انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
قنوتِ نازلہ کے مسائل واحکام قنوتِ نازلہ منسوخ ہوگئی یا نہیں؟ اگر باقی ہے تو کیا یہ ہمیشہ سال بھر پڑھی جائےگی؟ قنوتِ نازلہ کا مستقل پڑھنا متروک ہے، عام شدید مصائب وآلام کے وقت مشروع ہے، اس کا محل راجح قول پر فجر کی نماز ہے، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے دور میں وقتِ ضرورت نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، اگر قنوت نازلہ اصلاً منسوخ ہوجاتی تو خلفائے اربعہؓ اور صحابہؓ کبھی نہ پڑھتے، اگر اس کا ہمیشہ اور ہر لڑائی کے وقت پڑھنا مشروع رہتا تو ہمیشہ پڑھتے رہتے، اس لئے کہ جہاد کا سلسلہ تو مستقل رہا ہی ہے، مگر ان حضرات کا معمول یہ تھا کہ عام شدید مصائب وآلام کے وقت ہی پڑھتے تھے، بغیر اس کے نہیں پڑھتے تھے، اور یہ پڑھنا صرف فجر کی نماز میں تھا، دیگر نمازوں میں نہیں تھا، لہٰذا کہا جائے گا کہ نسخ بھی دو جہت سے ہے، ایک استمرار، دوسرے ماعدا فجر، پس فجر کے علاوہ دیگر نماز میں قنوت نہیں، خواہ سرّی نماز ہو خواہ جہری نماز۔ بعض کتبِ فقہ میں جہریہ میں مشروعیت درج ہے، اس کی توضیح علامہ شامیؒ نے اس طرح کی ہے کہ یہ لفظ "صلوٰۃ الفجر" تھا، نقل میں تحریف ہوکر "صلوٰۃ الجہر" ہوگیا، لہٰذا صرف فجر میں مشروعیت ہے، کل صلواتِ جہریہ میں نہیں، نہ جمعہ نہ کسی اور نماز میں، ہاں! اگر وقتِ ضرورت خطبۂ جمعہ میں قنوتِ نازلہ پڑھ لی جائے تو مضائقہ نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ:۷/۱۷۲،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۱۹۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ کتاب الفتاویٰ:۲/۳۳۶،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)