انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن ادریسؒ نام ونسب عبداللہ نام اورابو محمد کنیت تھی (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۱)نسب نامہ یہ ہے ،عبداللہ ابن ادریس بن یزید بن عبدالرحمن (خلاصہ تہذیب الکمال:۱۹) کوفہ کے قبیلہ اود کی ایک شاخ زعافر سے خاندانی نسبت رکھتے تھے،اس لیے کوفی اودی اورزعافری،تینوں نسبتوں سے مشہور ہوئے۔ (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۵۰۱) ولادت ان کے سن پیدائش کے بارے میں محققین بہت مختلف الرائے ہیں حافظ ذہبی نے نشاندہی کی ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی ولادت ۱۳۰ھ میں ہوئی(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۸)علامہ ابن سعد نے طبقات میں بروایت طلق غنم ۱۱۵ھ کو ان کا سنِ ولادت قرار دیا ہے (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۱)لیکن اس سلسلہ میں سب سے زیادہ معتبر ومستند خود ابن ادریس کا بیان ہے جس کوحافظ ابنِ حجر نے احمد بن جو اس کی روایت سے نقل کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ ابن ادریس کو کہتے سنا: ولدت فی سنۃ ۱۱۰ ،علامہ عسقلانی اس کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں "وکذا رواہ غیر واحد"علاوہ ازیں صاحبِ تہذیب نے ۱۲۰ھ کے قول کو لفظِ قیل سے ذکرکیا ہے جس سے اس کا ضعف ظاہر ہے۔ (تہذیب التہذیب:۵/۱۴۶) فضل وکمال انہیں علم وفضل کی دولت بے بہاوراثۃً نصیب ہوئی تھی،ان کے دادا یزید جلیل المرتبت تابعی تھے،جنہوں نے حضرت ابو ہریرہؓ کے دامانِ فیض سے خوشہ چینی کی تھی،اسی طرح عبداللہ کے والد ادریس بھی وقت کے بلند پایہ عالم اورماہر فن تھے،ان گوناگوں مناسبتوں سے عبداللہ بھی علم کی دولت سے مالا مال ہوئے،منتخب زمانہ تابعین سے اکتساب ضوء کیا اورپھر خود بھی افتاء واجتہاد کے منصب پر فائزہوئے،حافظ ذہبی انہیں :الامام القدوۃ الحجۃ احد العلام اورالحافظ العابد لکھتے ہیں (العبر:۱/۳۰۸،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۸)ابو حاکم کا بیان ہے: ھوا مام من ائمۃ المسلمین وہ ائمۃ اسلام میں سے ہیں۔ حسن بن عرفہ کہتے ہیں: مارأیت بالکوفۃ افضل منہ (تہذیب التہذیب:۵/۱۴۴) میں نے کوفہ میں ان سے بڑا فاضل نہیں دیکھا۔ امام احمد بن حنبل"کان عبداللہ بن ادریس نسیج وحدۃ"کے الفاظ سے رطب اللسان ہیں ۔ (مرأۃ الجنان:۱/۴۳) شیوخ انہوں نے بکثرت محدثین سے سماع حاصل کیا تھا،جن میں اجلۂ روزگار تابعین کی بھی خاصی تعداد شامل ہے،ممتاز اورلائقِ ذکر اساتذہ کے نام یہ ہیں: امام اعمش،ابن جریج،امام شعبہ،سہیل بن ابی صالح،یحییٰ بن سعید الانصاری ،داؤد بن ابی ہند، ہشام بن عروہ،حسن بن فرات،ابو اسحاق الشیبانی ۔ (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۱۹۱ وتہذیب التہذیب :۵/۱۴۴) تلامذہ خود امام زعافری کے آفتابِ کمال کی کرنوں سے جن علماء کےدِل منور ہوئے،ان میں امام مالک،امام احمد، عبداللہ بن مبارک،اسحاق بن راہویہ عبداللہ بن ابی شیبہ ،ابو خثیمہ،زیاد بن ایوب،یحییٰ بن آدم،ابوبکر بن ابی شیبہ،حسن بن ربیع اورحسن بن عرفہ جیسے یکتائے عصر ائمۃ شامل ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۵/۱۴۴) مرویات کا پایہ حدیث ومتعلقاتِ حدیث کی معرفت میں ابن ادریس کا پایہ نہایت بلند تھا،ابنِ مدینی کا بیان ہے کہ اس فن میں وہ اپنے والد بزرگوار پر بھی تفوق رکھتے تھے۔ عبداللہ بن ادریس فوق ابیہ فی الحدیث (خلاصہ تذہیب:۱۹۱) عبداللہ بن ادریس کو حدیث میں اپنے والد پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ محققین علماء نے ان کی ثقاہت،حجیت،تثبت اوراتقان کو بصراحت تسلیم کیا ہے،ابن معین کہتے ہیں ثقۃ فی کل شئی (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۱) ابو حاتم کا بیان ہے: ھو حجۃ یحتج بھا وھو امام من ائمۃ المسلمین ثقۃ (تہذیب التہذیب:۵/۱۴۵) وہ حجت،امام اورثقہ ہیں۔ علامہ ابن سعد رقم طراز ہیں: وکان ثقۃ مامونا کثیر الحدیث حجۃ صاحب سنۃ وجماعۃ (تہذیب التہذیب:۵/۱۴۵) وہ ثقہ،مامون،کثیر الحدیث حجت اوراہل سنت تھے۔ علاوہ ازیں امام نسائی،عجلی اورامام احمد نے بھی انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ عبادت وصالحیت علم وفضل کے ساتھ ان کی دنیائے عمل بھی بہت روشن تھی،عبادت وریاضت اورتقویٰ وصالحیت میں وہ کوفہ کے ممتاز ترین علماء میں شمار کیے جاتے تھے،بیان کیا جاتا ہے کہ کوفہ میں ان سے بڑا عابد کوئی نہ تھا "لم یکن اعبد منہ"(شذرات الذہب:۱/۳۳) ابن عمار بیان کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ان برگزیدہ بندوں میں تھے،جن کا نمایاں وصف نیکی وتقویٰ ہوتا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۵/۱۴۵) یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں "کان عابدا فاضلاً" (ایضاً) مسلک اگرچہ وہ دوسری صدی کے دیگر ائمہ کی طرح منصبِ امامت واجتہاد پر فائز تھے،لیکن اپنے فتاویٰ اورفقہی اقوال میں بیشتر مسلکِ اہل مدینہ کی اتباع کرتے تھے۔ (ایضاً) موطا امام مالکؒ کی روایات امام مالکؒ نے بایں ہمہ جلالت علم و تفوق زمانی ابن ادریس سے کافی سماع حاصل کیا تھا اوران دونوں میں بہت گہرے دوستانہ مراسم تھے،بیان کیا جاتا ہے کہ مؤطا کی تمام روایات کا سما ع امام مالکؒ نے ابن ادریس سے حاصل کیا تھا۔ ان جمیع مارواہ مالک فی المؤطا سمع من ابن ادریس (تذکرۃالحفاظ :۱/۲۵۷) امام مالکؒ نے مؤطا کی تمام روایات کی سماعت ابن ادریس سے کی تھی۔ جاہ ومنصب سے بے اعتنائی وہ تاحیات جاہ ومنصب سے کنارہ کش رہے دنیا نے ان کے قدموں میں بار ہاحبہ سائی کی ؛لیکن انہوں نے بے نیازی کا لائق تقلید نمونہ پیش کرتے ہوئے اسے ٹھکرادیا؛چنانچہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے ایک بار ان کے سامنے قضا کا عہدہ پیش کیا اور اس کے قبول کرنے پر ازحد اصرار کیا؟ لیکن ابن ادریس نے اپنی عدم صلاحیت کا حیلہ کرکے اس پیشکش کو مسترد کردیا، ان سے قبل خلیفہ مذکور نے یہ منصب حافظ وکیع ابن الجراح کے سُپرد کرنا چاہا تھا،مگر انہوں نے بھی اسے ٹھکرادیا تھا اورپھربالآخر حفص بن غیاث نے اس کو قبول کرلیا،پھر ہارون نے پانچ ہزار درہم بطور زادِ راہ پیش کیا تو اول الذکر دونوں أئمہ نے اسے بھی لینے سے انکار کردیا اورابن غیاث نے لے لیا(البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۰۸)اس واقعہ کے بعد ابن ادریس کو قاضی حفص کی جانب سے سخت تکدر پیدا ہوگیا؛کیونکہ انہوں نے أئمہ سلف کی شانِ استغناء کو ٹھیس پہنچائی تھی،بروایتِ صحیح منقول ہے کہ ابن ادریس نے اس کے بعد قاضی حفص سے تاحیات بات نہ کرنے کی قسم کھالی تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۵،والبدایہ والنہایہ:۱۰/۲۰۸) استغناء کا دُوسرا واقعہ ایک بار خلیفہ ہارون الرشید حج کی غرض سے مکہ جارہا تھا سرِ راہ کوفہ سے اس کا گذر ہوا،اس کے ہمراہ دونوں لڑکوں امین اورمامون کے علاوہ قاضی ابو یوسف بھی تھے، کوفہ پہنچ کر اس نے حکم دیا کہ تمام مقامی شیوخِ حدیث جمع ہوں تاکہ ان سے امین و مامون سماع حاصل کرسکیں،چنانچہ حسبِ حکم تمام علماء،خلیفہ کی فرودگاہ پر مجتمع ہوئے،لیکن عبداللہ بن ادریس اورعیسیٰ بن یونس،اسے وقارِ علمی کے منافی تصور کرکےنہ آئے۔ شیخ کوفہ سے اکتساب فیض کرنے کے بعد امین ومامون اب ادریس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے سو حدیثیں سماعت کیں، اس کے بعد مامون نے ان کی خدمت میں کچھ مال وزر پیش کیا،لیکن شیخ نےاس میں سے کچھ بھی قبول کرنا گوارانہ کیا۔ ان سے فارغ ہوکر دونوں خلیفہ زادے عیسیٰ بن یونس کے پاس پہنچے اوران سے بھی سماعِ حدیث کا شرف حاصل کیا،مامون نے انہیں دس ہزاردرہم دیئے جانے کاحکم دیا،جسے ابن یونس نے لینے سے انکارکردیا،پھرمامون نے اس رقم کو دوگنا کرکےپیش کیا،ابن یونس نے نہایت غضبناک ہوکر فرمایا "خدا کی قسم !اگر تم اس مسجد کو فرش سے چھت تک مال بھر کر پیش کرو تو بھی میں حدیثِ رسول ﷺکی تعلیم پر ایک حبہ لینا گوارا نہیں کرسکتا۔ (البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۰۸) وفات ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں،۱۰ذی الحجہ ۱۹۲ھ کو بمقام کوفہ راہ سپارِ عالمِ جاوداں ہوئے (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۱)انتقال کے وقت ۷۲ سال کی عمر تھی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۸)چونکہ حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق ان کی پیدائش ۱۲۰ھ میں ہوئی،اس لیے وفات کے وقت شیخ کی عمر ۷۲ سال قرار پاتی ہے،لیکن سنِ ولادت کے بارے میں ذہبی کے قول کو ضعیف مانا جاتا ہے اورجیسا کہ مذکور ہوا ،خود ابن ادریس کے بیان کے مطابق ۱۱۰ھ میں ان کی پیدائش ہوئی اس طرح ان کی عمر ۸۲ سال ہوتی ہے۔ جب ابن ادریس کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی صاحبزادی محبتِ پدری سے مغلوب ہوکر رونے لگیں، یہ دیکھ کر فرمایا،کس بات پر روتی ہو،میں نے اس گھر میں چار ہزار ختم قرآن کیے ہیں (البدایہ والنہایہ:۱/۲۰۹)یعنی خیر وبرکت کا ایک خزانہ اس مکان میں چھوڑ کر رخصت ہو رہاہوں،جو پس ماند گان کے لیے سروروانبساط کا باعث ہونا چاہئے۔