انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حفاظتی انتظامات سب سے پہلے حضور اکرمﷺ نے مدینہ کی حفاظت کے لئے رضاء کاروں کے دستے متعین کئے ،یہ رضا کار ساری ساری رات جاگ کر شہر کے ارد گرد پہرہ دیتے اور خود حضور اکرم ﷺ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے، دوسرا قدم حضور اکرم ﷺ نے یہ اٹھایا کہ کچھ رضاء کار دستے مکہ سے مدینہ آنے والے راستوں کی دیکھ بھال کے لئے روانہ کئے، کبھی کبھی ان کی قریش کے آدمیوں سے مد بھیڑ بھی ہوجاتی،تیسرا اہتمام یہ کیا کہ مدینہ کے آس پاس بسنے والے مختلف قبیلوں سے دوستی کے معاہدے کرنے شروع کردئیے تاکہ یہ لوگ دشمنوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں امن و امان قائم رکھنے میں مسلمانوں کی مدد کریں ، یہ کام زیادہ تر انہی دستوں سے لیا جاتا، کبھی حضور اکرم ﷺ خود بھی تشریف لے جاتے؛ چنانچہ بنی ضمرہ ، بنی مدلج اور جہینہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن گئے ، مگر مکہ والے کب باز آنے والے تھے ، جمادی الآخر ۲ ہجری میں حضور اکرم ﷺ بنی مدلج سے معاہدہ کرکے مدینہ واپس آئے ، چند ہی روز بعد اطلاع ملی کہ مکہ کے ایک سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چراہ گاہ پر حملہ کیا اور کچھ مویشی لوٹ کر لے گیا، حضور اکرم ﷺ اس کے تعا قب میں بدر کے قریب وادی سفوان تک تشریف لے گئے مگر کرز ہاتھ نہ آیا، اس کی قسمت میں قبول اسلام کی عزت لکھی تھی چنانچہ مشرف بہ اسلام ہوکر فتح مکہ کے موقع پر شہید ہوا، تاہم اس و اقعہ سے مسلمانوں پر اہل مکہ کے عزائم بے نقاب ہوگئے اور رسول اکرم ﷺ نے حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار فرمانے میں زیادہ اہتمام فرمایا۔ (سیرت طیبہ)