انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حفاظتِ قرآن ہر پیغمبر کی تعلیمات کی حفاظت اس کی کتاب کے محفوظ ہونے پر موقوف ہے،قرآن کریم سے پہلے جتنی کتابیں آئی ہیں، اس میں سے چند باقی ہیں، باقی سب فنا ہوکررہ گئیں اور جوباقی ہیں ان میں سےبعض کئی بار جل کر پھر وجود میں آئی اورپھر ان کا ترجمہ ہوتے ہوتے ترجمہ کرنے والوں کی طرف سےتحریفات وتغیرات سےبھی آراستہ رہیں؛ الغرض یہ کتابیں اپنی اصل کھو بیٹھی ہیں، اس لیےکہ اللہ تعالی نے ان کتابوں کو دائمی اور آخری بناکر نہیں بھیجاتھا؛ اسی وجہ سےان کی دائمی حفاظت کا وعدہ بھی نہیں کیا گیا تھا، لیکن قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ جس کے متعلق یہ وعدہ کیا گیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے باقی اورمحفوظ رہے گا،اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے اپنے اوپر لی اورفرمایا: "اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ"۔ (الحجر:۹) ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) پھر اس وعدہ کو ایک دوسری آیت میں دہرایا ہے: "اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ"۔ (القیامہ:۱۷،۱۸،۱۹) ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوادینا،تو جب ہم اس کو پڑھنے لگا کریں تو آپ اس کے تابع ہوجایا کیجئے پھر اس کا بیان کردینا ہمارے ذمہ ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانوی) اس آیت میں قرآن کی قرأت یعنی لفظ وعبارت اور بیان یعنی معنی دونوں کی ذمہ داری حق تعالی نے خود اپنے اوپر لےلی ہے۔ (روح المعانی:۲۱/۴۷۳) تیسری آیت میں اس کی تصریح ہے کہ کبھی اس حق میں باطل کی آمیزش نہ ہوسکے گی: "وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌoلَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہo تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ"۔ (فصلت:۱،۲) اوریہ بڑی باوقعت کتاب ہے جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے کی طرف سے آسکتی ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ خدائے حکیم محمود کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) یعنی یہ کتاب اپنے حریف(دشمن)کو اپنے دلائل کے ذریعہ کمزورکردےگی،باطل نہ اس کے سامنے سے اس میں مل سکتا ہے، اور یہ سچ ہے،یعنی نہ لفظ وعبارت کی طرف سے اورنہ حقیقت ومعنی کی جہت سے؛ کیونکہ وہ ایک حکمت والے کی طرف سے اتری ہے،اس لیے وہ اپنی حکمت ودانائی کی تعلیم سے غالب رہے گی اورچونکہ وہ ایک مکمل خوبیوں والے کی طرف سے عطا ہوئی ہے اس لیے وہ ہر باطل کے عیب سے پاک رہے گی۔ (تفسیرابن کثیر:۷/۱۸۳) یہ قرآن کا خود اپنا دعوی ہے جس کی صداقت پر چودہ سوبرس کی تاریخ گواہ ہے ،یہ اور بات ہے کہ جن آیات واحادیث کے ظاہری اورلغوی معنی لینا کسی دلیل قطعی کی وجہ سے ممکن نہ ہو،تو اس میں ایسی مناسب تاویل کی جاتی ہے جو دلیل قطعی کے مخالف نہ ہو جیسے شرح عقائد میں ہے: "وَالنُّصُوْصُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ تُعْمَلُ عَلٰی ظَوَاھِرِھَا مَالَمْ یَصْرِفْ عَنْھَا دَلِیْلٌ قَطْعِیٌّ"۔ (شرح عقائد:۱۶۶) اورکتاب وسنت کی نصوص اپنے ظاہری معنی پر محمول کی جاتی ہیں جب تک کوئی دلیل قطعی اس کے خلاف نہ ہو۔ اوراگر کبھی کوئی بری ذہنیت رکھنے والے نے معنوی تحریف کی جسارت کی تو امت مسلمہ کی ایک جماعت نے اللہ کی توفیق اوراپنی تلوار،قلم،زبان اوربیان کے ذریعے اس کی تحریف وتاویل کو چلنے نہیں دیا اور ہر طرح سے قرآن کی حفاظت کا فریضہ انجام دیاہے۔