انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
کیا امامت کے لئے ذات پات کا لحاظ کیا جائے؟ امامت کے لئے ذات پات کا کوئی لحاظ نہیں، افضل ہونے کا لحاظ ہے اور یہ کہ جماعت میں کمی میں نہ آئے اور نمازی منتشر نہ ہوں، پس نمازیوں میں جو افضل ہو وہ امامت کا حقدار ہے، تاکہ نماز صحیح اور کامل ادا ہوجائے اور مقتدی زیادہ سے زیادہ نماز میں شریک ہوں، پس کسی ایسی قوم کا آدمی جس کو لوگ ذلیل سمجھتے ہیں، اگر علم و تقویٰ میں سب سے بڑھا ہوا ہے اور اس بناء پر لوگ اس کا اداب کرتے ہیں تو بلاشبہ اس کے پیچھے نماز درست ہے، کسی قسم کی کوئی کراہت نہیں، البتہ اگر اس کے افعال ایسے ہیں جن کی بناء پر وہ لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور بے وقعت ہے تو اس بناء پر اس کو امام بنانا مکروہ ہے کہ لوگ جب اس کی عزت اور وقعت نہیں کرتے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا ہی پسند نہیں کریں گے اور جماعت میں کمی ہوجائے گی۔ لہٰذا افضل کو امام بنایا جائے اور اس سے ایسا کام نہ لیا جائے جس سے لوگ اسے حقیر سمجھیں، ہاں! اگر کسی جگہ افضل امام نہ ہو ، فاسق ہو تو جماعت نہ چھوڑے، جماعت کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر تنہاء پڑھنے سے ایسے امام کے پیچھے پڑھنا بہتر ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۴/۱۷۵، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)