انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فضائلِ اخلاق استعفاف فیضِ تربیتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابیات رضی اللہ عنھن کے ایک ایک فرد کوغیرت، خودداری اور عزتِ نفس کا مجسمہ بنادیا تھا اس لیے وہ کسی کے سامنے دستِ سوال نہیں پھیلاتی تھیں ماں باپ سے مانگتے ہوئے کسی کوشرم نہیں آتی لیکن صحابیات کی غیرت اس کوبھی گوارا نہیں کرتی کہ ماں باپ سے بھری محفل میں سوال کیا جائے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کے کام کاج سے تنگ آگئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لونڈی غلام آئے، حاضرِ خدمت ہوئیں کہ آپ سے ایک غلام مانگیں دیکھا کہ آپ سے کچھ لوگ باتیں کررہے ہیں، شرم کے مارے واپس آئیں۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب فِي التَّسْبِيحِ عِنْدَ النَّوْمِ،) ایثار فیاضی ایک اخلاقی وصف ہے لیکن ایثار فیاضی کی اعلیٰ ترین قسم ہے اور وہ صحابیات میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں اپنی قبر کے لیے جگہ مخصوص کررکھی تھی؛ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درخواست کی توانہوں نے یہ تختۂ جنت ان کودے دیا اور فرمایا: كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي وَلَأُوثِرَنَّ بِهِ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب قِصَّةِ الْبَيْعَةِ وَالِاتِّفَاقِ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَفِيهِ مَقْتَلُ،حدیث نمبر:۳۴۲۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: میں نے خود اپنے لیے اس کومحفوظ رکھا تھا؛ لیکن آج اپنے اوپرآپ کوترجیح دیتی ہوں۔ ایک دن وہ روزہ سے تھیں گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا ایک مسکین عورت آئی انہوں نے لونڈی سے کہا کہ روٹی اس کودے دو اس نے کہا افطار کس چیز سے کیجئے گا؟ بولیں دے تودو، شام ہوئی توکسی نے بکری کا گوشت بھجوادیا، لونڈی کوبلاکرکہا یہ تیری روٹی سے بہتر ہے۔ (مؤطا امام مالک،كِتَاب الْجَامِعِ،بَاب التَّرْغِيبِ فِي الصَّدَقَةِ) فیاضی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح اسلام کوصحابیات رضی اللہ عنھن سے بھی بہت کچھ ثبات واستحکام حاصل ہوا، حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنا نخلستان خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کردیا تھا۔ (صحیح بخاری) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس قدر فیاض تھیں کہ جوکچھ ہاتھ آجاتا تھا اس کوصدقہ کردیتی تھیں، حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کواس فیاضی سے روکنا چاہاتو اس قدر برہم ہوئیں کہ ان سے بات چیت نہ کرنے کی قسم کھالی۔ (بخاری،كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب مَنَاقِبِ قُرَيْشٍ) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اس سے بھی فیاض تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معمول یہ تھا کہ جمع کرتی جاتی تھیں جب معتدبہ سرمایہ جمع ہوجاتا تھا تواس کوتقسیم کردیتی تھیں؛ لیکن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کل کے لیے کچھ نہیں رکھتی تھیں، روز خرچ کردیا کرتی تھیں۔ (ادب المفرد، باب السخاوۃ) ایک بار حضرت منکدر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خدمت میں حاضر ہوئے، بولیں کہ تمہارے کوئی لڑکا ہے انہوں نے کہا نہیں فرمایا اگرمیرے پاس دس ہزار درہم ہوتے تومیں تم کودے دیتی، حسنِ اتفاق سے شام ہی کوحضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس روپے بھیجے بولیں کس قدر جلد میری آزمائش ہوئی، فوراً آدمی بھیج کر ان کوبلوایا اور دس ہزار درہم دیدیئے انہوں نے اس رقم سے ایک لونڈی خرید لی اور اس سے ان کے متعدد بچے پیدا ہوئے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرۂ منکدر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ) ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نہایت فیاض تھیں، وہ اپنے ہاتھ سے چمڑے کی دباغت کرتی تھیں اور جوکچھ آمدنی اس سے ہوتی تھی، مساکین کودیدیتی تھیں، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں جس کا ہاتھ سب سے لمبا ہوگا وہ مجھ سے پہلے ملے گا اس بناپرازواجِ مطہرات اپنے ہاتھوں کوناپتی تھیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ہاتھ سب سے چھوٹے تھے؛ لیکن جب سب سے پہلے ان کا انتقال ہوا توازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کومعلوم ہوا کہ لمبے ہاتھ سے فیاضی مراد تھی۔ (اصابہ، تذکرہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا) مخالف سے انتقام نہ لینا اگرمخالف کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے توانتقام لینے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہں مل سکتا؛ لیکن صحابیات رضی اللہ عنھن کے دل میں خدا اور رسول کی محبت نے بغض وانتقام کی جگہ کب چھوڑی تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا میں باہم نوک جھوک رہتی تھی؛ لیکن جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پراتہام لگایا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ان کی اخلاقی حالت دریافت فرمائی توبجائے اس کے کہ وہ انتقام لیتیں، بولیں کہ میں اپنے کان اور اپنی آنکھ کی پوری حفاظت کرتی ہوں، مجھے ان کی نسبت بھلائی کے سوا کچھ معلوم نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوخود اعتراف ہے: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ۔ (بخاری،كِتَاب الشَّهَادَاتِ، بَاب تَعْدِيلِ النِّسَاءِ بَعْضِهِنَّ بَعْضًا،حدیث نمبر:۲۴۶۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:وہ اگرچہ میری حریف تھیں؛ لیکن خدا نے تورع کی وجہ سے ان کوبچالیا۔ انتقام توبڑی چیز ہے، صحابیات رضی اللہ عنھن اپنے مخالفوں سے بغض رکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں، حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمدبن ابی بکر کوقتل کردیا تھا ایک بار وہ کسی فوج کے سپہ سالار تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک شخص سے پوچھا کہ اس غزوہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا سلوک کیسا رہا؟ اس نے کہا ان میں کوئی عیب نہ تھا، سب لوگ اُن کے مداح رہے؛ اگرکئوی اونٹ ضائع ہوجاتا تھاتو وہ اس کی جگہ دوسرا اونٹ دیدیتے تھے؛ اگرکئوی گھوڑا مرجاتا تھا تووہ اس کی جگہ دوسرا گھوڑا دیدیتے تھے؛ اگرکوئی غلام بھاگ جاتا تھا تووہ اس کی جگہ دوسرا غلام دیدیتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سن کرکہا: أَسْتَغْفِرُاللہ اگرمیں اُن سے اس بناپربغض کروں کہ انہوں نے میرے بھائی کوقتل کیا، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ خدا! اس کوجوشخص میری اُمت کے ساتھ ملاطفت کرے توبھی اس کے ساتھ ملاطفت کر اور جوشخص اس پرسختی کرے توبھی اس پرسختی کر۔ (اسدالغابہ، تذکرہ حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ) مہمان نوازی حضرت اُم شریک رضی اللہ عنہا نہایت دولت مند اور فیاض صحابیہ تھیں انہوں نے اپنے مکان کوگویا مہمان خانہ بنادیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باہر سے جومہمان آتے تھے وہ اکثرانہی کے مکان پرٹھہرتے تھے۔ (نسائی،كِتَاب النِّكَاحِ،الْخِطْبَةُ فِي النِّكَاحِ) عزتِ نفس صحابیات رضی اللہ عنھن عزتِ نفس کا مجموعہ تھیں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جس دن شہید ہوئے اس روز اپنی والدہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے اُن کودیکھا توبولیں، بیٹا قتل کے خوف سے ہرگز کوئی ایسی شرط نہ قبول کرلینا جس پرتم کوذلت برداشت کرنی پڑے، خدا کی قسم عزتِ نفس کے ساتھ تلوارکھا کرمرجانا اس سے بہتر ہے کہ ذلت کے ساتھ کوڑے کی ماربرداشت کرلی جائے۔ صبروثبات مردوں پرنوحہ کرنا، بال نوچنا، کپڑے پھاڑ ڈالنا، مدتوں مرثیہ خوانی کرنا عرب کا قومی شعار تھا؛ لیکن فیض تربیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابیات رضی اللہ عنھن کوصبر کا اس قدر خوگر بنادیا تھا کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انصاری کا لڑکا بیمار ہوا وہ صبح کے وقت اس کوبیمار چھوڑ کرکام کاج کے لیے باہر چلے گئے ان کی عدم موجودگی میں یہاں لڑکا جان بحق تسلیم ہوگیا لیکن ان کی بی بی نے لوگوں سے کہدیا کہ ابوطلحہ سے نہ کہنا وہ شام کوپلٹے توبی بی سے پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ بولیں پہلے سے زیادہ سکون کی حالت میں ہے یہ کہہ کرکھانا لائیں اور انہوں نے کھانا کھایا، صبح ہوئی توکہا کہ اگرایک قوم کسی کوکوئی چیز عاریۃً دے اور پھراس کا مطالبہ کرے توکیا اس کواس کے روک رکھنے کا حق حاصل ہے؟ بولے نہیں، بولیں توپھراپنے بیٹے پربھی صبرکرو۔ (مسلم،كِتَاب الْآدَابِ، بَاب اسْتِحْبَابِ تَحْنِيكِ الْمَوْلُودِ عِنْدَ وِلَادَتِهِ وَحَمْلِهِ إِلَى صَالِحٍ يُحَنِّكُهُ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ اُحد سے واپس آئے توتمام صحابیات اپنے اپنے اعزہ واقارب کا حال پوچھنے آئیں، انہی میں حضرت حمنہ بنتِ جحش رضی اللہ عنہا بھی تھیں وہ آئیں توآپ نے فرمایا کہ حمنہ! اپنے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کوصبر کرو؛ انہوں نے انا للّٰہ پڑھا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی آپ نے پھرفرمایا کہ اپنے ماموں حمزہ رضی اللہ نعہ ابن عبدالمطلب کوبھی صبر کرو؛ انہوں نے اس پر بھی انا للّٰہ پڑھا اور دعائے مغفرت کرکے خاموش ہورہیں۔ (طبقات ابن سعد، تذکرۂ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب حجاج سے معرکہ آرا ہوئے توان کی والدہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں وہ اُن کے پاس آئے اور مزاج پرسی کے بعد بولے کہ مرنے میں آرام ہے، بولیں شائد تم کومیرے مرنے کی آرزو ہے؛ لیکن جب تک دوباتوں میں سے ایک نہ ہوجائے میں مرنا پسند نہ کروں گی یاتوتم شہید ہوجاؤ اور میں تم کوصبرکرلوں، یافتح وظفر حاصل کرو کہ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں؛ چنانچہ جب وہ شہید ہوچکے توحجاج نے ان کوسولی پرلٹکادیا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا باوجود پیرانہ سالی کے یہ عبرتناک منظر دیکھنے کے لیے آئیں اور بجاے اس کے کہ روتی پیٹتیں، حجاج کے طرف مخاطب ہوکر کہا اس سوار کے لیے ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ اپنے گھوڑے سے نیچے اُترے۔ (استیعاب، تذکرۂ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ) شجاعت غزوات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جس طرح دادِ شجاعت دی، صحابیات رضی اللہ عنھن کے بہادرانہ کارنامے اس سے بھی حیرت انگیز ہیں، غزوۂ حنین میں کفار نے اس زورشور سے حملہ کیا تھا کہ میدانِ جنگ لرزاُٹھا تھا؛ لیکن حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کی شجاعت کا یہ حال تھا کہ ہاتھ میں خنجرلیے ہوئے منتظرتھیں کہ کوئی کافر سامنے آئے تو اس کا کام تمام کردیں؛ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کرپوچھا کہ یہ کیا ہے؟ بولیں کہ چاہتی ہوں کہ کوئی کافر قریب آئے توپیٹ میں بھونک دوں۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْجِهَادِ،بَاب فِي السَّلَبِ يُعْطَى الْقَاتِلَ) غزوۂ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عورتوں کوایک قلعہ میں کردیا تھا، ایک یہودی آیا اور قلعہ کے گرد چکرلگانے لگا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا(آپﷺ کی پھوپو) نے دیکھا توحضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ جاسوس معلوم ہوتا ہے اس کوقتل کردو، بولے تمھیں تومعلوم ہے کہ میں اس میدان کا مرد نہیں، اب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا خود اُتریں اور خیمہ کی ایک میخ اکھاڑ کراس زور سے مارا کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہوگیا۔ (اسدالغابہ، تذکرۂ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب) زہد وتقشف صحابیات رضی اللہ عنھن نہایت زاہدانہ اور متقشفانہ زندگی بسرکرتی تھیں ایک بار ایک شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا بولیں، ذراٹھہرجاؤ میں اپنی نقاب سی لوں، اس نے کہا اگر میں لوگوں کواس کی خبرکردوں تولوگ آپ کوبخیل سمجھیں گے، بولیں جولوگ پرانا دھرانا کپڑا نہیں پہنتے اُن کوآخرت میں نیاکپڑانصیب نہ ہوگا۔ (ادب المفرد، باب الرفق فی المعیثہ) زندہ دلی صحابیات کے جذبات کواسلام نے تروتازہ اور شگفتہ کردیا تھا اس لیے ان میں زندہ دلی پائی جاتی تھی، عید کے دن معمولاً لڑکے اور لڑکیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوکر باجے بجاتے تھے اور مسرت کے ترانے گاتے تھے۔ (بخاری،كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ) رازداری صحابیات کا سینہ راز کامدفن تھا، جس سے وہ قیامت تک باہر نہیں نکل سکتا تھا، ایک دن آپ کی خدمت میں تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن جمع تھیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی اسی حالت میں آگئیں آپ نے ان کومرحبا کہا اور اپنے دائیں جانب بٹھالیا اور آہست سے ان کے کان میں ایک بات کہی وہ چیخ مارکرروپڑیں پھرآپ نے آہستہ سے ایک بات کہی جس سے وہ ہنس پڑیں آپ چلے گئے توتمام بی بیوں نے اس کی وجہ پوچھی، بولیں آپ کی زندگی میں آپ کا راز فاش نہیں کرسکتی۔ (مسلم،كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ عَلَيْهَا الصَّلَاة وَالسَّلَامُ) عفت وعصمت اسلام نے پاکیزگی اخلاق کی جوتعلیم دی ہے اس نے صحابیات کوعصمت وعفت کامجسمہ بنادیا، ایک صحابیہ کوجن کی اخلاقی حالت زمانہ جاہلیت میں اچھی نہ تھی، ایک شخص نے اپنی طرف مائل کرنا چاہا توبولیں ہٹو! اب وہ زمانہ گیا اور اسلام آیا (مسنداحمدابن حنبل:۴/۱۸۷) اسلام کی تعلیم کا یہ اثر تھا کہ لونڈیاں تک بدکاری سے اباکرنے لگیں، مسکیہ ایک لونڈی تھی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکرشکایت کی کہ میرا آقا مجھ کوبدکاری پرمجبور کرتا ہے اس پریہ آیت نازل ہوئی: وَلَاتُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ۔ (النور:۳۳) ترجمہ:اپنی لونڈیوں کوبدکاری پرمجبور نہ کرو۔ اس جرم کا ارتکاب توصحابیات رضی اللہ عنھن سے بہت بعید تھا وہ اس کوبھی گوارا نہیں کرتی تھی ںکہ کسی نامحرم کی نگاہ بھی ان پرپڑے، ایک بار حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہا نے نکاح کرناچاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا آپ نے فرمایا کہ پہلے عورت کوجاکر دیکھ لو، وہ اس غرض سے اس کے گھر گئے، عورت نے پردہ سے کہا اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے توخیر؛ ورنہ تمھیں خدا کی قسم۔ (سنن ابن ماجہ، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب النَّظَرِ إِلَى الْمَرْأَةِ إِذَاأَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا) اس معصیت کا ارتکاب توبڑی چیز ہے اگرخدانخواستہ صحابیات پرکبھی اس قسم کا اتہام بھی لگ جاتا تھا تواُن کے خرمن عقل وہوش پربجلی گرپڑتی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کانوں میں جب واقعہ افک کی بھنک پڑی توبے ہوش ہوکرگرپڑیں، لرزہ بخار آگیا اور آنسؤوں کی جھڑی لگ گئی۔ (بخاری، كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ﴿ لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ﴾ )