انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مکہ کا محاصرہ اور یزید کی موت مدینہ سے فارغ ہوکر مسلم بن عقبہ اپنی فوج کولے کرمکہ کی جانب روانہ ہوا، مسلم بیمار توتھا ہی، راستے میں بیماری نے اور ترقی کی اور مقامِ ابواء میں اس کی حالت نازک ہوگئی تواس نے حصین بن نمیر کوبلاکراپنی جگہ فوج کا سپہ سالار مقرر کیا اور خود مرگیا، مدینہ سے جولوگ فرار ہوئے تھے وہ بھی مکہ میں آکرجمع ہوگئے تھے، اس سال حج کے موقع پرتمام اہلِ حجاز نے عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پرخلافت کی بیعت کرلی تھی، حصین بن نمیر لشکرِ شام کولیے ہوئے مکہ کے قریب پہنچا اور عبداللہ بن زبیر کے پاس پیغام بھیجا کہ یزید کی اطاعت کرلو؛ ورنہ مکہ پرحملہ ہوگا، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے مقابلہ کی تیاری کی، عبداللہ بن زبیر کے بھائی منذر بن زبیر جومدینہ سے مکہ میں آگئے تھے، عبداللہ بن زبیر کی فوج کے ایک حصہ کے سردار مقرر ہوئے، سب سے پہلے انھوں نے میدان میں نکل کرلشکرِشام کوللکارا، اوّل مبازرہ کی جنگ میں منذر بن زبیر کے ہاتھ سے کئی شامی مارے گئے؛ پھرجنگ مغلوبہ شروع ہوئی، شام تک لڑائی جاری رہی اور کوئی فیصلہ شکست وفتح کا نہ ہوا، یہ لڑائی ۲۷/محرم سنہ۶۴ھ کوشروع ہوئی تھی؛ اگلے روز حصین بن نمیر نے کوہ ابوقبیس پرمنجنیق نصب کرکے خانہ کعبہ پرسنگ باری شروع کردی اور مکہ کا محاصرہ کرلیا، یہ محاصرہ وسنگباری ۳/ربیع الاوّل سنہ۶۴ھ تک جاری رہی ۳/ربیع الاوّل کوشامیوں نے روئی اور گندھک اور رال کے گولے بنابناکر اور جلاجلا کرپھینکنے شروع کیئے، جس سے خانہ کعبہ کا تمام غلاف جل گیا اور دیواریں سیاہ ہوگئیں، دومنجنیقیں رات دن سنگ باری اور گولہ باری میں مصروف تھیں، مکہ والوں کے لیے گھر سے نکلنا دشوار تھا، پترھوں کے صدمہ سے خانہ کعبہ کی دیواریں شکستہ ہوگئی تھیں اور چھت گرگئی تھی، اہلِ شام کے اس محاصرے نے بہت شدت اور سختی اختیار کی اور کل تعداد بعد کی امدادی فوج کے آجانے سے اہلِ شام کی پانچ ہزار تک پہنچ گئی تھی؛ یہاں اہلِ شام خانہ کعبہ اور شہرمکہ پرسنگ باری کررہے تھے، وہاں ۱۰/ربیع الاوّل کویزید نے مقامِ حوران میں تین سال اور آٹھ ماہ کی حکومت اور ۳۸/ یا۲۹/سال کی عمر میں انتقال کیا، یزید کے مرنے کی خبر اوّل حضرت عبداللہ بن زبیر کے پاس پہنچی؛ انھوں نے بلند آواز سے شامیوں سے کہا: کہ بدبختو! تم اب کیوں لڑرہے ہو؟ تمہارا گمراہ سردار مرگیا۔ حصیر بن نمیر نے اعتبار نہ کیا اور اس بات کوعبداللہ بن زبیر کی فریب دہی پرمحمول کیا؛ لیکن تیسرے دن جب اس کے پاس ثابت بن قیس نحعی نے کوفہ سے آکر یزید کے مرنے کی خبر پہنچائی تواس نے فوج کومحاصرہ اُٹھانے اور کوچ کرنے کا حکم دیا، روانگی سے پیشتر حصین بن نمیر نے عبداللہ بن زبیر کے پاس پیغام بھیجا کہ آج شب کوبطحٰی میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں؛ چنانچہ قرار داد کے موافق دس آدمی عبداللہ بن زبیر نے ہمراہ لیئے اور دس آدمی حصین بن نمیر کے ہمراہ گئے، مقامِ مقررہ میں پہنچ کرحصین بن نمیر نے کہا کہ میں آپ کوخلیفہ تسلیم کرنے اور آپ کے ہاتھ پربیعت کرنے کوتیار ہوں، میرے ساتھ پانچ ہزار جنگ جولشکر شام کا موجود ہے، یہ بھی میری تقلید کریں گے، آپ میرے ساتھ شام کے ملک میں چلیں، میں تمام اہلِ شام کوآپ کی بیعت کے لیئے آمادہ کروں گا، حجاز والے آپ کے ہاتھ پربیعت کرہی چکے ہیں، اہلِ شام کے بعد تمام عالمِ اسلام بلااختلاف آپ کوخلیفہ تسلیم کرلے گا، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ مجھ کوفریب دیا جارہا ہے؛ چنانچہ انکار کیا اور کہا کہ میں جب تک اہلِ شام سے انتقام نہ لے لوں گا ہرگز ان کومعاف نہ کروں گا۔ حصین بن نمیر آہستہ آہستہ کلام کرتا تھا اور عبداللہ بن زبیر بلند آواز اور درشتی سے جواب دیتے تھے، حصین نے کہا کہ میں آپ کوخلافت دینا چاہتا ہوں اور آپ مجھ سے لڑتے اور سختی سے جواب دیتے ہیں؛ غرض حصین بن نمیر وہاں سے جدا ہوکر اپنے لشکر میں آیا اور کوچ کا حکم دیا، بعد میں عبداللہ بن زبیر کواپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے قاصد کے ہاتھ کہلا کربھجوایا کہ مجھ کوشام کے ملک میں جانے کے لیے مجبور نہ کیا جائے؛ یہیں آکر بیعت کرلو، حصین نے کہاکہ بغیر آپ کے شام میں جائے ہوئے کام نہ چلے گا؛ غرض عبداللہ بن زبیر مکہ سے جدا نہ ہوئے اور حصین بن نمیر مکہ سے مدینہ کے قریب پہنچا تووہاں معلوم ہوا کہ یزید کے انتقال کی خبر سن کراہلِ مدینہ نے پھربنوامیہ کے خلاف کھڑے ہوکر یزید کے عامل کومدینہ سے نکال دیا ہے، جس کومسلم بن عقبہ مدینہ میں مامور ومتعین کرآیا تھا، حصین مدینہ کے باہر جاکر خیمہ زن ہوا تومدینہ کی شورش وہنگامہ آرائی کم ہوگئی اور جس قدر بنی اُمیہ مدینہ میں موجود تھے، وہ سب حصین بن نمیر کے لشکر میں چلے آئے اور کہا کہ ہم کواپنے ساتھ ملکِ شام کی طرف لے چلو، حصین نے کہا کہ آج رات کوتم یہیں ٹھہرو، صبح تم کوساتھ لیکر کوچ کریں گے، جب رات ہوئی توحصین بن نمیر تنہا علی بن حسین کی تلاش میں نکلا، ان سے ملا اور کہا کہ یزید فوت ہوگیا، اس وقت عالم اسلام کا کوئی امام نہیں ہے، تم میرے ساتھ ملکِ شام کی طرف چلو، میں تمام جہان کوتمہاری بیعت پرآمادہ کردوں گا اور تم خلیفہ وقت ہوجاؤ گے، اہل ِام کوتم اہلِ عراق کی طرح نہ سمجھو وہ تم کوہرگز دھوکہ نہ دیں گے اور نہ تمہارے درپے آزار ہوں گے، علی بن حسین نے کہا کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ ساری عمر کسی سے بیعت نہ لوں گا، تم مجھ کواسی حال میں رہنے دو اور کسی دوسرے جوخلافت کے لیئے تلاش کرلو، یہ کہہ کروہ حصین سے جدا ہوگئے، حصین اپنے لشکر میں آیا اور صبح بنوامیہ کوہمارہ لے کرشام کی طرف روانہ ہوا۔