوراحکام شرع کو رواج دینا تیرا سب سے ضروری اور مقدم کام ہونا چاہئے، آخر میں اُس نے بیٹے کو تاکید کی کہ بروصہ ہی کو اپنا دارالسطنت بنایا جائے،اس وصیت سے بھی عثمان خان کی مآل اندیشی کا بہت بڑا ثبوت ملتا ہے،وہ جانتا تھا کہ قونیہ میں ایسے افراد موجود ہیں جو کسی نہ کسی وقت میرے خاندان کی بیخ کنی پر آمادہ ہوسکتے ہیں،اُدھر اُس کو معلوم تھا کہ مغلوں کو مسلمانوں سے محض اسلام کی وجہ سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور وہ خود اسلام قبول کرتے جاتے ہیں، اگر دارالسلطنت قونیہ رہا تو خواہ مخواہ مغلوں اوردوسرے سرداروں کےس اتھ جھگڑے برپارہیں گے حالانکہ مسلمانوں کے لئے سب سے بہتر میدان عیسائی ممالک ہیں،لہذا بروصہ کے دارسلطنت ہونے سے عیسائیوں کو لازماً ایشیائے کوچک کے خیال سے دست بردار ہونا پڑے گا اوروہ درۂ ادانیال سے اس طرف آنے کی کبھی جرأت نہ کرسکیں گے، نیز بروصہ کے بادشاہوں کو بآسانی یورپ پر حملہ آور ہونے اوربلقان کے فتح کرنے کا موقع ملے گا، عثمان کا یہ خیال بہت صحیح تھا، اُس کے جانشینوں نے اس عثمان اصول کو مدّ نظر رکھا اوراسی اصول پر کاربند رہنے کا نتیجہ تھا کہ چند روز کے بعد عثمانیوں کا دارالسلطنت اورنہ یعنی ایڈریانوپل ہوا، جس کے بعد وہ قسطنطیہ پر قابض ہوسکے ۔ عثمان خان کی نسبت مشہور ہے کہ وہ غیر معمولی بہادری رکھتا تھا، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اُس کے ہاتھ جب کہ وہ سیدھا کھڑا ہوتا تھا تو گھٹنوں تک پہنچ جاتےتھے،وہ اعلیٰ درجہ کا شہسوار اورخوبصورت شخص تھا، اُس کی قوتِ فیصلہ بہت زبردست تھی وہ پیچیدہ سے پیچیدہ اوراہم امور کے متعلق فوراً ایک رائے قائم کرلیتا تھا اوروہی رائے درست اور صائب ہوتی تھی،وہ بلا کاذہین اورذکی تھا، رحم دلی اورفیاضی کی صفات میں بھی وہ خاص طور پر بلند مرتبہ رکھتا تھا۔ قونیہ کے سلجوقی بادشاہوں کے جھنڈوں پر ہلال کی شکل بنی ہوئی تھی،اس ہلال کے نشان کو عثمان خان نے بھی بدستور اپنے فوجی جھنڈوں میں قائم رکھا اوریہی ہلال کا نشان عثمان سلاطین کا قومی نشان سمجھا گیا اورآج تک وہ مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ محبوب نشان ہے، عثمان خاں ۶۹سال اورچند مہینے کی عمر میں ۲۷ سال کی حکومت کے بعد فوت ہوا اُس کے زہد واتقا کا اندازہ شاید اس طرح ہوسکے کہ مرتے وقت عثمان خان کی ذاتی ملکیت میں زرہ،تلوار اورپٹکے کے سوا اورکوئی چیز نہ تھی،یہی وہ تلوار ہے جو ہر عثمانی سلطان کی تخت نشینی کے وقت اُس کی کمر سے باندھی جاتی رہی ہے،اس جگہ یہ بتادینا ضروری ہے کہ عثمان خان نے جب قونیہ کو ترک کیا تو پُرانے سلجوقی خاندان کے افراد کو قونیہ کا عامل اورحکمراں مقرر کرکے اُن مراسم واعزازات کو اُن کے لئے جائز قرار دے دیا تھا جو سلجوقی خاندان کے لئے مختص تھے،دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ قونیہ میں عثمان خاں نے ایک ماتحت ریاست قائم کردی تھی جو پُرانے سلاجقہ روم کے خاندان میں سلطنتِ عثمانیہ کی ماتحت عرصہ تک قائم رہی اس طرز عمل سے بھی عثمان خان کی شرافت اورپاک باطنی ومآل اندیشی کا ایک ثبوت بہم پہنچتا ہے۔