انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبدالرحمنؓ بن ابی بکر الصدیقؓ نام،نسب عبدالرحمن نام، ابوعبداللہ کنیت ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے صاحبزادہ تھے، والدہ کا نام ام رمان تھا، ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اوریہ دونوں حقیقی بھائی بہن تھے۔ ابتدائی حالات حضرت ابوبکر صدیقؓ کا تمام خاندان ابتداہی میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوا، لیکن حضرت عبدالرحمنؓ اس سے مستثنیٰ تھے، وہ عرصہ تک اپنے قدیم مذہب کے حامی رہے، غزوۂ بدر میں مشرکین قریش کے ساتھ تھے، اثنائے جنگ میں انہوں نے آگے بڑھ کر "ھل من مبارز" کا نعرہ لگایا، توحضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں میں خون اترآیا، انہوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا،لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کو اجازت نہ دی۔ (مستدرک حاکم:۳/۴۷۴) غزوۂ اُحد میں بھی وہ مشرکین مکہ کے ساتھ تھے۔ اسلام حضرت عبدلرحمنؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر ایمان لائے اور مدینہ پہنچ کر اپنے والد کے ساتھ رہنے لگے، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر کے تمام کام اورذاتی کاروبار زیادہ تر یہی انجام دیتے تھے اورنہایت اطاعت شعاری کے ساتھ ان کے غیظ وغضب کو برداشت کرتے تھے، ایک مرتبہ شب کے وقت چند اصحابؓ صفہ حضرت ابوبکرؓ کے یہاں مہمان تھے، انہوں نے حضرت عبدالرحمن ؓ کو ہدایت فرمائی کہ: "میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جاتا ہوں تم میرے واپس آنے سے پہلے ان کی مہمان نوازی سے فارغ ہوجانا" حضرت عبدالرحمنؓ نے حسب ہدایت وقت پر مہمانوں کے سامنے ماحضر پیش کیا ؛لیکن انہوں نے صاحب خانہ کی غیر موجودگی میں کھانے سے انکار کردیا، اتفاق سے حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت دیر کے بعد تشریف لائے اور یہ معلوم کرکے کہ مہمان اب تک بھوکے بیٹھے ہیں، حضرت عبدالرحمنؓ پر نہایت برہم ہوئے اورگالی دے کر کہا"خدا کی قسم!اس کو کھانے میں شریک نہیں کروں گا" حضرت عبدالرحمن ؓ ڈر سے مکان کے ایک گوشہ میں چھپ رہے تھے ،وہ کسی قدرجرأت کرکے سامنے آئے اوربولے، آپ مہمانوں سے پوچھ لیجئے کہ میں نے کھانے کے لیے اصرار کیا تھا، انہوں نے تصدیق کی اور کہا، واللہ! جب تک آپ عبدالرحمن کو نہ کھلائیں گے ہم لوگ بھی نہ کھائیں گے، غرض اسی طرح ان کا غصہ ختم ہوا، اوردسترخوان بچھایا گیا، حضرت عبدالرحمن ؓ فرماتے ہیں کہ اس روز کھانے میں اس قدر برکت ہوئی کہ ہم لوگ کھاتے جاتے تھے، لیکن وہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ میں اس میں سے کچھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھی لے کر حاضر ہوا جس کو آپ ﷺ اور ان کے بہت سے اصحاب نے تناول فرمایا۔ (بخاری :۲/۹۰۶) غزوات حضرت عبدالرحمنؓ فطرۃ نہایت شجاع وبہادر تھے، خصوصاً تیر اندازی میں کمال رکھتےتھے، واقعہ حدیبیہ کے بعد عہدِ نبوت میں جس قدر معرکے پیش آئے وہ ان میں سے اکثر میں جانبازی وپامردی کے ساتھ سرگرمِ کار زار تھے۔ جنگ یمامہ یمامہ کی خونریز جنگ میں حضرت عبدالرحمن ؓ نے اپنی قادراندازی کا غیر معمولی کمال دکھایا، انہوں نے اس جنگ میں غنیم کے ساتھ بڑے جانباز افسروں کو نشانہ بنا کر واصلِ جہنم کیا۔ قلعہ یمامہ کی دیوار ایک جگہ سے شق ہوگئی تھی،مسلمان اسی راستہ سے اندر گھسنا چاہتے تھے، لیکن دشمن کا ایک سردار محکم بن طفیل نہایت جانبازی کے ساتھ اس جگہ اڑا ہوا تھا حضرت عبدالرحمنؓ نے تاک کر اس کے سینہ پر ایک ایسا تیر مارا کہ وہیں تڑپ کر ڈھیر ہوگیا اور مسلمان اس کے ساتھیوں کو لیتے ہوئے اندر گھس گئے۔ (اصابہ:۱/۱۶۸) یزید کی بیعت سے انکار امیر معاویہ ؓ نے یزید کی جانشینی کے لیے اپنی زندگی ہی میں کوشش شروع کردی تھی، ایک دفعہ ان کی ایما سے مروان بن حکم والی مدینہ نے مسجد نبوی ﷺ میں لوگوں کو جمع کرکے یزید کے لیے بیعت لینا چاہا، اس وقت جن لوگوں نے اس کی مخالفت میں صدا بلند کی ان میں ایک حضرت عبدالرحمنؓ بھی تھے، انہوں نے مروان سے غضب آلود لہجہ میں کہا، کیا تم لوگ خلافت کو موروثی بادشاہت بنادینا چاہتے ہو، مروان نے برہم ہوکر کہا، صاحبو! یہ وہی ہے جس کی نسبت قرآن میں آیا ہے، والذی قال لوالدیہ اف لکما (یعنی والدین کی اطاعت نہ کرنے پر خدانے ان کی مذمت کی ہے) ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اپنے حجرہ میں یہ گفتگوسن رہی تھی، وہ غضبناک ہوکر بے اختیار بول اٹھیں، نہیں !واللہ نہیں!! عبدالرحمنؓ کے متعلق نہیں ہے، اگر چاہو تو میں اس کا نام لے سکتی ہوں جس کی نسبت یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ (اسد الغابہ جلد ۳،یہ واقعہ بخاری میں بھی مذکور ہے ) امیر معاویہ ؓ کو حضرت عبدالرحمن ؓ کی مخالفت کاحال معلوم ہوا تو انہوں نے ان کو خوش کرنے کے لیے ان کے پاس ایک لاکھ درہم کے توڑے بھیجدئیے، لیکن حضرت عبدالرحمن ؓ نے غایت بے نیازی کے ساتھ واپس کردیا اورفرمایا "واللہ ! میں دین کو دنیا کے عوض فروخت نہیں کرسکتا " (استیعاب :۲/۴۰۵) وفات حضرت عبدالرحمن ؓ اس واقعہ کے بعد مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے آئے، اورشہر سے تقریبا ۱۰ میل کے فاصلہ پر "حبشی" نام ایک مکان میں اقامت پذیر ہوئے ، یہاں تک کہ ۵۳ھ میں ایک روز ناگہانی طور پر اسی گوشہ عزلت میں واصل بحق ہوئے، بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سے ان کو اپنی صحت کے متعلق کسی قسم کی کوئی شکایت نہ تھی، وفات کے دن حسب معمول سوئے مگر ایسی نیند سوئے کہ پھر نہ اُٹھ سکے، حضرت عائشہ ؓ کے دل میں اس ناگہانی حادثہ کے باعث شبہ ہوا کہ کسی نے زہر وغیرہ دے کر مارڈالا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ایک عورت حضرت عائشہ ؓ کے گھر آئی، بظاہرتوانا وتنددرست تھی، ایک مرتبہ سجدہ کیا اورایسا سجدہ کیاپھر اس سے سرنہ اُٹھایا، اس واقعہ کے بعد سے ان کا شک جاتا رہا۔ (مستدرک حاکم :۲/۴۷۶) ام المومنین حضرت عائشہؓ کو ان کے انتقال کی خبر ملی تووہ حج کی نیت سے مکہ آئیں اوربھائی کی قبر پر کھڑی ہوکر بے اختیار روئیں، اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے: وکنا لندمانی جذیمۃ حقبۃ من الدھر حتی قیل لن یتصدعا فلما تفرقنا کانی ومالکا لطول اجتماع لم بنت لیلۃ معا پھر مرحوم بھائی کہ روح سے مخاطب ہوکر بولیں، بخدا، اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو اس قدر نہ روتی اورتم کو اسی جگہ دفن کرتی جہاں تم نے وفات پائی تھی۔ (مستدرک حاکم :۲/۴۷۶)