انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۶)چودھری غلام محمد پرویز چودھری صاحب کا عقیدہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی طے شدہ شریعت نہیں جسے ابدیت حاصل ہو اور اس میں ہمیشگی ہو، ان کا موقف یہ ہے کہ جزئیات مختلف حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں، ان کے ہاں ان بدلتی جزئیات کوہی شریعت کہتے ہیں، جووقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلنی چاہئے آنحضرتﷺ کے زمانے کی شریعت صرف اُس دور کے لیئے تھی اِس دور کے لیئے نہیں، ہمارے زمانے کی شریعت یہ ملت (وفاقی اسمبلی) طے کرے گی، اُنہیں حدیث سے طے کرنا درست نہیں، پرویز صاحب کی مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ ہوں: "جن جزئیات کوخدا نے خود متعین نہیں کیا، ان کے متعلق خدا کا منشاء یہی تھا کہ وہ ہرزمانے کے تقاضوں کے مطابق بدلتی رہیں اور جن جزئیات کورسول اللہ نے متعین کیا، ان کے متعلق حضورﷺ کا بھی یہ منشاء نہیں تھا کہ وہ قیامت تک کے لیئے ناقابل تغیر وتبدل رہیں"۔ (مقامِ حدیث:۲/۲۹۹) "ہم قرآنی اصولوں کی روشنی میں اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے قوانین خود متعین کریں؛ یہی قوانین شریعتِ اسلامی کہلائیں گے؛ نہکہ وہ قوانین جواپنے زمانے کے حالات کے مطابق کسی سابقہ اسلامی حکومت (حضور کی حکومت) نے وضع کیئے تھے"۔ (ماہنامہ طلوعِ اسلام:۲۷، پرویز صاحب کا مضبون زکوٰۃ پر، اکتوبر سنہ۱۹۵۰ء) "اگرخدا کا منشاء یہ ہوتا کہ زکوٰۃ کی شرح قیامت تک کے لیئے اڑھائی فیصد ہونی چاہئے تووہ اُسے قرآن میں خود بیان نہ کردیتا، اس سے ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ یہ منشائے خداوندی ہی نہیں کہ زکوٰۃ کی شرح ہرزمانے میں ایک ہی رہے"۔ (ماہنامہ طلوعِ اسلام:۲۷، پرویز صاحب کا مضبون زکوٰۃ پر، اکتوبر سنہ۱۹۵۰ء) جناب غلام محمدپرویز کے دور میں فتنہ انکارِ حدیث پورے عروج کوپہنچا ہے، آپ کا اندازِ تصنیف کچھ زیادہ سلیقہ دار اور اُلجھا ہوا ہے، جس میں جھانک کراصل فتنے کی نشاندہی کرنا واقعی ایک بڑا مشکل کام ہے، آپ نے تفسیر "مفہوم القرآن" کئی جلدوں میں تحریر کی ہے جواردوعبارت اور حسن طباعت میں نفیس کتاب ہے؛ لیکن اس میں کس طرح اسلام کے قطعی نظریات سے کھیلا ہے، وہ مطالعہ سے ہی پتہ چلتا ہے کہ انکارِ حدیث کا نظریہ پرویز صاحب کوکہاں تک اسلام سے دور لے گیا ہے، اس کے لیئے اُن کی یہ تحریرات ملاحظہ ہوں: "اب آئیے قرآن کریم کی طرف __________ اس میں یہ بالتصریح کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی"۔ (معارف القرآن:۳/۵۴۷) مسلمانو! کیا یہ وہی عقیدہ نہیں جوقادیانیوں کا ہے؟ کیا قرآن حضرت عیسیٰ کو بار بار مسیح بن مریم نہیں کہتا؟ کیا ۳/پارہ سورہ آل عمران، رکوع۵/ میں اور ۱۶/پارہ، سورۂ مریم، رکوع۲/ میں اس پرمفصل بحث نہیں ملتی؟ اس وقت ہم اس موضوع پربحث نہیں کررہے، بتلانا یہ مقصود ہے کہ، دیکھو! انکارِ حدیث کس طرح پرویز صاحب کوقادیانیوں کے قریب لے گیا ہے __________ اورملاحظہ کیجئے: "حضرت عیسیٰ کے اب تک زندہ ہونے کی تائید قرآن کریم سے نہیں ملتی، قرآن پاک آپ کے وفات پاجانے کا بصراحت ذکر کرتا ہے"۔ (معارف القرآن:۳/۵۳۲) ہمیں تواب تک قرآن پاک میں کہیں وہ آیت نہیں ملی جس میں خاص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات صراحت سے مذکور ہو؛ رہی الفاظ کی کھینچا تانی اور دورازکار تاویلات تواس سے قادیانیوں کا لٹریچر بھرا ہوا ہے، پرویز صاحب لکھتے ہیں: "کوئی روایت جوحضرت عیسیٰ کی آمد کی خبر دیتی ہے، وضعی اور جھوٹی ہے، جوہمارے لیئے سند نہیں ہوسکتی"۔ (معارف القرآن:۳/۵۷۵) جناب جب آپ کے ہاں کل ذخیرۂ حدیث ہی جعلی اور وضعی ہے تویہاں حدیث مسیح کی تخصیص کس لیئے ہے؟ پرویز صاحب نے جس طرح قرآن پریہ بہتان باندھا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی وفات کا بصراحت ذکر کرتا ہے؛ اسی طرح قرآن پاک پر اُن کا دوسرا بہتان بھی ملاحظہ کیجئے: "قرآن کریم نے کس شدت اور تکرار سے اس کی صراحت فرمادی ہے کہ نبی اکرمﷺ کوکوئی حسی معجزہ نہیں دیا گیا اور حضور کا معجزہ صرف قرآن ہی ہے"۔ (معارف القرآن:۴/۷۲۹) پرویز صاحب تواس باب میں شدت اور تکرار کے مدعی ہیں؛ لیکن ہمیں توایک آیت بھی ایسی نہیں ملی جس میں بصراحت کہا گیا ہو کہ حضور اکرمﷺ کوکوئی حسی معجزہ نہیں دیا گیا، معتزلہ نے اسی پہلو سے معجزات کا انکار کیا تھا، فتنہ انکارِ حدیث اپنی لپیٹ میں اسلام کا ہربنیادی عقیدہ کوبھینچ رہا ہے اور اس دور میں مسٹر غلام احمد پرویز قلعہ اسلام کے لیئے دوسرے غلام احمد کا کردار ادا کررہے ہیں، زیادہ اعتماد یہود ونصاریٰ پرکرتے ہیں، کوئی بات صاف نہیں کرتے، دلیل کی بجائے تحکم اور جذبات سے زیادہ کام لیتے ہیں؛ لیکن دیوارِ اسلام کوگرانے میں وہ کسی دوسرے ملحد سے پیچھے نہیں۔ ہندوستان میں انکارِ حدیث کی باقاعدہ تحریک مولوی عبداللہ چکڑالوی سے چلی تھی پاکستان بننے پرمسٹرپرویز اس کشتی کوکھیتےرہے پرویز نے اپنے خیالات کی اشاعت میں اپنی سرکاری پوزیشن بھی استعمال کی اور افسران کے ایک حلقے کوجوپہلے سے علماء سے بغض رکھتا تھا متاثر کیا اور جدید تعلیم یافتہ لوگ کسی درجے میں اس کے گرد جمع ہوگئے پرویز نے اپنے اس موقف پرادبی انداز میں خاصا لٹریچر میلا کیا ہے، پہلے اس خیال کے لوگوں کوچکڑالوی کہا جاتا تھا اب انہیں پرویزی کہتے ہیں یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ سب سے پہلے پرویز کسریٰ ایران نے حضور کے نامہ مبارکہ کوپارہ کیا تھا، حدیث کا یہ پہلا انکار تھا، پرویز کے بعد اب ضلع گوجرانوالہ ان لوگوں کی زد میں ہے اور یہ لوگ غیرمقلدوں کی محنت پراپنی فصل کاٹنا چاہتے ہیں،فالی اللہ المشتکیٰ۔