انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بعض ضروری اشارات جس وقت بلوائیوں نے مدینہ منورہ میں داخل ہوکر بد تمیزیاں شروع کردی تھیں اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مدینہ سے مکہ کی جانب حج کے لئے روانہ ہوئیں،حج سے فارغ ہوکر آپ ؓ مدینہ منورہ کو واپس آرہی تھیں کہ مقام سرف میں بنی لیث کے ایک شخص عبید بن ابی سلمہ نامی کے ذریعہ یہ خبر سُنی کہ حضرت عثمان غنیؓ کو بلوائیوں نے شہید کردیا یہ خبر سن کر آپ ؓ مکہ واپس لوٹ گئیں۔ جس وقت بلوائیوں نے مدینہ میں ہجوم کیا تو حضرت عمرو بن العاصؓ بھی مدینہ میں موجود تھے مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ بلوائیوں کی گستاخیاں اوران کا تسلط ترقی کرکے تمام مدینہ کو مغلوب کرچکا ہے اور شرفائے مدینہ بلوائیوں کے مقابلے میں مجبور ہوچکے ہیں تو عمرو بن العاص نے معہ اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اورمحمد کے مدینہ سے کوچ کیا اور فلسطین میں آکر رہنے لگے، یہاں تک کہ ان کے پاس فلسطین میں حضرت عثمان غنیؓ کے شہید ہونے کی خبر پہنچی۔ عبداللہ بن سعدؓ گورنر مصر یہ سُن کر کہ مدینہ منورہ میں بلوائیوں نے حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ کر رکھا ہے،مصر سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے مگر راستے میں یہ سُن کر کہ عثمان غنیؓ شہید ہوگئےمصر کی جانب لوٹے تو معلوم ہوا کہ وہاں محمد بن ربیعہ نے مصر پر قبضہ کرلیا ہے،عبداللہ بن سعدؓ مجبوراً فلسطین میں مقیم ہوگئے اور پھر دمشق کی طرف چلے گئے۔ قتل عثمان غنیؓ کے وقت مدینہ منورہ میں علیؓ، طلحہؓ،زبیرؓ تین بڑے اور صاحبِ اثر حضرات موجود تھے،ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اورحضرت سعد بن وقاص وغیرہ بھی اسی مرتبہ کے حضرات تشریف رکھتے تھے،مگر بلوائیوں اورباغیوں کے ہاتھوں سب کی عزتیں معرض خطر میں تھیں، مدینہ کی حکومت تمام وکمال ان بلوائیوں کے ہاتھ میں تھی اول الذکر ہرسہ اصحاب اگرچہ بلوائیوں کی نگاہ میں خاص عزت ووقعت بھی رکھتے تھے،لیکن ان سب نے اپنی اپنی عزتوں کی حفاظت کے خیال سے گھروں کے دروازے بند کرلئےتھے اورسب خانہ نشین ہو بیٹھے تھے،کوئی گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بعض ضرورتوں سے مدینہ کے باہر بھی تشریف لے جاتے تھے، اور بعض کا یہ خیال ہے کہ آپ مدینہ سے باہر اسی غرض سے گئے تھے کہ ان بلوائیوں کی شرارتوں سے محفوظ رہیں ؛چنانچہ جب حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے ہیں تو آپ مدینہ سے کئی میل کے فاصلہ پر تھے۔