انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صلح حدیبیہ کے نتائج معاہدہ کی چوتھی شرط سب سے زیادہ صحابہ کرامؓ کو ناگوار معلوم ہوتی تھی اب اس شرط کے نتائج دیکھئے،چند روز کے بعد ایک شخص ابو بصیرؓ جو مکہ میں اسلام قبول کرچکے تھے،مکہ کی ماند بوند سے تنگ آکر بھاگے اورمدینہ میں آکر پناہ گزیں ہوئے ،قریش نے اپنے دو آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجے کہ معاہدہ کے موافق ابو بصیرؓ کو واپس بھیجا جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیرؓ کی خواہش پر معاہدہ کی پابندی کو ترجیح دی اوراُن دونوں شخصوں کے ہمراہ ابو بصیر کو واپس کردیا،ابو بصیرؓ تو مکہ میں واپس جانا اپنے لئے موت سے بد تر سمجھتے تھے،ذی الحلیفہ پہنچ کر ابو بصیرؓ کو ایک راہ مفر سوجھی،انہوں نے اپنے محافظوں میں سے ایک سے کہا کہ تمہاری تلوار بڑی اعلیٰ درجہ کی معلوم ہوتی ہے، دوسرے محافظ نے یہ سُن کر اپنے ساتھی کی تلوار کو برہنہ کرکے ہاتھ میں لیا اور تعریف کرنے لگا، ابو بصیرؓ نےکہا: ذرا مجھے تو دکھاؤ،اُس نے تلوار بلا تکلف ابو بصیرؓ کے ہاتھ میں دےد ی، ابو بصیرؓ نے تلوار ہاتھ میں لیتے ہی ایک ہاتھ اس صفائی اور چابک دستی سے مارا کہ اُن میں سے ایک کا سر بُھٹا سا الگ جاپڑا، دوسرا فوراً اُٹھ کر بھاگ گیا،ابو بصیرؓ تلوار لئے ہوئے اُس کے پیچھے دوڑے،وہ وہاں سے مدینے ہی کی طرف بھاگا اور ابو بصیرؓ سے پہلے مدینے میں داخل ہوا، مسجدِ نبوی میں حواس باختہ گھبرایا ہوا آیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ساتھی کے مارے جانے کا حال سُنایا،وہ ابھی حال سُنا ہی رہا تھا کہ ابو بصیرؓ بھی تلوار لئے ہوئے سامنے سے نمودار ہوئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیرؓ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ آتشِ جنگ بھڑکانا چاہتا ہے،اگر اس کی مدد کی گئی تو ضرور لڑائی کراکررہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سُن کر ابو بصیرؓ کو یقین ہوگیا کہ مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ نے تو اپنا عہد پورا کردیا اور مجھ کو ان مشرکوں کے سپرد فرمادیا تھا، لیکن خدانے مجھ کو پھر آزاد کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد کی پابندی میں مجھ کو پھر مشرکوں کے سپرد فرمائیں گے، لہذا میں جاتا ہوں ، یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیئے قریش کا آدمی مکہ میں گیا اور تمام حال قریشِ مکہ کو سُنایا ابو بصیرؓ مدینہ سے روانہ ہوکر ساحلِ سمندر کے قریب مقام عیص میں مقیم ہوگئے،ابوجندلؓ بن سہیل جن کا حال اوپرمذکور ہوچکا ہے،ابو بصیرؓ کا حال سن کر مکہ سے فرار ہوئے اور سیدھے مقام عیص میں ابو بصیرؓ کے پاس پہنچ گئے،اس کے بعد یکے بعد دیگرے جوشخص مکہ میں مسلمان ہوتا مکہ سے بھاگ کر ابو بصیرؓ کے گروہ میں شریک ہوجاتا،رفتہ رفتہ اُن کا ایک زبردست گروہ مقامِ عیص میں جمع ہوگیا، اب اس گروہ نے قریشِ مکہ کے قافلوں پر جو ملکِ شام کو تجارت کے لئے جاتے تھے،چھاپے مارنے شروع کردئیے، قریشِ مکہ کے لئے یہ گروہ اس قدر پر خطر ثابت ہوا کہ اُن کا ناک میں دم آگیا،اوروہ تنگ اورعاجز ہوکر بجز اس کے اورکچھ نہ کرسکے کہ انہوں نے بہ منت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم معاہدہ کی چوتھی شرط کو منسوخ قرار دیتے ہیں، اب جو شخص مسلمان ہوکر مکہ سے مدینے جائے گا ہم ہر گز اُس کو واپس نہ لیں گے اورازراہ کرم آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیص والے مسلمانوں یعنی جماعتِ ابو بصیرؓ کو بھی اپنے پاس مدینے میں بلالیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کی اس درخواست کو منظور فرمالیا اورابو بصیرؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم معہ اپنی جماعت کے مدینے میں چلے آؤ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عیص میں پہنچا ہے تو ابو بصیرؓ بیمار اورصاحب فراش تھے،انہوں نے ابو جندلؓ کو بلا کر ہدایت کی کہ تم اس حکم کی تعمیل کرو، اس کے بعد ابو بصیرؓ کا انتقال ہوگیااور ابو جندلؓ معہ رفقاء مدینے میں چلے آئے،ابو بصیرؓ کا مذکورہ واقعہ معاہدہ حدیبیہ کے سلسلہ میں اس جگہ مسلسل بیان کردیا گیا ہے ورنہ اس کا تعلق ۶ھ سے ہے۔