انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فتنہ پردازی کے لئے مشورت صلح کی تمہید قائم ہوجانے کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تمام اہل لشکر کو جمع کرکے ایک فصیح و بلیغ اورنہایت پر تاثر تقریر فرمائی اورحکم دیا کہ کل اہل بصرہ کی جانب کوچ ہوگا،لیکن ہمارا بصرہ کی جانب بڑھنا جنگ وپیکار کے لئے نہیں بلکہ صلح وآشتی قائم کرنے اور آتش جنگ پر پانی ڈالنے کے لئے ہے ساتھ ہی آپ نے یہ حکم دیا کہ جو لوگ محاصرہ عثمانؓ میں شریک تھے وہ ہمارے ساتھ کوچ نہ کریں بلکہ ہمارے لشکر سے علیحدہ ہوجائیں،یہ تقریر سُن کر اورحکم سن کر اہل مصر اور عبداللہ بن سبا کو بڑی فکر پیدا ہوئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں ایسے لوگوں کی تعداد دو ڈھائی ہزار کے قریب تھی جن میں بعض بڑے با اثر اور چالاک بھی تھے،ان لوگوں کے سرداروں اور سمجھ داروں کو عبداللہ بن سبا نے الگ ایک خاص مجلس میں مدعو کیا،اس مجلس خاص میں عبداللہ بن سباء ،ابن ملجم، اُشتر، اُشتر کے خاص خاص احباب علیان الہتیم، سالم بن ثعلبہ،شریح بن ادنی وغیرہم بلوائی سردار شریک ہوئے اورآپس میں کہنے لگے کہ اب تک طلحہؓ اورزبیرؓ قصاص کے خواہاں تھے لیکن اب تو امیر المومنین بھی انہیں کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں آج ہم کو جُدا ہونے کا حکم مل چکا ہے،اگر آپس میں ان کی صلح ہوگئی تو متفق ہونے کے بعد یہ ہم سے ضرور قصاص لیں گے اور ہم سب کو سزادیں گے،اُشتر نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ طلحہؓ وزبیرؓ ہوں یا علیؓ ہوں ہمارے متعلق تو سب کی رائے ایک ہی ہے،اب جو یہ صلح کرلیں گے تو یقیناً ہمارے خون پر ہی صلح کریں گے،لہذا میرے نزدیک تو مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلحہؓ و زبیرؓ وعلیؓ تینوں کو عثمانؓ کے پاس پہنچادیں،اس کے بعد خود بخود امن وسکون پیدا ہوجائے گا،عبداللہ بن سبا نے جو اس مجلس کا پریسیڈنٹ بنا ہوا تھا کہ کہ تم لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اورحضرت علیؓ کے ہمراہ اس وقت بیس ہزار کا لشکر موجود ہے،اسی طرح بصرہ میں طلحہؓ وزبیرؓ کے ہمراہ بھی تیس ہزار سے کم فوج نہیں ہے،ہمارے لئے اپنے مقصد کا پورا کرنا سخت دشوار ہے،سالم بن ثعلبہ بو لاکہ ہم کو صلح ہوجانے تک کہیں الگ اور دور چلے جانا چاہئے شریح نے بھی اسی رائے سے اتفاق ظاہر کیا،لیکن عبداللہ بن سبا بولا کہ یہ رائے بھی کمزور اورغیر مفید ہے اس کے بعد ہر شخص اپنی اپنی رائےبیان کرتا رہا اور کوئی فیصلہ نہ ہوا،آخر کارسب نے عبداللہ بن سبا سے کہا کہ آپ اپنی رائے کا اظہار کریں،ممکن ہے کہ اُسی پر سب متفق ہوجائیں،عبداللہ بن سبا نے کہا کہ بھائیو!ہم سب کے لئےبہتری اسی میں ہے کہ سب کے سب حضرت علیؓ کے لشکر میں ملے جلے رہیں اوران کے لشکر سے جُدانہ ہوں،بالفرض وہ اگر جدا بھی کردیں اور ہم کو نکال بھی دیں تو ہم ان کے لشکر کے قریب ہی رہیں،زیادہ فاصلہ اختیار نہ کریں اور کہہ دیں کہ ہم اس لئے آپ سے قریب رہنا چاہتے ہیں کہ مباداصلح نہ ہو اورلڑائی چھڑ جائے تو ہم بروقت شریک جنگ ہوکر آپ کی امداد کرسکیں، شریک لشکر یا قریب لشکر رہ کر ہم کو کوشش کرنی چاہئے کہ دونوں لشکر جانبین سے جب ایک دوسرے کے قریب ہوں تو کسی صورت سے لڑائی چھڑ جائے اورصلح نہ ہونے پائے اور یہ کچھ مشکل کام نہیں ہے جس وقت فریقین آپس میں لڑ پڑے تو ہمارے لئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا۔