انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعزیر وحدود رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اگرچہ بعض صحابہ پولیس کی خدمت پر مامور تھے؛ تاہم اس وقت تک پولیس کا کوئی محکمہ قائم نہیں ہوا تھا،حضرت ابوبکرؓ نے اس پر صرف اس قدر اضافہ کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو پہرہ داری کی خدمت پر مامور فرمادیا اور بعض جرائم کی سزائیں متعین کردیں، مثلاً حد خمر کی نسبت رسول اللہ ﷺ کا طرز عمل نہایت مختلف تھا، ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام آپﷺ کی خدمت میں ایک شرابی کو پکڑ کر لائے ،توآپﷺ نے تمام صحابہ کو حکم دیا کہ مارتے جاؤ،سب نے جوتے ڈنڈے اورکھجور کی شاخوں سے مارنا شروع کیا، اخیر میں آپ نے اس کے منہ میں خاک جھونک دی۔ (ابوداؤد کتاب الحدود باب اذا تتابع فی شرب الخمر) لیکن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شرابی جھومتا ہوا جارہا تھا،صحابہ کرام نے اس کو آپﷺ کی خدمت میں حاضر کرنا چاہا وہ حضرت عباسؓ کے دروازے کے سامنے آیا تو ان سے لپٹ گیا اوربھاگ نکلا، آپ کو خبر ہوئی تو ہنس پڑے اورکوئی سزا نہیں دی۔ (ابوداؤد باب الحد فی الخمر) صحیح مسلم کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ایک شرابی کو انجیر کی چھڑی سے ۴۰ ضرب کی سزادی (مسلم کتاب الحدود با ب حد الخمر) اورحضر ت ابوبکرؓ نے اپنے دورخلافت میں اسی کو لازمی کردیا اورحضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی زمانے تک اسی پر عملدرآمد ہوتا رہا۔ (ابوداؤد، کتاب الحدود ،باب اذا اتابع فی شرب الخمر ،لیکن بخاری کتاب الحدود میں جو روایت ہے وہ اس کے بالکل مخالف ہے اس روایت کے الفاظ یہ ہیں، كُنَّا نُؤْتَى بِالشَّارِبِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمْرَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ فَنَقُومُ إِلَيْهِ بِأَيْدِينَا وَنِعَالِنَا) أن خالد بن الوليد كتب إلى أبي بكر الصديق رضي الله عنه أنه وجد رجلا في بعض ضواحي العرب ينكح كما تنكح المرأة فجمع لذلك أبو بكر أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم وفيهم علي بن أبي طالب فقال علي إن هذا ذنب لم تعمل به أمة إلا أمة واحدة ففعل الله بهم ما قد علمتم أرى أن تحرقه بالنار فاجتمع رأي أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يحرق بالنار فأمر أبو بكر أن يحرق بالنار حضرت ابوبکرؓکے عہدخلافت میں بعض جدید جرائم بھی پیدا ہوئے،مثلاً حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان کو لکھا کہ حوالی مدینہ میں ایک شخص فلاں گناہ میں مبتلا ہے چونکہ اہل عرب کے لئے یہ ایک جدید جرم تھا، اس لئے حضرت ابوبکرؓ نے تمام صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جلانے کی رائے دی اور تمام صحابہ نے اس پر اتفاق کیا۔ (الترغیب والترہیب،جلد۲،صفحہ ۱۱۶ الترہیب من اللواط) تعزیر وحدود کے متعلق حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا ؛لیکن حضرت عمرؓ نے پولیس کا ایک مستقل محکمہ قائم کیا، اوراس صیغہ میں متعدد چیزیں ایجاد فرمائیں مثلا : (۱)رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے زمانے تک جیل خانے کی کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوئی تھی ؛لیکن حضرت عمرؓ نے جیل خانے بنوائے، اول اول مکہ معظمہ میں حضرت صفوان بن امیہؓ کا مکان چار ہزار درہم پر خریدا اوراس کو جیل خانہ بنوایا، (مقریزی،جلد۲،صفحہ۱۷۸) پھر اوراضلاع میں جیل خانے بنوائے؛ چنانچہ کوفہ کا جیل خانہ نرسل سے بنا تھا، معن بن زائدہ نے بیت المال سے کچھ روپیہ کا غبن کیا تو ان کو اسی جیل خانہ میں قید کیا گیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۴۶۸) (۲)رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے زمانے تک کسی کو سولی کی سزا نہیں دی گئی تھی، لیکن حضرت عمرؓ نے بعض اشخاص کو سولی کی سزادی ،چنانچہ حضرت ام ورقہ بنت نوفلؓ کو ان کے غلاموں نے قتل کرڈالا تو حضرت عمرؓ نے ان کو سولی کا حکم دیا، اوریہ پہلی سولی تھی جو مدمینہ میں دی گئی،(ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب امامۃ النساء) ایک ذمی نے بجبر ایک مسلمان عورت کی آبروریزی کی تو اس کو بھی سولی کی سزا دی اورفرمایا کہ ہم نے اس پر کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے۔ (کتاب الخراج ،صفحہ ۱۰۹) (۳)مجرمین کی گرفتاری کے لئے اعلان واشتہار دیا؛ چنانچہ جن غلاموں نے حضرت ام ورقہؓ کو شہید کیا تھا وہ اعلان واشتہار ہی کے ذریعہ سے گرفتار ہوکر آئے تھے۔ (۴)تعزیروحدود کے لئے اشخاص متعین کئے جو مجرمین کو سزا دیتے تھے،اصابہ میں ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن ملیکہ کو اقامت حدود کی خدمت پر مامور کیا تھا۔ (اصابہ تذکرۃ عبید اللہ بن عبداللہ بن ابی بکرؓ) (۵)جِلاوطنی کی سزا اگرچہ اسلام میں کوئی جدید سزانہ تھی، تاہم حضرت عمرؓ کے عہد میں اس پراس کثرت سے عمل ہوا کہ گویا وہ ان کی اولیات میں قرار پائی۔ (بخاری کتاب المحا بین میں ہے ان عمر بن الخطاب غرب ثم لم تزل تلک السنۃ) لیکن ایک بار جب انہوں نے ایک شخص کو جِلاوطن کیا اور وہ شام میں جاکر عیسائی ہوگیا تو اس وقت سے جلاوطنی کی سزا موقوف کردی۔ (۶)بعض سزائیں سخت کردیں، مثلا حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں شراب پینے کی سزا ۴۰ درے تھی ان کے زمانے میں شراب نوشی کی کثرت ہوئی تو انہوں نے صحابہ کرام کے مشورے سے اسی درے کردئے۔ (مسلم کتاب الحدود باب حد الخمر) (۷)احتساب کے متعلق جو کام ہیں مثلا ًکوئی شخص خرید وفروخت میں دھوکہ نہ دے، شراب علانیہ بکنے نہ پائے،کوئی شخص سڑک پر مکان وغیرہ نہ بنوانے پائے ،ان کی طرف خاص طور پر توجہ کی، اگرچہ پتہ نہیں چلتا کہ انہوں نے احتساب کا کوئی مستقل صیغہ قائم کیا تھا، تاہم یہ صحیح طورپر معلوم ہے کہ انہوں نے احتساب کا کوئی مستقل صیغہ قائم کیا تھا، تاہم یہ صحیح طورپر معلوم ہے کہ انہوں نے اس کام کے لئے افسر متعین کئے تھے موطا امام مالک میں ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عتبہؓ کو بازار کی نگرانی کے لئے مقرر فرمایا تھا اور حضرت سائب بن یزیدؓ کو ان کا مدد گار بنایا تھا،(موطا اماممالک کتاب البیوع) ان کے علاوہ بھی متعدد اہلکار تھے جو ناجائز تجارت کی روک ٹوک کرتے تھے۔ (موطا امام محمدؓ باب الشرکۃ فی البیوع) حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورخلافت میں یہ محکمہ اسی حالت میں قائم رہا، لیکن حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں زیاد نے اس صیغہ کو نہایت ترقی دی ،اس نے چار ہزار آدمی پولیس میں بھرتی کئے جن کے افسر عبداللہ بن حصن تھے پانچسو آدمی خاص طور پر مسجد کا پہرہ دیتے تھے اور وہاں سے کبھی نہیں ہٹتے تھے اس انتظام کا مقصد کچھ ہی کیوں نہ ہوتا ہم اس کی وجہ سے ملک کے امن و امان میں اس قدر ترقی ہوئی کہ کوئی شخص اگر راستہ میں کوئی گری پڑی چیز پاجاتا تھا تو لاکر براہ است اس کے مالک کے حوالے کرتا تھا، زیاد خود کہتا تھا کہ اگر کوفہ اورخراسان کے درمیان ایک رسی بھی گم ہوجائے تو مجھ کو اس کے لینے والے کے نام کی خبر ہوجائے گی، ایک دن اس نے ایک گھر میں گھنٹے کی آواز سنی پوچھا تو معلوم ہوا کہ لوگ پیرہ دے رہے ہیں بولا اس کی ضرورت نہیں اگر کوئی مال چوری جائےگا تو میں اس کا ضامن ہوں۔ اس کے زمانے میں عشا کی نماز کے بعد اگر کوئی شخص گھر سے نکلتا تھا تو قتل کردیا جاتا تھا۔ (طبری،صفحہ۷۷،واقعات ۴۵ھ) حضرت امیر معاویہؓ نے اس محکمہ میں ایک جدید ایجاد یہ کی کہ مشتبہ چال چلن کے لوگوں کی جانچ پڑتال کروائی، اوران کے نام لکھوائے چنانچہ انہوں نے دمشق میں حضرت ابودرداؓ کے نام حکم بھیجا تھا کہ وہاں کے بدمعاشوں کے نام لکھ بھیجو۔ (ادب المفرد ات باب الظن) صحابہ کرام کے عہد خلافت میں پولیس کے محکمہ میں عہد بہ عہد جو ترقیاں ہوئیں، یہ اس کی سادہ تاریخ ہے اب ہم کو اس پر اخلاقی اورمذہبی حیثیت سے نگاہ ڈالنی چاہئے کیونکہ صحابہ کرام کے دورخلافت کا طغرائے امتیاز صرف سیاست نہیں ، بلکہ اخلاق ومذہب ہے۔ پولیس کا محکمہ اخلاقی اورمذہبی روح کی سب سے بڑی قربان گاہ ہے؛لیکن صحابہ کرام نے اپنے دورخلافت میں اس کو اخلاقی اورمذہبی روح کی سب سے بڑی درس گاہ بنادیا تھا اورجہاں کہیں سیاست اوراخلاق میں باہم تصادم ہوتا تھا وہاں اخلاق کو سیاست پر مقدم رکھتے تھے، ایک بار ایک مجرم نے حضرت عمرؓ کے سامنے اقرار کیا کہ اس نے اپنی بی بی کے ساتھ ایک شخص کو ملوث پایا اس لئے دونوں کو قتل کردیا، حضرت عمرؓ نے اپنے عامل کو لکھا قصاص لیا جائے؛لیکن مخفی طورپر ہدایت کی کہ دیت لے کر مجرم کو چھوڑدیا جائے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ ہالی بن حرام) اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خاص طورپر تجسس کی ممانعت فرمائی ہے لا تجسواولا یغتب بعضکم بعضا عیوب کی جستجو میں نہ رہو اور تم میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ بالخصوص امراءوعمال کے لئے توحدیث شریف میں خاص طورپر تجسس کی ممانعت آئی ہے۔ قل ان الا میراذ اتبغی الربیۃ فی الناس افسد ھم امیر اگر لوگوں کی برائیاں ڈھونڈےگا تو ان کو خراب کردے گا۔ ہمارے زمانے میں اگر اس پر عمل کیا جائے تو دفعۃً پولیس کا نظام درہم برہم ہوجائے ؛لیکن صحابہ کرام کے عہد میں حدود اللہ سے آگے کیونکر قدم بڑھایا جاسکتا تھا؟ اس لئے انہوں نے پولیس کے فرائض بھی انجام دیئے اوراس آیت پر بھی عمل کیا۔ ایک بار لوگ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی خدمت میں ایک شرابی کو پکڑ لائے اورکہا کہ اس کی ڈاڑھی سے شراب ٹپک رہی ہے، بولے ہم کو تجسس کی ممانعت کی گئی ہے ہم صرف ظاہری باتوں پردارو گیر کرتے ہیں۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی النہی عن التجس) حضرت ابو محجن ثقفیؓ شراب کے سخت عادی تھے، ایک بار حضرت عمرؓ کی خدمت میں آئے اور ان کو محسوس ہوا کہ انہوں نے شراب پی ہے،لوگوں سے کہا ان کا منہ تو سونگھو، لیکن سب نے کہا یہ تجسس ہے،آپ کو اس کی ممانعت کی گئی ہے،حضرت عمرؓ فوراً رک گئے۔ (اصابہ تذکرہ ابو محجن تقفی) ایک بار حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے ساتھ رات کو پہرہ دینے نکلے ایک جگہ چراغ کی روشنی نظر آئی ،پاس جا کر دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ بند ہے اور اندر لوگ شوروشغب کررہے ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے فرمایا کہ یہ لوگ شراب پی رہے ہیں تمہاری کیا رائے ہے؟ بولے اللہ تعالی نے ہم کو تجسس کی ممانعت فرمائی ہے اس لئے وہاں سے فورا ًواپس آئے۔ (اصابہ تذکرہ ربیعہ بن امیہ) ایک بار حضرت عقبہ بنؓ عامر کے پرائیویٹ سیکرٹری نے ان سے کہا کہ میرے پڑوسی شراب پیتے ہیں میں نے ان کو منع کیا ؛لیکن نہیں مانتے اب میں پولیس کو بلاتا ہوں بولے جانے بھی دو، رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے جو لوگ عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں وہ گویا زندہ درگور لڑکی کو بچالیتے ہیں۔ (ابو داؤد کتاب الادب باب فی الستر علی المسلم) پولیس بجبر جرائم کا اقرار کرواتی ہے؛لیکن صحابہ کرام کے سامنے لوگ خود جرائم کا اقرار کرتے تھے اور وہ ان سے انکار کرواتے تھے، ایک بار ایک شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں آکر کہا کہ میں نے چوری کی ہے ،انہوں نے پہلی بار ڈانٹا دوسری بار اس نے پھر اقرار کیا تو بولے تم نے خود اپنے اوپر کامل شہادت دیدی، ایک بار ایک عورت نے حضرت عمرؓ کے سامنے چار بار زنا کا اقرار کیا تو بولے اگروہ انکار کردیتی تو ہم اس پر حد نہ جاری کرتے۔ (کتاب الخراج القاضی ابی یوسف،صفحہ۱۰۳) پولیس کا محکمہ عفوودرگذر کامخالف ہے؛لیکن صحابہ کرام اکثر مجرمین سے عفودرگذر فرماتے تھے، حضرت عمرؓ کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت سخت تھے؛ لیکن ایک بار حضرت حاطبؓ کے غلاموں نے کسی کی اونٹنی چرائی اوراس کو ذبح کرڈالا ،حضرت عمرؓ کی خدمت میں مقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے پہلے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، پھر فرمایا یہ بھوک سے مرجائیں گے اس لئے اس کا تاوان دلوادیتا ہوں، اونٹنی کے مالک سے پوچھا کہ اس کی قیمت کیا تھی؟ اس نے کہا چار سودرہم ملتے تھے ،مگر میں نہیں فروخت کرتا تھا، حضرت عمرؓ نے آٹھ سو درہم دلواکر غلاموں کو رہا کردیا۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیہ باب القضاء فی الضواری والحریتہ) یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اگر ذار سا بھی حیلہ پاجاتے تھے تو سزا نہیں دیتے تھے ،بیت المال اگرچہ خلیفہ وقت کی ذمہ داری اورحفاظت میں رہتا ہے،تاہم چونکہ وہ مسلمانوں کا مشترکہ خزانہ ہے اس لئے اس میں بہر حال یہ احتمال قائم رہتا ہے کہ اگر اس میں کسی نے تصرف کیا ہوگا تو اپنا حق سمجھ کر کیا ہوگا، اس بنا پر جب کوفہ کے بیت المال میں چوری ہوئی تو حضرت عمرؓ نے مجرم کا ہاتھ نہیں کاٹا،(کتاب الخراج للقاضی ابویوسف ،صفحۃ ۱۰۴) غلام اور آقا کے مال میں بھی یہی اشتباہ قائم رہتا ہے، اس لئے جب ان کے سامنے ایک شخص نے اپنے غلام کو پیش کیا کہ اس نے میری بی بی کا آئینہ چرایا ہے جس کی قیمت ۶۰ درہم تھی تو حضرت عمرؓ نے اس کو یہ کہہ کر رہا کردیا کہ تمہارا غلام تھا اور تمہارا ہی مال چرایا۔ (موطا امام مالک کتاب الحدود باب مالا قطع فیہ) عام الرماوہ میں جب تمام عرب سخت قحط میں مبتلا تھا تو عام حکم دیا تھا کہ کسی چور کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں؛ لیکن باوجود اس عفوودرگذر کے جب جرم ثابت ہوجاتا تھا اورتمام حیلوں کی رگ کٹ جاتی تھی تو کوئی چیز صحابہ کرام کو اقامت حدود سے باز نہیں رکھ سکتی تھی ،ان معاملات میں انسان فطرۃ ذاتی تعلقات سے متاثر ہوتا ہے؛ لیکن صحابہ کرام کی اخلاقی طاقت نے اللہ تعالی کی راہ سے اس سنگ گراں کو بالکل ہٹادیا تھا۔ ولید حضرت عثمانؓ کے بھائی اور کوفہ کے گورنر تھے ،انہوں نے ایک بار شراب پی اورتحقیقات کرنے پر جرم ثابت ہوا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حکم دیا کہ ان کو اسی کوڑے لگائیں۔ (بخاری کتاب المناقب فضائل عثمانؓ،اگرچہ نفس حدیث میں شراب نوشی کی تصریح نہیں ہے لیکن حواشی میں تصریح ہے) حضرت قدامہ مظعونؓ بڑے رتبے کے صحابی اورحضرت عمرؓ کے سالے تھے، انہوں نے شراب پی تو حضرت عمرؓ نے ان پر حد جاری کرنی چاہی، تمام صحابہ نے اس کی مخالفت کی تو انہوں نے فرمایا: لأن يلقى الله تحت السياط أحب إليّ من أن ألقاه وهو في عنقي، ائتوني بسوط، تام. (اسد الغابہ تذکرہ حضرت قدامہ بن مظعونؓ) اگر وہ کوڑوں کے نیچے مرجائیں تو یہ مجھے گوارا ہے؛ لیکن یہ گوارا نہیں کہ میں خدا سے ملوں اوراس کی ذمہ داری میری گردن پر ہو لاؤ مضبوط کوڑا۔ یہود نے اقامت حدود میں رذیل وشریف کے درمیان سخت ناگوار تفریق قائم کررکھی تھی؛ لیکن صحابہ کرام نے اس میں ہمیشہ عزیز وذلیل کو برابر سمجھا، صحابہ کرام میں سب سے زیادہ معزز خود خلیفہ وقت تھا ؛لیکن اگر اس سے کوئی جرم سرزد ہوجاتا تھا تو رعایا کا ہر فرد اس کی پیٹھ پر کوڑا مارسکتا تھا، ایک بار حضرت ابوبکرؓ نے اعلان فرمایا کہ میں صدقے کے اونٹ تقسیم کروں گا تب لوگ آئیں مگر ہمارے پاس کوئی بلا اجازت نہ آئے، لیکن ایک بدوہاتھ میں مہارلئے ہوئے آیا اوربلا اجازت ان کے پاس چلا آیا، انہوں نے اسی مہار سے اسے مارا جب اونٹ کی تقسیم سے فارغ ہوئے تو اس کو بلایا اورکہا کہ اسی مہار سے اپنا قصاص لو، حضرت عمرؓ نے کہا یہ سنت نہ قائم کیجئے، بولے قیامت میں خدا کو کیا جواب دونگا۔ (کنز العمال،جلد۳،صفحہ ۱۲۷) ایک بار حضرت عمرؓ امورخلافت میں مشغول تھے ،ایک شخص فریاد لے کر آیا انہوں نے غصے میں اس پر کوڑا اٹھایا وہ ناراض ہوکر چلا تو خود بلا کر اس کے سامنے اپنا کوڑا ڈالدیا اورکہا مجھ سے قصاص لے۔ (اسد الغابہ تذکرہ حضرت عمرؓ ) خلیفہ کے بعد امراوعمال کا درجہ تھا ان کی نسبت حضرت عمرؓ نے عام اعلان فرمادیا تھا۔ انی لم ابعث عمالی لیضربواابشار کم ولا لیاخدوااموالکم فمن فعل بہ ذالک فلیرفعہ الی اقصہ منہ (ابوداؤد کتاب الحدود باب القود بغیر حدید) میں نے اپنے عمال کو اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ وہ لوگوںکو ماریں پیٹیں یا بجبران کا مال لے لیں، اگر کسی کے ساتھ ایسا کیا جائے تو وہ مجھے سے استغاثہ کرے میں اس کا قصاص لوگا۔ یہ صرف اعلان نہ تھا؛ بلکہ اس پر عمل بھی ہوتا تھا؛ چنانچہ جب یہ اعلان ہوا تو ایک شخص کھڑا ہوا اورکہا کہ اے امیر المومنین آپ کے عامل نے مجھے سوکوڑے مارے ہیں، فرمایا تم بھی سو کوڑے مارنا چاہتے ہو، اٹھاؤ اور مارو، حضرت عمروبن العاصؓ پر یہ واقعہ نہایت گراں گذرا اوربولے کہ اگر یہ طریقہ جاری ہوا تو عمال کو سخت ناگوار ہوگا اورآئندہ کے لئے عام شاہراہ ہوجائے گی؛ لیکن انہوں نے کہا کہ اس سے کیونکر اغماض کیا جاسکتا ہے؛ جبکہ خود رسول اللہ ﷺ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے قصاص کے لئے پیش کرتے تھے ،بالا آخر حضرت عمروبن العاصؓ نے اس کو دو سودینار دے کر راضی کیا۔ (کتاب الخراج للقاضی ابویوسف،صفحہ ۶۶) غیر قومیں جب حلقہ اسلام میں داخل ہوتی تھیں تو عدم تعود کی بنا پر ان کو اس مساوات پر سخت تعجب اورتعجب کے ساتھ ناگواری ہوتی تھی جبلہ بن ایہم غسانی شام کا ایک رئیس تھا جو مسلمان ہوگیا تھا ،اس نے ایک بار کسی شخص کی آنکھ پر تھپڑ مارا، حضرت عمرؓ نے اس سے قصاص لینا چاہا تو اس نے کہا کیا اس کی آنکھ اورمیری آنکھ برابر ہے ؟ میں اس ملک میں رہنا پسند نہ کرونگا جہاں مجھ کو بھی کوئی دبا سکے، چنانچہ مرتد ہو کر روم کی طرف بھاگ نکلا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۱۴۲)